چین بھارت کے مابین 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے‘ نیوکلیئر ٹیکنالوجی میں تعاون کیلئے اتفاق…پاکستان کیلئے بھارت چین تجارتی و دفاعی معاہدے‘ لمحہ فکریہ
بھارت اور چین نے 12 معاہدوں پر دستخط کئے ہیں جن میں سے ایک معاہدے کے تحت چین اگلے پانچ سال میں بھارت میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر پر 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کریگا۔ چینی صدر ژی جن پنگ اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ان معاہدوں پر دستخط کئے۔ دونوں ممالک نے سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی میں تعاون کے معاملے پر مذاکرات شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ اس طرح سے چین بھی ان ممالک میں شامل ہو گیا ہے جو بھارت کو سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ رائٹر اور اے ایف پی کے مطابق دونوں رہنمائوں کے درمیان مذاکرات میں سرحدی تنازعہ چھایا رہا۔ نریندر مودی نے کہا ہے کہ انہوں نے سرحد کے ساتھ ہونیوالے مسلسل واقعات پر سنگین تشویش ظاہر کی ہے۔ مودی نے سرحدی تنازعہ جلد حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ چینی صدر نے کہا کہ انہوں نے سرحدی تنازعہ طے کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں باہمی اختلافات کا خاتمہ کرینگے۔ چینی صدر ژی جن پنگ کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ ترقی کیلئے سرحد پر امن بہت اہم ہے۔ چین بھارت کا اہم اقتصادی شراکت دار ہے لیکن دونوں ملک خطے میں اثر و رسوخ اور سرحد پر تنازعے میں الجھے رہتے ہیں۔ سرمایہ کاری کے منصوبے میں چین بھارت کے پرانے ریلوے نظام کو تیز رفتار ٹرین سسٹم کے ساتھ جدید اور بہتر بنانے میں مدد کریگا۔ اسکے علاوہ چین بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں بھی سرمایہ کاری کریگا۔
چین کے صدر ژی جن پنگ کے شیڈول میں پاکستان کا دورہ بھی شامل تھا جو پاکستان کی سکیورٹی صورتحال اور خصوصی طور پر اسلام آباد کے حساس ایریا ریڈزون میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی پارٹیوں کے دھرنوں کے باعث مؤخر ہو گیا۔ وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز بروقت وضاحت کیلئے چین گئے‘ صدر ژی نے ان کو یقین دلایا کہ پاک چین تعلقات مزید مضبوط ہونگے اور وہ مناسب وقت پر پاکستان کا دورہ کرینگے۔ سیاسی اکابرین اور دانشور حلقوں کی طرف سے دھرنے دینے والوں سے چینی صدر کے دورے سے قبل دھرنے ختم کرنے کو کہا گیا تو ان کا جواب تھا کہ وہ چینی صدر کی آمد پر جھنڈیوں سے ان کا استقبال کرینگے۔ یہ ایک بچگانہ بیان تھا۔ عمران خان کو یہ بھی کہتے رہے کہ چینی صدر کا دورہ پاکستان شیڈول ہی نہیں تھا۔ حکومت ان کو بدنام کرنے کیلئے جھوٹ بول رہی ہے۔ چینی صدر کا ستمبر میں پاکستان بھارت اور سری لنکا کا دورہ طے تھا‘ صرف تاریخوں کا اعلان ہونا تھا۔ عمران خان نے اسی کو جواز بنا کر کہہ دیا کہ حکومت دورے کے بارے میں غلط بیانی کر رہی ہے۔ اب یہ ثابت ہو گیا کہ چینی صدر نے ستمبر میں پاکستان آنا تھا‘ دھرنوں کے باعث نہیں آئے اور پروگرام کے تحت بھارت چلے گئے۔ گو چینی صدر نے پاکستان آنے کا وعدہ کیا ہے لیکن کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کب پاکستان آئینگے۔ وہ جب بھی پاکستان آئیں‘ فی الحال انکے دورے کی منسوخی سے پاکستان کو اتنا نقصان پہنچا ہے کہ اس کا ازالہ عمران خان کے دھرنے کے مقاصد حاصل کرنے سے بھی نہیں ہو سکتا۔ جدید دور میں آج کا کام کل پر تو کیا صبح کا شام تک بھی چھوڑیںگے تو ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائینگے۔ چین کے صدر کا دورہ تو کئی ماہ تک مؤخر ہو سکتا ہے جس میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے ہونے تھے۔ کیا دھرنا دینے والوں کے پاس چینی صدر کے دورے کے التواء سے ہونیوالے امکانی نقصانات کا کوئی مداوا ہے؟
ژی جن پنگ کے دورہ پاکستان کے التواء کا انکے دیگر ممالک کے دوروں اور ان ممالک کے ساتھ ہونیوالے معاہدوں پر کوئی مثبت اور منفی اثر پڑنے کا تو کوئی امکان نہیں ہے لیکن پاکستان بھارت‘ پاکستان چین اور بھارت چین تعلقات کے پیش نظر چین نے بھارت کے ساتھ جو تجارتی و دفاعی معاہدے کئے ہیں‘ اسکے پاکستان کے دفاع پر منفی اثرات ضرور مرتب ہونگے۔ پاکستان بھارت تعلقات کی طرح بھارت چین تعلقات بھی کبھی خوشگوار نہیں رہے۔ پاکستان بھارت کشمیر ایشو کی طرح بھارت چین سرحدی تنازع بھی قدیم اور شدید ہے۔ بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازع بہت پرانا ہے جب 1941ء میں بھارت پر اپنی حکمرانی کے دوران برطانیہ نے تبت کے ساتھ معاہدہ کیا تھا جس کے تحت میک موہن لائن دونوں ملکوں کے درمیان عملی طور پر سرحد قرار دی گئی تھی لیکن چین اسے تسلیم نہیں کرتا۔ 1962ء میں اسی سرحدی تنازع کے باعث دونوں ممالک کے درمیان جنگ بھی ہو چکی ہے۔ چینی صدر کے رواں دورے کے دوران بھی سرحدی ایشو موضوع بحث بنا رہا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے متنازع سرحد پر ہونیوالے واقعات پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ میڈیا رپورٹس سے یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ژی جن پنگ کا اس پر ردعمل دفاعی رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ باہمی اختلافات کا خاتمہ کرینگے۔
بھارت سرحدی تنازعات کے حوالے سے پاکستان اور چین کو اپنا یکساں دشمن سمجھتا ہے۔ اسکے ایک آرمی چیف نے چند سال قبل بیجنگ اور اسلام آباد پر96 گھنٹے میں قبضہ کرنے کی بڑھک ماری تھی۔ مسئلہ کشمیر کی موجودگی میں جس طرح پاکستان بھارت تعلقات اور تجارت کو فروغ نہیں مل سکتا‘ بھارت اور چین کس طرح تنازعات طے کئے بغیر آگے بلکہ بہت آگے بڑھ سکتے ہیں۔ بھارت دنیا کے کئی ممالک سے سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے تعاون کے معاہدے کر چکا ہے جبکہ پاکستان اسی ٹیکنالوجی کی کوشش کرے تو بھارتی حکام‘ حکمرانوں اور سیاست دانوں کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ چین نے پاکستان کے ساتھ دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ اس شعبہ میں تعاون کا فیصلہ کیا ہے۔ چین نے اب یہ نوازش بھارت پر بھی کردی ہے۔ بھارت اسلحہ کے انبار لگا رہا ہے‘ کئی ممالک سے وہ بغیر لائسنس کے اسلحہ فیکٹریاں لگانے کے معاہدے کر چکا ہے‘ وہ ایٹمی ٹیکنالوجی کو بھی جدید خطوط پر استوار کررہا ہے۔ اسکی یہ جنگی تیاریاں بلاشبہ پاکستان اور چین کیخلاف ہیں۔ ایسا ممکن تو نہیں ہے مگر فرض کرلیں پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کو اسلحہ فروخت کریں تو یقینًا یہ ایک دوسرے کیخلاف ہی استعمال ہو گا۔ کیا چین تائیوان کو بھی سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی فراہم کر سکتا ہے؟ بھارت کو ٹیکنالوجی دے کر چین کیا اپنے دیرینہ ہمدم پاکستان اور خود اپنے اوپر ظلم نہیں کریگا۔
چین بے شک کسی بھی ملک کے ساتھ سرمایہ کاری اور انفرسٹرکچر کے معاہدے کرنے میں خودمختار ہے‘ اس کو دعویٰ ہے کہ اسکی پاکستان کے ساتھ دوستی شہد سے میٹھی ہمالیہ سے اونچی اور سمندر سے گہری ہے اگر وہ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے ساتھ ایسے معاہدے کرتا ہے تو پاکستان کو ایسے دوست سے گلہ ضرور ہو سکتا ہے۔چین بھارت تجارتی و دفاعی معاہدے پاکستان کیلئے لمحہ فکریہ ہیں‘ ہمیں خود بھی یہ سوچنا ہوگا کہ آخر چین بھارت کے اتنا قریب کیسے چلا گیا۔ کیا ہماری سفارتکاری میں کوئی کسر رہ گئی تھی۔ اگر کسر رہ گئی تھی تو وہ فوری طور پر دور کرنے کی کوشش کی جائے۔