کرکٹ بورڈ میں تشکیل نو کا نعرہ لگنے کو ہے، نئے اور ناتجربہ کاروں کے پیچھے اپنے اپنے عہدے بچانے اور چہروں کو چھپانے کا وقت ہوا چاہتا ہے، اب قوم سے وقت مانگا جائے گا، نئی ٹیم کی تشکیل کے لیے تجربات کا سلسلہ شروع کیا جائے گا، ہر تجربے سے سیکھنے اور مزید کام کرنے کے بیانات دہرائیں جائیں گے یونہی ماہ و سال گذرتے چلے جائیں گے۔ اور معاہدوں کی میعاد مکمل ہونے کا پتہ بھی نہیں چلے گا۔ چونکہ انگلینڈ اور آسٹریلیا میں ایسا ہی ہوتا ہے، وہاں کرکٹ بورڈ اور قومی ٹیموں کو تجربہ گاہ کے طور پر ہی استعمال کیا جاتا ہے، آفیشلز بورڈ میں آ کر اور کھلاڑی قومی ٹیم میں آ کر سیکھتے ہیں اس لیے پاکستان کرکٹ کو بھی انہی خطوط پر چلائے جانے اور پاکستان کرکٹ بورڈ کو تجربہ گاہ بنانے کا کام ملکی خدمت اور کھیل کے وسیع تر مفاد میں کیا گیا ہے۔ تعمیر و ترقی کے اس منصوبے کا مرکزی خیال یہی ہے کہ ہم کر دیں گے، ہم کرنا چاہتے ہیں، ہم کر رہے ہیں، بہت سا کام ہونا باقی ہے، پوری کوشش کریں گے، کھلاڑی ابھی سیکھ رہے ہیں، ہم مشکل وقت سے گذر رہے ہیں، بہت سی چیزیں قابو میں نہیں ہوتی، ہمیں کچھ وقت دیں سب ٹھیک ہو جائے گا، تھوڑا صبر کریں، میڈیا غیر ضروری تنقید سے پرہیز کرے۔ بس یہی خلاصہ ہے۔ انہی الفاظ کے گرد پاکستان کرکٹ گھومے گی۔ اگر ن الفاظ سے نکلی تو یہ سننے کو ملے گا کہ پچ خراب تھی، کیوریٹرز نے اپنا کام ٹھیک نہیں کیا، موسم میں غیر معمولی تبدیلی کی وجہ سے ایڈجسٹ نہیں کر سکے، امپائرنگ کا معیار بہت خراب تھا، امپائر کا فیصلہ ہمارے حق میں ہوتا تو نتائج مختلف ہوتے۔
نئے پاکستان کو نیا کپتان مبارک ہو، اب بابر اعظم محدود اوورز کی کرکٹ میں سرفراز احمد کی جگہ سکہ اچھالیں گے، ڈوریاں کوئی اور ہلائے گا، سکواڈ کا انتخاب کوئی اور کرے گا، حتمی ٹیم کوئی اور بنائے گا البتہ اس عمل میں کپتان کو مشاورت کی اجازت ضرور دی جائے گی۔ ہاں یاد آیا اگر ٹیم ناکام ہوتی ہے تو اس کے ذمہ دار بار اعظم ہوں گے جبکہ فتح کی صورت میں کریڈٹ لینے کے لیے آنے والوں کو روکنا کپتان کے اختیار میں نہیں ہو گا۔
بابر اعظم کو کپتان بنانے کا فیصلہ ان کی شاندار بیٹنگ کارکردگی کو دیکھ کر کیا گیا ہے کیونکہ آسٹریلیا اور انگلینڈ میں جو بہت اچھا کھیل رہا ہو اسے کپتانی کی ذمہ داری دے دی جاتی ہے۔ چونکہ پاکستان میں آسٹریلیا کا نظام نافذ ہو چکا ہے اور اس نظام کے نفاذ کے لیے انگلینڈ سے ایک صاحب کو ذمہ داری دی گئی ہے یوں کرکٹ کھیلنے والے دنیا کے دو بڑے ممالک کی روایات کو پاکستان میں آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ متاثرین آسٹریلیا و انگلینڈ طاقت و اقتدار کے زعم میں ایسے ایسے فیصلے کیے جا رہے ہیں کہ سب حیران ہیں، کہیں کہیں پریشانی بھی ہے لیکن پی سی بی ہیڈ کوارٹرز میں مکمل امن و سکون اور کارپوریٹ کلچر کی بہار ہے۔ لاکھوں ماہانہ تنخواہیں وصول کرنے والوں کے کمروں کی ٹھنڈی ہوائیں ابھی تک ملکی کرکٹ میں لگی آگ کی شدت کو محسوس نہیں کر رہیں۔ بورڈ کی پہلی منزل پر موجود افسران ملکی کرکٹ کو آگ لگا کر خود برفباری کے مزے لوٹ رہے ہیں۔
ایک ایسا شخص جس کی کپتانی میں ٹیم نے ٹونٹی ٹونٹی میں تاریخی کامیابیاں حاصل کی ہوں اسے صرف ایک سیریز میں ناکامی کے بعد کپتانی سے ہٹانے کے فیصلے نے ماہرین کرکٹ کو حیران و پریشان کر دیا ہے۔ کسی کو عہدے سے ہٹائے جانے کے لیے ایک سیریز میں ناکامی ہی پیمانہ ہے تو کیا اس سیریز میں ناکام رہنے والے دیگر کھلاڑیوں اور ذمہ داران کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جائے گا۔ ایک طرف آنرز بورڈ لگائے جا رہے ہیں تو دوسری طرف اپنے ہی کپتان کو ڈس آنر کیا جا رہا ہے۔ سری لنکا کے خلاف ہوم سیریز میں ناکامی کے بعد اچانک کرکٹ بورڈ کے فیصلہ سازوں کو یہ خیال آیا کہ ہمیں مستقبل کی تیاری کرنی ہے اور مستقبل میں سرفراز احمد کا کوئی مستقبل نہیں اس سوچ کے تحت انہوں نے کپتان کو بدلنے کا فیصلہ کیا اور ایک ایسے کھلاڑی کو کپتان بنا دیا ہے جسے کپتانی کا کوئی خاص تجربہ نہیں ہے۔ چونکہ تجربے کی آڑ میں خود کو بچانا مقصود تھا اس لیے اچھے بھلے بلے باز کو پاور گیم کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔
سرفراز احمد کو جس انداز میں ٹیم کی کپتانی سے الگ کیا گیا ہے اس نے بورڈ کی موجودہ انتظامیہ کے اعلی افسران کی فیصلہ سازی کی اہلیت کو مشکوک بنا دیا ہے۔ دو ہزار سترہ کی چیمپئنز ٹرافی جیتنے کے بعد سب کچھ سرفراز کے سپرد کر دیا گیا تھا اور اب طاقت و اقتدار و اختیار کا مرکز مصباح الحق کو بنایا جا رہا ہے۔ اظہر علی کو ماضی میں بھی کپتان مقرر کیا گیا تھا انہیں اس وقت کیوں ہٹایا گیا۔ اس کی کوئی وجہ تو ہو گی اب انہیں دوبارہ پاور گیم کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ کیا وہ اپنی خامیوں کو دور کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ انہیں ماضی میں ہٹانے کا فیصلہ غلط تھا یا دوبارہ ٹیسٹ ٹیم کی کپتانی دینے کا فیصلہ غلط ہے اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا تاہم ان دنوں فیصلوں کے بارے عاقب جاوید کہتے ہیں کہ جو زیادہ بھائی بھائی کرے گا وہی اوپر آئے گا۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے مالک ندیم عمر تو سرفراز احمد کو ٹونٹی ٹونٹی ٹیم کی کپتانی سے ہٹائے جانے پر بہت افسردہ ہیں۔ ان کی افسردگی اپنی جگہ شاید وہ ابھی تک پرانے پاکستان میں ہیں شاید وہ نہیں جانتے کہ اب ملکی کرکٹ کو انتہائی پیشہ وارانہ انداز میں چلایا جا رہا ہے، ایسے کہ جیسے انگلینڈ اور آسٹریلیا میں چلایا جاتا ہے اور وہاں ہونے والے تمام فیصلوں کو من و عن تسلیم کرنے میں ہی پاکستان کرکٹ کا بھلا ہے۔
احسان مانی کرکٹ کے انتظامی امور کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں، ان کے من پسند چیف ایگزیکٹو آفیسر تجربے میں ہو سکتا ہے ان سے کم ہوں لیکن خیالات میں ان سے کہیں آگے ہوں گے ان کی موجودگی میں یہ خیال کرنا کہ کچھ غلط ہو سکتا ہے بہت ہی غلط بات ہے۔ وہ جو کر رہے ہیں ملکی کرکٹ کو تگڑا کرنے کے لیے کر رہے ہیں اور اس وقت تک کرتے رہیں گے جب تک کوئی تگڑا کرکٹر باقی نہیں بچے گا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024