وزیراعظم عمران اور Prognosis
کہتے ہیں کہ ایک شخص پر موت کے فرشتے کو رحم گیا اور اسے اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا اور اسے کہا کہ تم ڈاکٹر بن کر روزی کماؤ اور اسے جنگلی بوٹی دے دی اور کہا اسے پہچان لو سب کو ایک ہی دوا دینی ہے لیکن جب تم مریض کی تشخیص کر رہے ہو گے تو میں تمہیں نظر آؤں گا۔ اگر میں مریض کے سر کی جانب نظر آؤں تو یہ بوٹی دے کر اعلان کر دینا کہ مریض بچ جائے گا اور اگر میں پاؤں کی جانب نظر آؤں تو کہنا میں دوا دے دیتا ہوں لیکن یہ مرض لا دوا ہے۔ اس طرح وہ ڈاکٹر صاحب تشخیص کے لئے نہیں یعنی ڈائیگنوسس Diagonsis کی بجائے Prognosis کے طور پر مشہور ہو گیا جس میں یہ بتانا ہوتا ہے کہ مریض زندہ رہے گا یا مر جائے گا۔ وزیراعظم عمران خان کے دور میں اس بات کی گنجائش نہیں رکھی گئی کہ کہ امراض کی تشخیص کریں اور پھر ان امراض کے علاج شروع کئے جائیں بلکہ یہاں اس حکومت کو جوابدہی میں براہ راست "Prognosis کا سلسلہ کرنا پڑ رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو آتے ہی سو دن کی کارکردگی کے سنہرے جال میں جکڑ دیا گیا لہذا مختلف پروگراموں کی بنیادی پالیسیوں اور ماضی کے دیرینہ مسائل سے جان چھڑانے کی بجائے بڑے اعلانات کرنے کی مجبوری میں ڈال دیا گیا۔ پاکستان میں اگر ایک گھر تبدیل کریں یا خریدیں تو کئی مہینوں تک مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ تو ایٹمی طاقت کا حامل ایسا ملک ہے جس کے آس پاس کے معاملات بھی دشوار اور پیچیدہ رہے ہیں اور پھر کرپشن اور اقرباء پروری نے اس ملک کے اداروں کو بھی تباہی کے دھانے پر لا کھڑا کیا تھا جس کی وجہ سے یہاں ترقی کی رفتار بہت کم تھی۔ یہ ملک جمہوریت کی بہترین شکل اور مضبوط اداروں کا حامل ملک نہیں ہے لہذا حکومت کے لئے انقلابی قسم کی کارکردگی دکھانا دشوار بات ہے۔ عمران خان نے سادگی اپنانے سے آغاز کر کے پھر ایک بڑا اعلان پچاس لاکھ گھر بنانے کا کیا جس پر سوال اٹھایا جا رہاہے کہ یہاں انرجی بحران موجود ہے تو پھر اس پراجیکٹ کے بارے میں یہ نہیں سوچا گیا کہ بجلی پانی اور گیس کی سپلائی کے انتظامات کیسے کئے جائیں گے ؟ سوال اہم ہے مگر یہ بات نہیں ہے کہ ان مسائل کا حل موجود نہیں ہے۔ پچھلے دنوں میری ملاقات ڈاکٹر بشارت سے ہوئی جو برطانیہ کے پی ایچ ڈی ہیں اور وہ انرجی اور ماحولیات کے مسائل کا حل بتاتے ہیں اور زیرو انرجی ہاؤسنگ اور انرجی کے نعم البدل مہیا کرنے کی تجاویز کے ایکسپرٹ ہیں جنہیں پچھلی حکومت نے عہدے سے ہٹا کر ایک سفارشی کو لگا دیا تھا۔ ڈاکٹر بشارت آلٹرنیٹیو انرجی ڈویلپمنٹ کے پہلے ڈی جی اور پھر چیف ایگزیکٹو آفیسر رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ سولر کے علاوہ Wind ( ہوا)کو بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر بشارت کے پاس انتہائی کم خرچ پہ انرجی اور ہاؤسنگ کے بارے میں بے شمار تجاویز ہیں کیونکہ وہ سول انجنیئر بھی ہیں۔ انہوںنے یہ سب تجاویز وزیراعظم عمران خان کو بھیج دی ہیں مگر ابھی تک ڈاکٹر بشارت کو تصدیق نہیں ملی کہ یہ سب وزیراعظم تک پہنچی ہیں کہ نہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو وزراء سے ملاقاتوں کے علاوہ ہر مہینے یا دو ماہ میں ماہرین اور ٹیکنیوکریٹس سے بھی ملنا ہو گا تاکہ کم از کم مختلف سیکٹرز میں مسائل کے حل کے لئے ٹیمیں بنائی جا سکیں اور یہ ٹیمیں حکومت کے لئے مددگار ثابت ہو سکتی ہے ۔ وزیراعظم عمران خان کو محض سیاستدانوں یا وزراء کے حلقے تک محدود نہیں رہنا ہو گا۔ دراصل بدقسمتی ہے کہ ہم مسائل پر بات کرتے ہیں مگر مسائل کے حل پر بات نہیں کرتے۔ جب پاکستان بنا تھا تو ہر طرف اور ہر چیز ہی میںکرائسس تھے‘ بنیادی سہولیات ناپید تھیں‘ گھر بار نہیں تھے‘ صحت کے مسائل تھے مگر ان تمام مسائل کے حل کی طرف جانے کا جذبہ موجود تھا‘ آج ہمیں اسی قسم کے جذبے کی ضرورت ہے اور پھر سوچنے کے انداز میں ایک ہی بات شامل کرنا ہو گی کہ ملک کی بہتری اور ترقی کے لئے کون سے اقدامات کرنے ضروری ہیں۔ پچھلی دو حکومتوں نے پانچ پانچ سال مکمل کئے اور وہ جس انداز میں چلتی رہیں وہ انداز ملک کے لئے خسارہ تھے یا منافع بخش تھے یا پھر وہ جمہوریت تھی یا آمرانہ جمہوریت تھی اگر اس بحث میں نہ پڑا جائے تو اب یہ بھی ضروری ہے کہ یہ حکومت کیسے بنی سے بڑھ کر یہ بات اہم ہے کہ اب وزیراعظم عمران خان کو کام کرنے کا موقع دینا چاہئے اور کارکردگی دکھانے کے لئے وقت دینا چاہئے۔ وزیراعظم عمران خان کو ایک اور نکتے پر توجہ دینا ہو گی کہ یہاںپانی سے چلنے والی گاڑی تک ایجاد کی گئی مگر ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی بھی نہیں ہوتی اور پھر اس قسم کے بہترین حل سامنے لانے والے لوگ کہیں دکھائی نہیں دیتے جبکہ باہر کے ملک ہمارا ٹیلنٹ اٹھا کر لے جاتے ہیں اور اس کے برعکس ہمارے ملک میں سیاستدانوں اور حکمرانوں کے نالائق بچوں کی گڈی اونچی اڑائی جاتی رہتی ہے۔ موجودہ حکومت ملک میں موجود ٹیلنٹ کو سامنے لے کر آئے اور انرجی کرائسس میں ان کی صلاحیتوں کا فائدہ اٹھائے۔ وزیراعظم عمران خان کو ابھی Diagnosis کرنا ہو گا تاکہ علاج ہو سکے نہ کہ صرف موت یا زندگی جیسے فیصلے کرنا پڑیں۔ یہ ایک ایٹمی ملک ہے جس کے مسائل کی پہلے تشخیص اور پھر علاج ضروری ہے۔