کالاباغ ڈیم کی تعمیر کیلئے بھی قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دیدی جائے
قومی اسمبلی میں نئے ڈیمز کی تعمیر کیلئے قرارداد کی منظوری اور کالاباغ ڈیم کیلئے چیف جسٹس کی مثبت سوچ
قومی اسمبلی نے ملک میں نئے ڈیمز کی تعمیر کیلئے اقدامات اٹھانے کے حوالے سے پیش کی گئی قرارداد منظور کرلی ۔ یہ قرارداد گزشتہ روز حکمران تحریک انصاف کے رکن مخدوم سمیع الحسن گیلانی نے پیش کی۔ تاہم اپوزیشن جماعتوں نے قرارداد میں ڈیم کی وضاحت نہ کرنے پر احتجاج کیا اور بالخصوص پیپلزپارٹی کے ارکان نے مطالبہ کیا کہ قرارداد میں تعمیر کے متقاضی ڈیمز کے نام بتائے جائیں۔ اس پر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے کہا کہ یہ حیران کن بات ہے کہ اپوزیشن ملک میں پانی کے ذخائر کی تعمیر کیخلاف احتجاج کررہی ہے۔ اس پر پیپلزپارٹی کے نواب یوسف تالپور نے کہا کہ ہم نئے ڈیمز کی تعمیر کیخلاف نہیں‘ ہم بھاشا ڈیم کی تعمیر چاہتے ہیں مگر بات بھاشا ڈیم کی ہوتی ہے اور کالاباغ ڈیم تک پہنچ جاتی ہے جسے تین صوبوں نے رد کردیا ہے۔ اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے خواجہ محمد آصف نے بھی یہی موقف اختیار کیا کہ جب صرف ڈیم کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے ابہام پیدا ہوتا ہے۔ انکے بقول اس پر کوئی تنازعہ نہیں کہ ہمیں پانی کی کمی کا سامنا ہے اور اس کا ہم نے سدباب کرنا ہے۔ پیپلزپارٹی کے ارکان نے ایوان میں بھاشا ڈیم کی تعمیر کی حمایت کا باقاعدہ اعلان کیا اور کہا کہ سی پیک کے فنڈز سے ڈیم تعمیر کیا جائے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ تین صوبوں کی جانب سے کالاباغ ڈیم کی مخالفت پر ہم اسکی تعمیر کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہمیں چاروں اکائیوں کے نکتہ نظر کا احترام کرنا ہے اور آگے بڑھنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈیم کے ایشو کو حل نہ کیا تو پاکستان کا مستقبل تاریک ہوجائیگا۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومت اور اپوزیشن انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کیلئے پارلیمانی کمیٹی بنانے پر بھی متفق ہوگئی۔ چنانچہ اس معاملہ میں پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کیلئے متفقہ طور پر قرارداد منظور کرلی گئی۔ اپوزیشن لیڈر میاں شہبازشریف اور پیپلزپارٹی کے صدر بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی کی اس قرارداد کا خیرمقدم کیا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آئندہ چند سالوں میں ہمیں پانی کی کمی کے گھمبیر مسئلہ کا سامنا کرنا پڑیگا۔ آبی ماہرین کی جانب سے پہلے ہی وارننگ دی جاچکی ہے کہ زیرزمین پانی کی سطح جس تیزی کے ساتھ نیچے کو جارہی ہے‘ اسکی بنیاد پر آئندہ پانچ سال تک یہاں پانی کی سخت قلت ہوگی اور ہمیں اپنی زرخیز زمینیں سیراب کرنے کیلئے بھی پانی دستیاب نہیں ہوگا۔ سابق چیئرمین واپڈا ظفرمحمود تو اس سلسلہ میں واپڈا کے ماہرین کی تیار کردہ سروے رپورٹ پر بھی آگاہی کی مہم چلاتے رہے ہیں جس میں بلوچستان میں پانی کی نایابی کے باعث آئندہ چند سال میں عملاً قحط کی صورتحال پیدا ہونے کا عندیہ دیا گیا۔ اس تناظر میں ملک میں زیادہ سے زیادہ ڈیمز بنا کر پانی ذخیرہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا‘ چنانچہ ہمیں ملکی اور قومی ضرورت کا ادراک کرتے ہوئے ہر صورت ڈیمز بنانے ہیں چاہے وہ جہاں بھی بنیں اور جس نام سے بھی بنیں کیونکہ یہ قومی حیات کی بقاء کا سوال ہے۔ اس حوالے سے کالاباغ ڈیم کی تعمیر پر اس لئے زور دیا جاتا رہا ہے کہ اس کیلئے اربوں روپے کی لاگت سے پہلے ہی ہوم ورک مکمل کیا جاچکا ہے چنانچہ اب اس ڈیم کیلئے صرف ڈھانچہ کھڑا کرنا مقصود ہے جس کے بعد یہ ڈیم چار پانچ سال کے عرصہ میں سطح زمین پر اپریشنل ہو سکتا ہے۔ اگر اس ڈیم سے نوشہرہ یا کسی دوسرے ملحقہ علاقے کا زیادہ نقصان ہوتا نظر آتا تو سابق چیئرمین واپڈا انجینئر شمس الملک اسکے اولین مخالفین میں شامل ہوتے جو آبی ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ نوشہرہ کے شہری بھی ہیں مگر کالاباغ ڈیم کی سب سے زیادہ وکالت انہی نے کی۔ اسی طرح جب 2011ء کے سیلاب میں نوشہرہ عملاً ڈوب گیا تو اس وقت کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اور وفاقی وزیر مخدوم امین فہیم سمیت کالاباغ ڈیم کے مخالف متعدد سیاست دانوں نے اس امر کا اظہار کیا تھا کہ آج کالاباغ ڈیم موجود ہوتا تو نوشہرہ کبھی نہ ڈوبتا۔
اس تناظر میں یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ کالاباغ ڈیم کے مخالفین نے اس ڈیم پر محض سیاست کی ہے جبکہ اس ڈیم کی تعمیر نہ ہونے دینا درحقیقت بھارت کا ایجنڈا ہے جسے اس ڈیم کی صورت میں پاکستان کی نظر آنیوالے اقتصادی اور معاشی ترقی کی بنیاد پر اس ملک خداداد کو کمزور و بے بس کرنے کے اپنے خواب چکناچور ہوتے نظر آرہے تھے۔ اسی بنیاد پر بھارت نے یہاں اپنے ایجنٹوں اور وظیفہ خوروں کے ذریعے کالاباغ ڈیم کی مخالف ایک لابی قائم کی جو آج تک بغیر حقائق کا ادراک کئے اور بغیر عقل و فہم کی بات سنے کالاباغ ڈیم کی مخالفت کرتی چلی آرہی ہے۔ اس پس منظر میں یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اگر بھاشا ڈیم یا کسی بھی اور ڈیم کا نام کالاباغ ڈیم رکھ لیا جائے تو کالاباغ ڈیم مخالف لابی اسکی بھی مخالفت پر کمربستہ ہو جائیگی کیونکہ انہیں ملکی اور قومی مفادات و ضروریات سے کوئی سروکار نہیں ہے‘ انہیں محض بھارتی ایجنڈے کی تکمیل مقصود ہے جس کیلئے انہیں بھارت کی جانب سے مختص کئے گئے اربوں روپے کے فنڈز میں سے حصہ ملتا ہے۔
یہ امر واقع ہے کہ کالاباغ ڈیم پر قومی اتفاق رائے کا شوشہ اس ڈیم کو متنازعہ بناکر اسکی تعمیر نہ ہونے دینے کیلئے ہی چھوڑا گیا ہے ورنہ ملکی اور قومی ضرورتوں کے حامل کسی منصوبے کیلئے قومی اتفاق رائے حاصل کرنے کی بھلا کیا ضرورت ہے اور کیا بھارت نے اب تک تعمیر کئے گئے اپنے دو سو سے زائد ڈیمز میں سے کسی پر قومی اتفاق رائے کرایا ہے اور کیا بھارت کے کسی بھی سیاست دان نے بھارت کے کسی ڈیم پر سیاست کی ہے۔ بھارت تو درحقیقت ہمیں پانی کے ایک ایک قطرے سے محروم کرنا چاہتا ہے جس کا بھارتی وزیراعظم نریندر مودی متعدد مواقع پر اظہار بھی کرچکے ہیں اور اسی مقصد و نیت کے تحت بھارت نے قیام پاکستان کے ساتھ ہی کشمیر پر اپنا تسلط جمالیا تھا تاکہ وہاں سے پاکستان آنیوالے دریائوں کا پانی روک کر اسے بھوکا پیاسا مارا جاسکے۔ بعدازاں بھارت نے ہمارے ساتھ پانی کا تنازعہ کھڑا کرکے اسکے تصفیہ کیلئے عالمی بنک سے سندھ طاس معاہدہ بھی اپنی من مرضی کا کرالیا اور پھر اس معاہدے میں ہمیں ملنے والے معمولی ریلیف کو بھی غصب کرتے ہوئے ہماری جانب آنیوالے دریائوں پر ڈیمز کے انبار لگا دیئے جبکہ ہمارے عاقبت نااندیش حکمرانوں اور منصوبہ سازوں نے ایوب دور کے بعد کسی نئے ڈیم کی تعمیر کا ادراک ہی نہ کیا نتیجتاً ہمیں بتدریج توانائی کا بحران درپیش آگیا جبکہ اب ملک میں پانی کی قلت بھی ایک ڈرائونا خواب بن کر ہمارا پیچھا کررہی ہے۔
اس تناظر میں ہمیں بہرصورت کالاباغ ڈیم سمیت زیادہ سے زیادہ ڈیم تعمیر کرنے ہیں تاکہ اس ارض وطن کو قحط سالی کے عفریت سے بچایا جاسکے۔ اس کیلئے اصولی طور پر کسی بھی مخالفت کو خاطر میں نہیں لایا جانا چاہیے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے اسی بنیاد پر کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا بیڑہ اٹھایا تھا اور پھر کسی بھی ڈیم کی تعمیر ممکن بنانے کی خاطر انہوں نے سپریم کورٹ میں ڈیم فنڈ قائم کیا۔ وہ آج بھی اس امر کا ہی اظہار کررہے ہیں کہ کالاباغ ڈیم کے مخالفین کو اسکی اہمیت کا ادراک نہیں ہے جبکہ عالمی بنک نے بھی کالاباغ ڈیم کو موزوں قراردے رکھا ہے۔ انکے ان ریمارکس سے اس ارض وطن کیلئے انکی دردمندی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے پیار کے بغیر تو ہزاروں لوگ زندہ رہ سکتے ہیں مگر پانی کے بغیر کوئی ایک ذی روح بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔ یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور انکی پارٹی پی ٹی آئی کو بھی پانی کی ممکنہ قلت سے پیدا ہونیوالی صورتحال کی سنگینی کا احساس ہے چنانچہ وزیراعظم نے قوم اور اوورسیز پاکستانیوں سے خطاب کرتے ہوئے ڈیمز کی تعمیر کیلئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اور اس سلسلہ میں وزیراعظم کے فنڈ کو بھی سپریم کورٹ کے فنڈ کے ساتھ منسلک کردیا جبکہ انہوں نے قوم بالخصوص اوورسیز پاکستانیوں سے اس فنڈ میں زیادہ سے زیادہ رقوم جمع کرانے کی اپیل کی۔ چنانچہ اس معاملہ میں خاصی پیش رفت ہورہی ہے جبکہ اب قومی اسمبلی میں ڈیمز کی تعمیر کیلئے قرارداد کی متفقہ منظوری سے بھی مزید حوصلہ افزاء پیش رفت ہوگی تاہم اصولی طور پر ڈیمز کی تعمیر کا آغاز کالاباغ ڈیم سے ہی ہونا چاہیے جس کیلئے انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کی خاطر تشکیل دی گئی قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی کی طرز پر کالاباغ ڈیم کیلئے بھی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دے کر اس ڈیم کے مخالفین کے منہ بند کئے جا سکتے ہیں۔ ہمیں ملک و قوم کی بقاء و سلامتی کے معاملات پر بہرصورت کوئی مفاہمت نہیں کرنی چاہیے اور اس تناظر میں اولین ترجیح بنا کر کالاباغ ڈیم سمیت ملک میں زیادہ سے زیادہ ڈیمز تعمیر کرنے چاہئیں جس سے نہ صرف ہماری پانی کی ضرورتیں پوری ہوں گی بلکہ اس سے ملک کی سلامتی کمزور کرنے کی بھارتی سازشیں بھی ناکام بنائی جاسکیں گی۔