ریاست مدینہ‘ کیوں نہیں؟
ریاست مدینہ کے حوالے سے ہمارے منی کالم کا محاکمہ کرتے ہوئے سرکار سے جڑے ایک دوست نے شکوہ کیا ہے کہ جناب وزیراعظم کی دلسوزی اور قوم کیلئے کچھ کر گزرنے کی لگن کی راہ میں آپ روڑے کیوں اٹکا رہے ہو؟ اور دور کی کوڑی لا کر اپنا تھیسس درست ثابت کرنا چاہتے ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ کیا ریاست مدینہ کا آغاز مہاجرین اور انصار کے درمیان اخوت بھائی چارے سے نہیںہوا؟ جس سے مہاجرین کو نہ صرف معاشرتی پذیرائی ملکی، انکے معاش اور آبادکاری کا مسئلہ بھی وقتی طور پر حل ہو گیا اور پھر وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوتے چلے گئے۔ ریاست مدینہ کا اچھوتا پہلو آج بھی معاشرے کے دبے ہوئے لوگوں کو اوپر اٹھا سکتا ہے۔ ہر صاحب ضرورت کے ذمے اسکی حیثیت کے مطابق کمزور کنبوں کے اعانت کی ذمہ داری ڈال دی جائے۔ یوں غربت کی لکیر سے نیچے کے ایک کروڑ گھرانوں کی دستگیری 3/2 ملین صاحب ثروت بآسانی کر سکیں گے۔
جناب کی آواز مکے مدینے راقم اس پروگرام کی راہ میں رکاوٹ بننے والا کون؟ میثاق مدینہ کی بنیاد پر غربت مٹاؤ پروگرام کا آغاز کیجئے۔ خاکسار اس کا سب سے بڑا علمبردار ہو گا۔