پاکستان ایف اے ٹی ایف کے ایکشن پلان پر عملدرآمد کیلئے پرعزم‘ اپوزیشن بھی ساتھ دے
پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل کرانے کی بھارتی کوشش ناکام‘ پاکستان سے فروری تک مزید اقدامات کا مطالبہ
پاکستان ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں جانے سے بچ گیا ہے تاہم گرے لسٹ سے باہر نہیں آسکا۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کی کوششوں کو تسلیم کرتے ہوئے باضابطہ اعلان کیا ہے کہ آئندہ 4 ماہ یعنی فروری 2020ء تک پاکستان 'گرے لسٹ' میں ہی رہے گا۔ پیرس میں ایف اے ٹی ایف کے اجلاس کے اختتام پر ٹاسک فورس کے صدر شیانگ من لو نے پریس کانفرنس کی اور اس بات کے بارے میں بتایا کہ پاکستان کو مزید 4 ماہ کے لیے اسی فہرست میں رکھا جائیگا۔ بھارت کی جانب سے پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی 'بلیک لسٹ' میں شامل کرنے کی کوششیں کی گئی تھیں، تاہم یہ تمام کوششیں ناکام ہوگئیں اور ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو گرے لسٹ میں ہی رکھا۔ ایف اے ٹی ایف کی پیرس میں منعقدہ پریس کانفرنس میں ایف اے ٹی ایف کے صدر اور دیگر عہدیداروں نے پریس کانفرنس میں کہا کہ اسلام آباد سے کہا گیا ہے وہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کیلئے مالی معاونت کے مکمل خاتمے کیلئے فروری 2020ء تک مزید اقدامات کرے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان کے اقدامات پر فروری 2020 میں دوبارہ جائزہ لیا جائیگا۔ ٹاسک فورس کی جانب سے بیان میں کہا گیا کہ 'ایف اے ٹی ایف پاکستان پر زور دیتا ہے کہ وہ فروری 2020 تک اپنے مکمل ایکشن پلان کو تیزی سے پورا کرے، اگر اس نے آئندہ اجلاس تک اپنے ایکشن پر مکمل طریقے سے موثر اور نمایاں پیش رفت نہ کی تو ایف اے ٹی ایف کارروائی کریگا۔ ایف اے ٹی ایف کے مطابق جون 2018 سے جب پاکستان نے انسداد منی لانڈرنگ (اے ایم ایل) اور دہشت گردی کیلئے مالی معاونت کے خاتمے کو مضبوط بنانے اور دہشت گردی کی مالی معاونت روکنے سے متعلق خامیوں کو دور کرنے کیلئے ایف اے ٹی ایف اور ایشیا پیسیفک گروپ (اے پی جی) کے ساتھ مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا، جس کے بعد سے پاکستان نے اے ایم ایل/ سی ایف ٹی سے متعلق کافی پیش رفت کی۔ وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور حماد اظہر کی زیر قیادت پاکستانی وفد نے ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں بتایا تھا کہ پاکستان نے 27 میں سے 20 تجاویز میں مثبت پیش رفت کی ہے۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس آن منی لانڈرنگ ایک عالمی ادارہ ہے جو جی-سیون ممالک (امریکا، برطانیہ کینیڈا،فرانس، اٹلی، جرمنی اور جاپان) کی ایما پر بنایا گیا ہے، اس ادارے کا مقصد ان ممالک پر نظر رکھنا اور اقتصادی پابندیاں عائد کرنا ہے جو دہشت گردی کیخلاف عالمی کوششوں میں تعاون نہیں کرتے اور عالمی امن کیلئے خطرہ قرار دیے گئے دہشت گردوں کے ساتھ مالی تعاون کرتے ہیں- 37ممالک پر مشتمل فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے منشور کے مطابق کسی ملک کو بلیک لسٹ نہ کرنے کیلئے کم از کم 3 ممالک کی حمایت لازمی ہے۔پاکستان کا نام گرے لسٹ میں گزشتہ سال 2018ء کے وسط میں شامل کیا گیا تھا۔ اس فہرست میں ان ممالک کا نام شامل کیا جاتا ہے جو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کیلئے رقوم کی فراہمی روکنے کیلئے مناسب کوششوں میں ناکام رہے ہوں۔ پاکستان پہلے بھی 2012ء سے 2015ء تک گرے لسٹ میں شامل رہ چکا ہے۔ پاکستان کی طرف سے مطلوبہ اقدامات کے بعد پاکستان کا نام گرے لسٹ سے نکل گیا تھا جو بھارت کی مذموم سازشوں سے گزشتہ سال ایک بار پھر گرے لسٹ میں شامل ہوگیا۔ گرے لسٹ کے بعد مطلوبہ اقدامات نہ اٹھائے جائیں تو ایف اے ٹی ایف اس ملک کا نام بلیک لسٹ میں شامل کر دیتا ہے جس کے بعد بلیک لسٹ میں شامل ہونیوالے ملک کو تجارتی و سرمایہ کاری سمیت کئی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسا ملک گویا تنہائی کا شکار ہوجاتا ہے۔ بھارت کی پوری کوشش تھی کہ وہ پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں شامل کراکے پاکستان کا عالمی سطح پر معاشی ناطقہ بند کرادے جبکہ پاکستان کی پوری کوشش بلیک لسٹ سے محفوظ رہنے کے سالتھ ساتھ گرے لسٹ سے بھی نکلنے کیلئے تھی۔ پاکستان کی طرف سے ایف اے ٹی ایف کے تقاضے پورے کرنے کی کوشش کی گئی جس میں پاکستان کافی حد تک کامیاب رہا جس کا اعتراف ایشیا پیسفک گروپ کے رکن ممالک نے پاکستان کے اقدامات پر اظہار اطمینان کرتے ہوئے چند روز قبل کیا تھا۔ پاکستانی حکام نے ان ممالک کے حکام کو یقین دہانی کرائی تھی کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کے تمام اہداف پر عمل پیرا ہے۔ اینٹی منی لانڈرنگ قوانین عالمی معیار کے مطابق بنا دیئے گئے ہیں۔ پاکستان کی طرف سے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے 90 فیصد اہداف پر پیشرفت ہوئی‘ کئی شدت پسند تنظیموں پر پابندی لگائی گئی‘ جن کی نشاندہی امریکہ اور اقوام متحدہ کی طرف سے پابندیاں لگائے جانے کے بعد کی گئی تھی۔ پاکستان کے ایسے ہی اقدامات کے باعث دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی ہوئی۔
ایک موقع پر پاکستان میں دہشت گردوں کیخلاف ایکشن کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ انکی حکومتی حلقوں تک میں حمایت پائی جاتی تھی۔ دہشت گردی سے باز رکھنے کیلئے انکے ساتھ مذاکرات کی راہ اختیار کی گئی۔ مذاکرات کے دوران بھی انکی جارحیت جاری رہی تو ان کیخلاف کڑے اپریشن کا عزم کرتے ہوئے پاک فوج قوت قاہرہ بن کر ان پر ٹوٹ پڑی اور کافی حد تک پاکستان کو انکے ناپاک وجود سے پاک کردیا گیا۔ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے حکومت فوج اور قوم کے عزم و ارادے میں کوئی فرق نہیں آیا۔ دہشت گرد گروپوں اور گروہوں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ شدت پسند تنظیموں اور ان سے منسلک شخصیات پر پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ انکی فنڈنگ روکنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ اسی کے باعث پاکستان گرے سے بلیک لسٹ میں جانے سے محفوظ رہا۔ ایف اے ٹی ایف کی طرف سے پاکستان کو مزید اقدامات کیلئے چار ماہ کی مہلت دی گئی ہے۔ مطلوبہ اقدامات بروئے کار لانے کی صورت میں پاکستان یقیناً گرے لسٹ سے بھی نکل سکتا ہے۔ اس حوالے سے حکومت کے ساتھ ساتھ ہر پاکستانی کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا اور اپوزیشن کو خصوصی طور پر ذاتی مفادات کو تیاگ کر قومی سوچ کا اظہار کرنا ہوگا۔
پاکستان کے گرے لسٹ میں شامل ہونے میں بھارت کی سازشوں‘ لغویات اور جھوٹے پراپیگنڈے کا ہی عمل دخل ہے۔ وہ اب اس حوالے سے پہلے سے بھی زیادہ سازشوں کے جال بنے گا اور توانائیاں بروئے کار لائے گا۔ پاکستان کو اس سب سے محتاط رہنا اور توڑ کرنا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں عسکری تنظیموں کی فنڈنگ میں بھارت ملوث ہے جس کے ٹھوس اور واضح ثبوت ہماری خفیہ ایجنسیوں کے پاس موجود ہیں۔ کچھ تنظیمیں اس کا برملا اعتراف بھی کرچکی ہیں۔ بھارت کیخلاف ایسی رپورٹیں ایف اے ٹی ایف میں دینے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کو خصوصی طور پر پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کیلئے حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنا ہونگے‘ وہ بیان بازی میں احتیاط کی صورت میں ہی مضبوط ہوسکتے ہیں۔ سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن ملک کی سلامتی اور تحفظ و مفادات کیلئے اپوزیشن اور حکومت کو ایک پیج پر نظر آنا چاہیے۔
میاں نوازشریف کو پامانا کیس میں نااہلی کے ساتھ قید و جرمانے کی سزا ہوئی تو انہوں نے نان ایشو کو ایشو بنا کر پاکستان کو مشکلات سے دوچار کر دیا۔ انہوں نے ممبئی حملوں کے حوالے سے کہا کہ حملہ آور پاکستان سے گئے تھے۔ مزیدبراں انہوں نے ان حملوں میں پاکستانی عدلیہ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ دوسری طرف بلاول بھٹو زرداری ان مواقع پر کابینہ میں شدت پسندوں کے حامیوں کی موجودگی کا تواتر کے ساتھ ذکر کرتے رہے۔ جب ایف اے ٹی ایف کی ٹیم پاکستان میں موجود تھی اور اب مولانا فضل الرحمان نے لانگ مارچ کو مؤثر بنانے کیلئے انصارالاسلام فورس تشکیل دیدی ہے۔ اس باوردی فورس سے مولانا نے باقاعدہ سلامی لی۔ پرائیویٹ فورس کی تشکیل اور تشہیر بھی عین اس موقع پر ہوئی جب ایف اے ٹی ایف کا اجلاس جاری تھا۔حکومتی ٹیم کی طرف سے پاکستان کا ایف اے ٹی ایف میں کیس بڑی مہارت اور جاندار طریقے سے پیش کیا گیا۔ ترکی‘ چین اور ملائشیا نے بھرپور حمایت کرکے پاکستان سے دوستی کا حق ادا کر دیا۔ پاکستان 4 ماہ میں ایف اے ٹی ایف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے گرے لسٹ سے نکل سکتا ہے‘ بشرطیکہ ہر پاکستانی اپنا کردار ادا کرے اور سیاست دان بالخصوص اپوزیشن بیان بازی میں محتاط رویہ اختیار کرے۔ پاکستان کو بلیک لسٹ میں لے جانے کی بھارتی لابنگ کا بھی مؤثر توڑ کرنا ہوگا تاکہ وہ اندرونی خلفشار کا فائدہ نہ اٹھا سکے۔