ترجمان پاک فوج کا پشاور حملہ کی منصوبہ بندی افغانستان میں ہونے اور وزیر دفاع و خارجہ کا افغانستان سے معاملہ اٹھانے کا اعلان
وزیراعظم دہشتگردی کیخلاف ٹھوس کیس لے کر جنرل اسمبلی کے اجلاس میں جائیں
پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ پشاور میں پاک فضائیہ کے بڈھ پیر کیمپ پر حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی اور اسے کنٹرول بھی وہیں سے کیا جا رہا تھا۔ گذشتہ روز پشاور میں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حملے میں کالعدم تحریک طالبان کا گروپ ملوث ہے، انٹیلی جنس ادارے اس بارے میں مزید تحقیقات کر رہے ہیں، کچھ فون کالز بھی ٹریس کی گئی ہیں جن سے دہشت گردوں کے کارروائی کے دوران افغانستان میں رابطے کے شواہد ملے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کے پیچھے جو بھی ہیں وہ آہستہ آہستہ کھل رہے ہیں۔ افغانستان کے کراسنگ پوائنٹس سکیورٹی رسک ہیں، 35 ہزار افغان لنڈی کوتل کے راستے سے روزانہ آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے دہشت گردوں کو اندر سے کسی نے معلومات دی ہوں۔ تاہم تحقیقات میں جب تک کوئی تفصیل سامنے نہیں آتی اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ دہشت گرد کس علاقے میں ٹھہرے، اس کی تحقیقات ہو رہی ہیں۔ ان کے بقول دہشت گرد آگے جا کر مزید لوگوں کو مارنا چاہتے تھے۔ کیمپ میں دو ہزار سویلین رہتے ہیں۔ اگر دہشت گرد وہاں پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے تو اس سے ناقابل تلافی نقصان ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کا حملہ اپریشن ضرب عضب کا ردعمل ہو سکتا ہے، ہم ہر قیمت پر ملک کا دفاع کرینگے اور ملک کو دہشت گردی کی لعنت سے پاک کرینگے۔
ہماری سکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے تو عرصہ دراز سے اس امر کی نشاندہی کی جا رہی ہے کہ افغان سرزمین پاکستان پر دہشت گردی کے لئے استعمال ہو رہی ہے جہاں بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ دہشت گردوں کو تربیت دیتی ہے اور پھر اسلحہ اور فنڈ دیکر انہیں دہشت گردی کیلئے پاک افغان سرحد عبور کرا کے پاکستان بھجوا دیتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں کراچی اور بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کے متعدد واقعات میں بھارتی ساختہ اسلحہ کے استعمال کے شواہدملے، کراچی سے بھارتی اسلحہ ایک تنظیم کے ذیلی دفتر سے برآمد بھی ہوا جبکہ ہماری سکیورٹی ایجنسیوں نے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی متعدد وارداتوں میں بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد بھی حاصل کر لئے جس کی بنیاد پر اس وقت کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے شرم الشیخ ملاقات کے موقع پر اپنے ہم منصب بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ سے شکوہ بھی کیا اور انہیں ’’را‘‘ کے حوالے سے ثبوت بھی فراہم کئے جبکہ اس وقت کے وزیر داخلہ رحمان ملک کراچی میں دہشت گردی کے حوالے سے بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کے ملوث ہونے کے ثبوت بھی سامنے لاتے رہے۔ بھارت میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد تو پاکستان کی سالمیت کمزورکرنے کے ایجنڈے کے تحت سرحدی کشیدگی میں اضافہ کے ساتھ ساتھ ’’را‘‘ کے ایجنٹوں کے ذریعہ بلوچستان، کراچی، پشاور اور ملک کے دوسرے شہروں میں دہشت گردی کی پے درپے وارداتوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا جس کے بارے میں خود بھارتی وزیر داخلہ نے اعتراف کیا کہ ہم پاکستان کی دہشت گردی کا جواب دہشت گردی کی شکل میں ہی دے رہے ہیں۔ اسی طرح بھارتی وزیراعظم نریندر مودی خود بھی پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانے سے متعلق اپنے عزائم کا اظہار کرتے رہتے ہیں جنہوں نے بیجنگ جا کر پاکستان، چین اقتصادی راہداری منصوبے پر احتجاج کیا اور چین کی قیادت کی جانب سے اس احتجاج پر سخت ردعمل وصول کیا تو ان کی بھارت واپسی کے ساتھ ہی بلوچستان میں دہشت گردی کی وارداتوں کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا جس کا مقصد اقتصادی راہداری اور گوادر پورٹ کے غیرمحفوظ ہونے کا تاثر دینا تھا۔
مودی دور میں اب تک پاکستان میں دہشت گردی کی جتنی بھی وارداتیں ہوئی ہیں جن میں آرمی پبلک سکول پشاور کی سفاکانہ دہشت گردی اور واہگہ بارڈر پر پرچم اتارنے کی تقریب کے بعد ہونے والی دہشت گردی بھی شامل ہے، ان سب میں ہماری ایجنسیوں کی تحقیقات کے مطابق بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ ملوث پائی گئی ہے۔ گزشتہ ماہ پنجاب کے وزیر داخلہ کرنل شجاع خانزادہ اور گزشتہ ہفتے ملتان کے گنجان آباد علاقے میں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں میں بھی ’’را‘‘ کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد ہماری ایجنسیوں کو مل چکے ہیں اس لئے پاک فضائیہ کے پشاور کیمپ پر گزشتہ روز کی سفاکانہ دہشت گردی میں بھارتی ’’را‘‘ کے ملوث ہونے کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جا سکتا جبکہ پاک فوج کے ترجمان نے ابتدائی طور پر حاصل ہونے والے شواہد کی بنیاد پر اس امر کی تصدیق کی ہے کہ دہشت گرد افغانستان سے آئے جن کے دہشت گردی کی واردات کے دوران بھی افغانستان میں رابطے رہے۔ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے بھی اسی تناظر میں پشاور دہشت گردی کے تانے بانے افغان سرزمین سے ملنے کا عندیہ دیا ہے جن کے بقول حملہ آور فارسی اور پشتو بول رہے تھے جبکہ ہم افغانستان کے ساتھ دہشت گردی کا معاملہ مسلسل اٹھا رہے ہیں۔ اسی طرح مسلم لیگ (ق) کے سیکرٹری جنرل سنیٹر مشاہد حسین سید نے گزشتہ روز سینٹ کے اجلاس میں پشاور دہشت گردی پر اظہار خیال کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں الزام عائد کیا کہ پاکستان میں دہشت گردی بھارت کرا رہا ہے اس لئے بادی النظر میں پشاور کیمپ پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کو بھارتی ’’را‘‘ کی ہی سرپرستی حاصل تھی جبکہ کابل انتظامیہ ’’را‘‘ کے تربیت یافتہ دہشت گردوں کو اپنی سرزمین پر محفوظ ٹھکانے فراہم کر کے پاکستان کے اندر ’’را‘‘ کی دہشت گردی میں معاون بنتی ہے۔
یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے کہ اشرف غنی کی قیادت میں نئی افغان حکومت بھی اب پاکستان کی سالمیت کمزور کرنے کے بھارتی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے وہی کردار ادا کر رہی ہے جو سابق افغان صدر کرزئی امریکی اور بھارتی سرپرستی میں ادا کرتے رہے ہیں۔ توقع تو یہی تھی کہ تخت کابل کی تبدیلی سے پاکستان کی جانب تسلسل کے ساتھ زہریلی فضائیں چھوڑتے افغانستان کی جانب سے اب ٹھنڈی ہوا کا جھونکا بھی آئے گا جس کا افغان صدر اشرف غنی اپنے دورہ اسلام آباد اور پھر آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور قومی سلامتی کے مشیر سرتاج عزیز کے کابل کے الگ الگ دوروں کے موقع پر پاکستان کے لئے خیرسگالی کے جذبات کا اظہار کر کے عندیہ بھی دیتے رہے ہیں مگر پھر یکایک نئی دہلی کے دورے کے بعد ان کا پاکستان کے بارے میں لہجہ تبدیل ہو گیا اور وہ دہشت گردی کے حوالے سے مودی حکومت کے لب و لہجے میں ہی پاکستان پر الزامات تھوپتے نظر آئے، دو ہفتے قبل مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز نے دوبارہ کابل دورہ کر کے افغان حکومت کی غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش کی اور پاکستان میں دہشت گردی کیلئے افغان سرزمین استعمال ہونے سے متعلق حقائق سے بھی انہیں آگاہ کیا جبکہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھی انہیں افغانستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کی تفصیلات فراہم کر کے ان سے ملا فضل اللہ اور دوسرے دہشت گردوں کے خلاف اپریشن کرنے یا انہیں پاکستان کے حوالے کرنے کا تقاضہ کیا تھا۔ افغان صدر نے دہشت گردوں کے ٹھکانوںپر اپریشن کا یقین بھی دلایا اور افغان فورسز کی جانب سے دہشت گردوں کے ایک دو ٹھکانوں پر اپریشن بھی کیا گیا مگر مودی، اشرف غنی ملاقات کے بعد پاکستان افغانستان تعلقات کے معاملہ میں ماحول یکسر تبدیل ہو گیا۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کی جتنی بھی وارداتیں ہوئی ہیں ان میں شریک دہشت گردوں کے افغانستان سے ہی پاکستان میں داخل ہونے کے شواہد ملے ہیں جبکہ پشاور کیمپ پر گزشتہ روز کی دہشت گردی کی کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے ذمہ داری قبول کرنے سے پاک فوج کے ترجمان کا یہ بیان درست ثابت ہوتا ہے کہ دہشت گرد افغانستان سے آئے اور انہیں وہیں سے کنٹرول کیا جاتا رہا ہے۔ اس واردات میں دہشت گردوں کو سہولت ملنے کے حوالے سے بلاشبہ ہمارے سکیورٹی لیپس کا بھی عمل دخل ہے جس پر قابو پانے کیلئے سکیورٹی ایجنسیوں کے خصوصی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاہم ہماری سرزمین پر ہونے والی دہشت گردی میں بھارت اور افغانستان کے ملوث ہونے کے ٹھوس ثبوتوں کی موجودگی میں حکومت کو بھارت کے علاوہ افغانستان کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں بھی اب کوئی نرم پالیسی اختیار نہیں کرنی چاہئے اور نہ ہی ملک کی سالمیت کے درپے دشمنوں سے کسی نرمی کی توقع رکھنی چاہئے۔ اب کابل انتظامیہ کو شٹ اپ کال دینا بھی ضروری ہے اور پاکستان میں دہشت گردی کے لئے اس کی سرزمین استعمال ہونے کے تمام ثبوت اور شواہد عالمی قیادتوں اور اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی اداروں کے سامنے رکھنا بھی ضروری ہیں۔ اس وقت یو این جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس نیویارک میں شروع ہو چکا ہے جس میں اس ماہ کے آخری ہفتے وزیراعظم کی شرکت متوقع ہے اس لئے وزیراعظم نواز شریف مکمل تیاری کے ساتھ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوں اور ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ پاکستان کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے والے سفاک بھارتی اور افغان ہاتھوں کو بے نقاب کریں تاکہ اقوام عالم بھی علاقائی اور عالمی امن کیلئے خطرے کی گھنٹی بجانے والے بھارتی عزائم سے مکمل آگاہ ہو سکیں۔ اب ملک کی سالمیت کے تقاضوں کے تحت بھارت اور افغانستان کے خلاف ٹھوس موقف اور پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کی سالمیت کی جانب بڑھنے والے دشمن کے جنونی ہاتھوں کو روکا اور توڑا جا سکے۔