”میں تو جب کبھی سوچتا ہوں، شرم و ندامت سے میری گردن جھک جاتی ہے کہ کیا ہم مسلمان آج اس قابل ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم پر فخر کریں؟ ہاں جب ہم اس نور کو اپنے دلوں میں زندہ کر لیں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم میں داخل کیا تھا تو اس وقت اس قابل ہو سکیں گے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم پر فخر کریں۔ “ حضرت علامہ محمد اقبالؒ نے ان خیالات کا اظہار 82سال قبل 4دسمبر1931ءکو معتمر عالم اسلامی کے بیت المقدس میں منعقدہ اجلاس کے دوران کیا تھا۔ اتناعرصہ گزر جانے کے باوجود آج ہم اپنے گریبان میں جھانکیں تو بھی سوائے ندامت کے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ ہماری اس کج روی کے باعث ہی اغیار کو یہ جرا¿ت ہو رہی ہے کہ وہ ہمارے آقا و مولیٰ اورسرور کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخیوں کا تسلسل سے ارتکاب کر رہے ہیں۔ ملعون امریکی ٹیری جونز اور نوکولا باسلے کی طرف سے حال ہی میں تیار کردہ ایک شیطانی فلم کے باعث آج کل تمام اسلامی ممالک میں اہل ایمان سراپا احتجاج ہیں اور ان ملعونوں کے سرپرست اعلیٰ امریکہ کے سفارتخانوں کے باہر اپنا احتجاج ریکارڈ کروا رہے ہیں۔ وطن عزیز میں بھی یہ احتجاج دن بدن زور پکڑرہا ہے اور اس دوران کئی عاشقان رسول سیکورٹی اداروں کی طرف سے گولیوں کی بوچھاڑ میں مرتبہ¿ شہادت پر فائز ہوچکے ہیں۔ اس صورتحال کے تناظر میں نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ نے ”تحفظ ناموس رسالت “کے عنوان سے ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا جس کی صدارت آبروئے صحافت اور ٹرسٹ کے چیئرمین جناب مجید نظامی نے کی۔ نشست کی ابتداءممتازنعت خواں الحاج اختر حسین قریشی نے سید صبیح رحمانی کی نعت ”لب پہ نعت ِپاک کا نغمہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے“ انتہائی پرسوز انداز میں سنا کر حاضرین پر رقت طاری کر دی۔
جناب مجید نظامی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ آج ہم اس عظیم ہستی کی عقیدت میں اکٹھے ہوئے ہیں جن کی خاطر اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات پیدا کی ہے ۔ جب تک ہم حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرمت پر کٹ مرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے‘ تب تک ہمارا ایمان کامل نہیں ہو سکتا۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ملعون پادری ٹیری جونز اور اس کے ساتھیوںکی طرف سے شیطانی فلم کے خلاف حکومت پاکستان اور دیگر بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت کی طرف سے بڑا ”ماٹھا“ رد عمل سامنے آیا ہے۔ انہوں نے اس مسئلے پر ہماری قوم کے جذبات کی اس طرح ترجمانی نہیں کی جس طرح قوم ان سے توقع رکھتی ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ایمان کا وہ درجہ عطا فرما دے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام ہونے کی بدولت حاصل ہوتا ہے۔ اسلامی تعاون کی تنظیم(OIC) بھی امت مسلمہ کے اصل جذبات کی عکاسی میں ناکام رہی ہے۔ جو لوگ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کرتے ہیں ‘ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرتبے اور عظمت سے ناواقف ہیں ۔ یہ او آئی سی کی ذمہ داری ہے کہ وہ امریکہ اوریورپ کے لوگوں تک دین اسلام اور پیغمبر اسلام کے پیغام کو اس انداز میں پہنچائے کہ وہاں کے باشندے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت اور مرتبے کے قائل ہو جائیں اور کوئی شخص گستاخی کے ارتکاب کی جرا¿ت نہ کر سکے۔
چیف جسٹس(ر) میاں محبوب احمد نے کہا کہ دین اسلام کا اصل ستون نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس ہے۔ اس ستون میں دراڑ ڈالنے کی کوشش دین اسلام پر حملے کے مترادف ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد نے کہا کہ امریکہ اور یورپ میں کچھ شیطان صفت لوگ اس لیے توہین ِ رسالت کا ارتکاب کرتے ہیں کیونکہ وہ آج تک مسلمانوں کے ہاتھوں صلیبی جنگوں میں شکست نہیں بھول سکے۔ آج اسلام دنیا میں سب سے زیادہ پھیلنے والا دین بن چکا ہے۔ یہ صورتحال بھی انہیں ناگوار گزر رہی ہے۔ علاوہ ازیںوہ اسلامی ممالک کے بیش بہا قدرتی وسائل پر بھی نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اہل مغرب کے ذہن کو سامنے رکھ کر انہیں حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت سے روشناس کروایا جائے۔ سجادہ نشین آستانہ¿ عالیہ چورہ شریف پیر سید محمد کبیر علی شاہ نے کہا کہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کر کے دراصل کفار ہر چند ماہ بعد مسلمانوں کی غیرت کا امتحان لیتے ہیں۔جو شخص حرمت رسول پر مصلحت یا مصالحت سے کام لے‘ اس کا ایمان متزلزل ہو چکا ہے۔ اگر قاری زوار بہادر کا کہنا تھا کہ اہل اسلام کے خلاف تمام کفار ملت ِواحدہ کی مانند ہیں ۔مسلمان ہر قسم کی زیادتی پر صبر کر لیتے ہیں مگر کسی صورت توہین رسالت برداشت نہیں کر سکتے ۔ دین اسلام میں گستاخِ رسول کے لیے کوئی معافی نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ تیسری عالمی جنگ حرمت رسول کے معاملے پر ہی برپا ہوگی۔ صاحبزادہ میاں ولید احمد شرقپوری نے ببانگ دہل کہا کہ اگرچہ اس وقت کئی شاتم رسول زندہ ہیں تاہم جب کبھی بھی کسی عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُن تک رسائی ہو گئی تو وہ جہنم رسید ہو جائیں گے۔ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے اپنے پر جوش خطاب میں کہا کہ اگر تمام مسلمان ممالک میں تعینات امریکی سفیروں کو طلب کر کے اُن سے پر زور احتجاج کیا جائے اور 57اسلامی ملک امریکہ سے تجارتی تعلقات منقطع کر لیں تو امریکہ ان ملعونوں کی سرپرستی سے باز آجائے گا۔ نشست سے پارلیمانی سیکرٹری رانا محمد ارشد، صاحبزادہ مسکین فیض الرحمن درانی اور حافظ احسان الحق نے بھی خطاب کیا۔اس موقع پر چوہدری نعیم حسین چٹھہ ، میاں فاروق الطاف اور تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے سیکرٹری رفاقت ریاض بھی موجود تھے۔ نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید نے نظامت کے فرائض بخوبی نبھائے۔ نشست کے اختتام پرپیش کردہ ایک قرارداد میں کہا گیا کہ ” عاشقانِ رسولﷺ کا یہ اجتماع اس امر کی شدید مذمت کرتا ہے کہ امریکہ اور یورپ کے کچھ شیطان صفت اور ملعون افراد نے نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کرنا اپنا وطیرہ بنا لیا ہے۔یہ بات مشاہدے میں آ رہی ہے کہ ہر چند ماہ بعد کبھی خاکے بنا کر تو کبھی فلمیں بنا کر مسلمانوں کی دل آزاری کی جاتی ہے اور ان کے جذبات کو اشتعال دلایا جاتا ہے۔ جب مسلمان ان گستاخیوں پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہیں تو ان پر انتہا پسند اور دہشت گرد ہونے کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔ اجتماع کے شرکاءسمجھتے ہیں کہ توہین رسالت پر مبنی فلم تیار کرنے والے ملعون ٹیری جونز اور نوکولا باسلے جیسے خبث باطن کے حامل لوگ تنہا نہیں ہیں بلکہ ان کے پس پردہ کارفرما مخصوص عناصر مسلمانوں کو اشتعال دلا کر ان کے رد عمل کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ اجتماع امریکی صدر کی جانب سے اسلامی ممالک میں اپنے سفارتخانوں کی حفاظت کی خاطر امریکی فوجی دستے تعینات کرنے کے اعلان کا بھی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی نام نہاد جنگ سے فی الفور علیحدگی اختیار کر لے۔دین اسلام تو امن اور سلامتی کا پیامبر ہے۔ اسلام نے تو اپنے پیروکاروں کو تمام انبیائے کرام علیہم السلام اجمعین کی عزت و تکریم کا حکم دیا ہے۔ قرآن مجید میں سورة الانعام میں مسلمانوں کو تاکید فرمائی گئی ہے کہ ”اﷲ کے سوا یہ (کفار) جن معبودوں کی پرستش کرتے ہیں تم انہیں برا بھلا مت کہو۔ (ایسا نہ ہو) کہ وہ زیادتی کرتے ہوئے جہالت کے باعث اﷲ کو برابھلا کہنے لگیں۔“ ہمارے علمائے کرام‘ دانشوروں اور ذرائع ابلاغ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دین اسلام کے اس پہلو کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کریں۔ اسلامی تعاون کی تنظیم (O.I.C) سے اقوام متحدہ پر زور دینے کا مطالبہ کیا جاتا ہے تا کہ وہ تمام انبیائے کرام کی حرمت کے حوالے سے قانون سازی کرے۔ صرف اسی طرح دنیا بین المذاہب ہم آہنگی کا گہوارہ بن سکتی ہے “تمام حاضرین نے قرارداد کی بھرپور تائید کی۔ تمام شرکاءنے قاری زوار بہادر کے ہمراہ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں درود و و سلا م کا نذرانہ پیش کیا اور پیر سید محمد کبیر علی شاہ نے اُمت مسلمہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرمت پر کٹ مرنے کا جذبہ بیدار ہو جانے کے لیے دعا کروائی۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024