خطے میں امن و استحکام کے ضامن سی پیک اور بی آر آئی کے منصوبے 

Oct 20, 2023


نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے گزشتہ روز بیجنگ میں چین کے صدر شی جن پنگ‘ اپنے ہم منصب چینی وزیراعظم اور دوسری عالمی قیادتوں سے ملاقاتیں کیں اور تیسرے بی آر آئی فورم سے خطاب کیا۔ انہوں نے چینی کمپنی کے ساتھ ڈیڑھ ارب ڈالر کے ایم او یوز پر بھی دستخط کئے اور پاکستان ریلوے کی اپ گریڈیشن کیلئے بھی معاہدہ کیا۔ ایم ایل ون منصوبے کی لاگت 9 ارب ڈالر سے کم ہو کر 6.7 ارب ڈالر ہو گئی ہے۔ نگران وزیراعظم نے یواین سیکرٹری جنرل انتونیو گوئترس‘ پاپوانیوگنی اور قازقستان کے صدور اور دوسری عالمی شخصیات سے ملاقاتوں کے دوران کہا کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) ترقی و خوشحالی اور خطے کیلئے گیم چینجر منصوبہ ہے۔ انکے بقول سی پیک بی آر آئی کا فلیگ شپ منصوبہ ہے‘ پاکستان سی پیک میں دیگر ملکوں اور شراکت داروں کا خیرمقدم کریگا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کو ماحولیاتی تبدیلی‘ غذائی تحفظ اور دباﺅ کے چیلنجز درپیش ہیں‘ مشترکہ ترقی اور خوشحالی کے منصوبوں میں ہی انسانیت کی فلاح ہے۔ انہوں نے بیلٹ اینڈ روڈ کے تصور پر چین کے صدر شی جن پنگ کو مبارکباد پیش کی۔ 
نگران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ خطے کی ترقی اور استحکام کے حامل منصوبوں بی آر آئی اور سی پیک کو قائم ہوئے دس سال گزر چکے ہیں۔ عوامی سطح پر رابطوں اور معاشی ترقی کو بی آر آئی کے ذریعے فروغ ملا ہے جبکہ مربوط روابط ہی عوام کی خوشحالی کا سبب بنتے ہیں۔ انکے بقول سی پیک کے تحت 25 ارب ڈالر کے پچاس منصوبے مکمل ہو چکے ہیں۔ سی پیک کے منصوبوں سے پاکستان میں آٹھ ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے جبکہ دس ہزار میگاواٹ کے منصوبے زیرتکمیل ہیں۔ پاکستان سی پیک میں دیگر ممالک کی شمولیت کا خیرمقدم کریگا۔ 
یہ امر واقع ہے کہ 1948ءمیں عوامی جمہوریہ چین کے دنیا کے نقشے پر نمودار ہونے کے ساتھ ہی پاکستان کے اسکے ساتھ برادرانہ‘ دوستانہ تعلقات استوار ہو گئے تھے اور اقوام عالم میں چین کو تسلیم کرنیوالا پہلا ملک بھی پاکستان تھا چنانچہ اسی وقت پاکستان اور چین کے مابین سفارتی تعلقات استوار ہوئے جو گزرتے وقت کے ساتھ مستحکم ہوتے چلے گئے اور پاکستان چین دوستی شہد سے میٹھی‘ سمندروں سے گہری اور ہمالیہ سے بلند ہونے کے تصور کے تحت دنیا میں ایک ضرب المثل بن گئی۔ خوش قسمتی سے اپنے اپنے ملک کی ترقی و سلامتی اور خطے کے امن و استحکام کے تناظر میں پاکستان اور چین کے مفادات بھی سانجھے نظر آئے اور اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی بنیاد پر بھارت ان دونوں ممالک کے مشترکہ دشمن کے طور پر ابھر کر سامنے آیا تو پاکستان اور چین کے مابین مشترکہ دفاعی حکمت عملی کے راستے بھی کھل گئے۔ اس طرح یہ دونوں ممالک مشترکہ دفاعی حصار بنا کر دفاعی تعاون کی بھی یادگار مثالیں قائم کر چکے ہیں جبکہ اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی اور علاقائی فورموں پر اروناچل پردیش اور کشمیر کے تنازعات پر دونوں ممالک ایک دوسرے کے موقف کا کھل کر ساتھ نبھاتے ہیں۔ 
چونکہ یہ دونوں تنازعات بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کی جانب پیش رفت کرنے سے پیدا ہوئے ہیں چنانچہ بھارت دونوں کا مشترکہ دشمن ہے۔ اگر امریکہ بھارت کو اپنا فطری اتحادی قرار دیکر اسکے پیدا کردہ علاقائی تنازعات میں اس کا ساتھ دیتا ہے تو اس سے پاکستان اور چین کے امریکہ کے ساتھ تعلقات کامتاثر ہونا بھی فطری امر ہے۔ انہی زمینی حقائق کی بنیاد پر اس خطہ میں چین اور پاکستان کو امریکی عمل دخل کا مو¿ثر توڑ کرنے کی مشترکہ حکمت عملی طے کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی چنانچہ آج چین اور پاکستان ہر فیلڈ میں ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا ملائے کھڑے ہیں جن کی لازوال دوستی لامحالہ پورے خطے کے امن و استحکام کی بھی ضمانت بن چکی ہے۔ 
اگرچہ چین کے بھارت کے ساتھ بھی اقتصادی تعلقات ہیں اور 2014ءمیں تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے ڈی چوک اسلام آباد میں حکومت مخالف طویل دھرنے کے باعث صدر عوامی جمہوریہ چین اپنا شیڈولڈ دورہ پاکستان موخر کرکے بھارت چلے گئے تھے جہاں چین اور بھارت کے مابین 42 ارب ڈالر کے اقتصادی معاہدے ہوئے۔ اسکے باوجود 2013ءمیں شروع ہونیوالے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے مشترکہ منصوبے نے پاکستان چین تعلقات کا بندھن مزید مضبوط بنایا ہے۔ یہ منصوبہ بلاشبہ چین اور پاکستان ہی نہیں‘ پورے خطے کی اقتصادی ترقی و خوشحالی کا ضامن بن چکا ہے جس کے اپریشنل ہونے سے علاقائی اور عالمی منڈیوں کے باہم تجارتی اشتراک کے راستے بھی کھل چکے ہیں۔ ایسی تجارتی سرگرمیاں چونکہ ایک دوسرے سے وابستہ ممالک کے اندر امن و استحکام کی متقاضی ہوتی ہیں اس لئے اپنے اپنے ملک میں قیام امن کو یقینی بنانا بھی سی پیک سے وابستہ ہر ملک کی ضرورت بن چکا ہے۔ اس لئے سی پیک ہی بالآخر علاقائی اور عالمی امن و استحکام کی بنیاد بنے گا جبکہ اب چین کے پی آر آئی منصوبے کے ساتھ سی پیک کے وابستہ ہونے سے پورے خطے کا امن و استحکام نوشتہ دیوار نظر آرہا ہے۔ 
یہ صورتحال اس خطے میں توسیع پسندانہ عزائم رکھنے والے بھارت اور اسکے سرپرست امریکہ کو قابل قبول نہیں اس لئے ان دونوں ممالک نے پہلے سی پیک کو سبوتاڑ کرنے کیلئے ایک مشترکہ سازشی منصوبہ تیار کیا جس کے تحت امریکی وزارت خارجہ نے باضابطہ طور پر سی پیک پر اس حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا کہ یہ پاکستان کے متنازعہ شمالی علاقہ جات میں قائم ہو رہا ہے۔ بھارت نے بھی اسی تناظر میں سی پیک پر شوروغوغا کیا اور بدقسمتی سے اسے پاکستان میں موجود بعض سیاسی عناصر کی بھی حمایت حاصل ہو گئی جس کا عملی اظہار پی ٹی آئی کی حکومت کی تشکیل کے بعد اسکے بعض وزراءکی جانب سے دیئے گئے بیانات کی صورت میں بھی ہو گیا جبکہ پی ٹی آئی کے دور میں سی پیک کی تکمیل کیلئے کسی قسم کی پیش رفت بھی نہ کی گئی جو بادی النظر میں پاکستان کی ترقی روکنے کے بھارتی عزائم کی ہی تکمیل تھی۔ 
اب باہمی اشتراک کا یہ منصوبہ بھی اپریشنل ہو چکا ہے اور اسکے عالمی تجارتی تعاون پر مبنی چین کے وسیع تر منصوبے بی آر آئی کے ساتھ منسلک ہونے سے علاقائی تعاون کے نئے راستے بھی کھل رہے ہیں جس سے پاکستان کا شاندار مستقبل اجاگر ہوتا نظر آرہا ہے تو اس کا کریڈٹ بلاشبہ ہمارے بے لوث دوست چین کے حصے میں ہی آئیگا۔ اس امر کا اظہار ہی گزشتہ روز بی آر آئی کے اعلیٰ سطح کے فورم کی میٹنگ میں یواین سیکرٹری جنرل اور بی آر آئی سے وابستہ ممالک کی قیادتوں کی شمولیت اور اس منصوبے کو مزید آگے بڑھانے کے ٹھوس عزم کے ذریعے کیا گیا ہے۔ پاکستان کو بالخصوص توانائی کے شعبے میں ان منصوبوں کے جو ثمرات حاصل ہو رہے ہیں‘ نگران وزیراعظم نے اس کا بھی کھل کر اظہار کیا جو ہمارے شاندار مستقبل اور امن و استحکام کا عکاس ہے۔ پاکستان چین دوستی بلاشبہ اس پورے خطے کیلئے ایک نعمتِ غیرمترقبہ کی حیثیت اختیار کر چکی ہے جس پر دونوں ممالک کی قیادتیں مبارکباد کی مستحق ہیں۔

مزیدخبریں