قرضے معاف کروانے والوں کی فہرست سینٹ میں پیش
ضیاءالحق سرحدی
zia_sarhadi@yahoo.com
وفاقی حکومت نے گزشتہ 25سال کے دوران مختلف مالیاتی اداروں سے قرضے معاف کرانے والی کمپنیوں اور افراد کی فہرست ایوانِ بالا (سینیٹ)میں پیش کر دی،جس میں انکشاف ہوا ہے کہ 1990ءسے لے کر 2015ءکے دوران 988سے زائد کمپنیوں اور شخصیات نے 4کھرب ،30ارب 6کروڑ روپے کے قرضے معاف کرائے،معاف قرضوں کے حجم کے اعتبار سے عبداللہ پیپرز پرائیویٹ لمیٹڈ نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا،جس نے 2015ءمیں ایک کھرب 54ارب 84کروڑ73لاکھ روپے کے قرضے معاف کرائے۔مہران بینک سکینڈل کے مرکزی کردار یونس حبیب نے1997ءمیں دوارب 47کروڑ روپے معاف کرائے ۔ریڈ کو ٹیکسٹائل کے مالک اور سابق چیئرمین احتساب بیوروسیف الرحمن خان نے 2006ءمیں ایک ارب سولہ کروڑ 67لاکھ روپے معاف کرائے۔فوجی سیمنٹ نے2004ءمیں پانچ کروڑ سے زائد کا قرضہ معاف کرایا۔سپیرئرٹیکسٹائل ملز پرائیویٹ لمیٹڈ نے 24کروڑ75لاکھ روپے معاف کرائے ،جس کے ذمہ داران میں تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر خان ترین اور جنرل (ر)پرویز مشرف دور کے وفاقی وزیر ہارون اختر بھی شامل ہیں۔چوٹی ٹیکسٹائل ملز نے2008ءمیں 30کروڑ روپے معاف کرائے،مالکان میں سابق رُکن قومی اسمبلی سردار جعفر خان لغاری شامل ہیں،سابق سپیکر فہمیدہ مرزا کی مرزا شوگر ملز نے2007ءمیں 7کروڑ روپے کا قرضہ معاف کرایا،2002ءمیں صادق آباد ٹیکسٹائل ملز نے5کروڑ سے زائد کا قرض معاف کرایا۔اس مل کے ذمہ داران میں تحریک انصاف کی قومی اسمبلی کی رکن شریں مزاری بھی شامل ہیں۔ایک ارب سے زائد قرض معاف کرانے والی کمپنیوں اور افراد کی تعداد 19ہے،قرضے معاف کرانے والوں کی طویل فہرست کو تو یہاں نقل کرنا ممکن نہیں۔تاہم اِس فہرست میں بعض نامورسیاست دانوں کے نام بھی شامل ہیںجن سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ حکومت پانامہ لیکس کی تحقیقات کے ساتھ ساتھ آگر قرضے معاف کرانے والوں کی تحقیقات بھی کرانا چاہتی ہے تو اس کی مخالفت کیوں ہوتی ہے۔سینیٹ میں قرضہ معاف کرانے والی کمپنیوں اور افراد کی جو فہرست پیش کی گئی ہے اس میں اربوں روپے معاف کرانے والی کمپنیاں اور افراد بھی شامل ہیں۔اب ظاہر ہے جتنی بڑی رقوم کے قرضے معاف کرائے گئے اُس کے لئے اتنا زیادہ اثرورسوخ استعمال کیا گیا ہوگا۔کیونکہ عام طور پر بینک چند ہزارروپے کا قرض معاف کرنے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتے،بلکہ جو لوگ قرض پر گاڑیاں لیتے ہیں وہ اگر ایک دو قسطیں ڈیفالٹ کر جائیںتو بینکوں سے وابستہ لوگ اِن گاڑیوں کو روک کر سِر راہ قبضہ کر لیتے ہیں اور گاڑی میں سوار لوگوں کو گاڑی سے اُتر نے پر مجبور کر دیا جاتا ہے اگر کوئی قرض دار فوری طور پر گاڑی سے اترنے میں "شرافت"کاثبوت نہ دے تو یہ لوگ بزور بازو قانون بھی ہتھ میں لے لیتے ہیں اور یہ مناظر سڑکوں پر کھلے عام دیکھے جا سکتے ہیں۔عدالتوں میں بھی بینکوں کی اِن زیادتیوں کی صدائے بازگشت سنی گئی۔ایک طرف تو سنگ دِلی کا یہ عالم ہے کہ چند ہزارروپے کے ڈیفالٹر کے ساتھ یہ سلوک کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف یہ دریا دلی کہ اربوں روپے کا قرض ڈکارنے کی اجازت دے دی جاتی ہے،فہرست پر ایک سرسری سی نظر ڈالنے ہی سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ قرض معاف کرنے کے یہ واقعات کسی ایک حکومت کے دورے سے تعلق نہیں رکھتے، ہر حکومت ایسی ہی فراخ دلی کا مظاہرہ کرتی رہی ہے۔جنرل پرویز مشرف تو آئے ہی کرپشن ختم کرنے کے لئے تھے،لیکن جتنا لمبا اُن کا عہدِحکومت تھا قرضے معاف کرانے والوں
کی فہرست بھی اتنی ہی طویل ہے۔
جب پیپلز پارٹی کے پہلے دورِحکومت میں بینکوں کو قومی تحویل میں لے لیا گیا تھا اس وقت بھی قرضے پہلے سیاسی مصلحتوں کی بنیاد پر دیئے جاتے تھے اور پھر ایسی ہی مصلحتوں کی بنا پر معاف بھی کر دیئے جاتے تھے ۔اس وقت تو زیادہ تر بینکوں کا تعلق نجی شعبے سے ہے تاہم حکومتیں اپنی سیاسی مصلحتوں کے پیشِ نظر اب بھی قرضے معاف کرتی ہیں اور جن بینکوں کے حصص سرکاری ملکیت میں ہیں وہاں تولوٹ مارمچی ہوئی ہے۔ کئی سال پہلے پنجاب بینک بھی ایسے ہی حشر سے دو چار ہوچکا ہے جس کے قرضوں کے کیس اب تک عدالتوں میں چل رہے ہیں،اس میں بینک کے سربراہ اور سیاست دانوں کی ملی بھگت شامل تھی۔مہران بینک کے سکینڈل میں تو بڑے بڑے نامور لوگ ملوث تھے۔اب سوال یہ ہے کہ قرضے معاف کرانے والوں کی جو فہرست سینیٹ میں پیش کی گئی ہے اس سے کیا حاصل ہوگا؟جو لوگ قرضے ڈکارگئے معاف کرانے کے بعد تو اب واپس کرنے سے رہے جو کمپنیاں اور اُن کے ڈائریکٹر اس نیت سے قرضے لیتے ہیں کہ اُنہوں نے ادا نہیں کرنے وہ روزِ اول سے قرض معافی کی بنیاد بنانا شروع کر دیتے ہیں اور بالآخر اس میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں،جن لوگوں نے بڑے بڑے قرضے معاف کرائے ہوتے ہیں وہ عموماًخودروزگار جیسی سکیموں کو ہدف ِ تنقید بناتے ہیں۔حالانکہ بینک آف پنجاب نے اس سکیم کے لئے جو قرض دے رکھا ہے اس کی ریکارڈ واپسی ہو رہی ہے اور 99فیصد لوگ بروقت قرض واپس کر رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یہ بینک اب پیشہ ورانہ طور پر کام کرکے آگے بڑھ رہا ہے اور سیاسی بنیادوں پر قرضے دے کر اسے ماضی میں جو نقصان پہنچ چکا ہے اس کا ازالہ بھی کر رہا ہے۔اصولی طور پر تو حکومت یا حکومت کے کسی اہلکار کو بینکوں کے امور میں کوئی مداخلت نہیں کرنی چاہئے،کوئی بینک کسی کو قرضہ دیتا ہے یا نہیںدیتا، معاف کرتا ہے یا نہیں کرتا یہ بینک کا اپنا اختیار ہونا چاہئے۔قرضوں کی معافی کے جو بین الاقوامی اصول ہیں انہی پر عمل بھی ہونا چاہئے۔سیاسی بنیادوں پر قرضوں کا اجر اور اس کی معافی بند ہونی چاہئے۔معاف کرائے گئے قرضوں کی واپسی کا تواب بظاہر کوئی امکان نہیں، البتہ آئندہ کے لئے ایسے ضابطے بنائے جاسکتے ہیں کہ سیاسی بنیادوں پر قرضوںکی معافی ممکن نہ رہے اور بینک صرف اپنے اصول وضوابط کے تحت ہی قرضے معاف کرنے کے مجاز ہوں۔آئین پاکستان موجود ہونے کے باوجود ،ریاست پاکستان میں قانون کا نفاذسب کے لئے برابر نہیں۔ ملک کے خزانے پر ہاتھ صاف کرنے والی بڑی مچھلیاں قانون کے آہنی شکنجے سے کیسے بچ نکلتی ہیں؟صد افسوس پاکستان میں بڑے مگر مچھ قانون کی گرفت سے صاف بچ نکلتے ہیں۔بظاہر قانون کی نظر میں سب برابرہیںمگرعملاً ایسا نہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت قرضے معاف کرانے والے شُرفا کے خلاف سخت سے سخت اقدامات اُٹھائے اور ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھے کے یہ کون سے شُرفا ہیں جو اربوں روپے لے کر بیرونی بینکوں میںچھپائے بیٹھے ہیں۔