سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کے بڑے بیٹے، سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے بڑے بھائی مرتضیٰ بھٹو کی سولہویں برسی آج منائی جا رہی ہے۔
اٹھارہ ستمبر انیس سو چون کو پیدا ہونے والے میر مرتضیٰ بھٹو کو بیس ستمبرانیس سو چھیانوے کو کراچی میں ان کی رہائشگاہ سے چند قدم کے فاصلے پر پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔ پولیس مقابلہ دکھا کر جس شخص کو قتل کیا گیا تھا وہ ہارورڈ اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری کا حامل اور اس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کا بھائی تھا۔ جب مرتضیٰ بھٹو کو قتل کیا گیا تب وہ خود بھی رکن سندھ اسمبلی تھے۔میر مرتضی بھٹو نے اپنی زندگی میں کئی نشیب و فراز کا سامنا کیا۔ انیس سو ستتر میں فوج کی جانب سے اپنے والد کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے وہ بیرون ملک چلے گئے جبکہ مرتضیٰ بھٹو کی بعد کی زندگی کے بارے میں کئی سوال موجود ہیں۔عالمی استعماری قوتوں کے سخت مخالف مرتضیٰ بھٹو اپنی بہن بے نظیر بھٹو سے اقتدارکی سایست کے طرز عمل سے بہت اختلافات رکھتے تھےجبکہ یہ بھی ایک حقیقت تھی کہ بے نظیر بھٹو نہیں چاہتی تھیں کہ مرتضیٰ بھٹو واپس آئیں کیونکہ ان کو خدشہ تھا کہ اگر وہ وطن واپس آئے تو زندہ نہیں رہیں گے۔میر مرتضی بھٹو کے قتل کو سولہ برس گزرنے کے باوجود ان کے قاتلوں کا پتہ نہیں چل سکا۔ میر مرتضی بھٹو کو کس نے قتل کیاَ؟اس کی کھوج تو جیسے ختم ہی ہوچکی ہے۔یہ نہ تو ان کی بہن کے دور میں ممکن ہوا اور نہ ہی ان کے بہنوئی آصف علی زرداری کے دورصدارت میں ممکن دکھائی دیتا ہے۔پاکستان کی تاریخ میں یہ حقیقت انتہائی تلخ ہے کہ یہاں بڑے سوالوں کے جواب نہیں ملتے۔میر مرتضی بھٹو کا قتل بھی ایسا ہی جواب طلب سوال ہے جبکہ ان کے بعد خود ان کی بہن بے نظیر بھٹو کا قتل بھی ایسا ہی سوال بن چکا ہے۔