نریندر مودی کون ہے؟(1)
مودی بچپن ہی سے ہندوؤں کی خفیہ دہشت گرد جماعت راشٹریہ سیوایام سیوک سنگ (تھری ایس ایس) کا فعال کارکن ہے آئیے اس جماعت کے متعلق تفصیل سے بتاتا ہوں۔ مسلمانوں سے انتہائی نفرت کرنے والے ایک ڈاکٹر کیشوراؤبلی رام ہیڈ گوار نے 1927ء میں شہر ناگپور میں اس کی بنیاد رکھی۔ بنیادی مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں میں نفرت کی آگ بھڑکانا اور ان کو ایسی تربیت دی جائے کہ وہ مسلمانوں کو قتل کرنا شروع کر دیں تاکہ ان ملیچھوں (ناپاک) لوگوں سے اپنی پوتر دھرتی ماتا کو پاکیزہ بنا دیا جائے وہ جگہ جگہ جاتا اور ہندو نوجوانوں کو اپنی جماعت میں شامل ہونے کی ترغیب دیتا۔ وہ کبھی سٹیج پر آ کر تقریر نہ کرتا تھا بلکہ خفیہ ہی اپنی تحریک چلاتا رہا جو اس کی باتوں سے متفق ہو جاتے تھے ان سے اس تحریک کو مکمل طورپر خفیہ رکھنے کی قسم لیتا ۔ وہ بڑی ثابت قدمی سے گاؤں گاؤں اور شہر پھرتا رہا یہاں تک کہ 1934ء تک تیس ہزار ہندو نوجوانوں کو اپنی جماعت میں بھرتی کر لیا۔ 1935ء میں صوبائی خود مختاری ملنے کے بعد ڈاکٹر ہیڈ گوار نے ہر صوبے میں اپنی جماعت کی شاخیں قائم کر لیں۔ کانگرس کی صوبائی وزارتوں نے ان کی سرگرمیوں میں ہر طرح سے مدد کی۔ 2 ان کا روز کا معمول تھا کہ صبح چار سے پانچ بجے تک مقرر کردہ رضاکار دوسرے ممبروں کو جگانے کے لئے گھر گھر جاتے تھے تاکہ وہ سب وقت پر مقررہ جگہ پہنچ جائیں۔ یہ جگہ ہندوؤں کے سکولوں‘ کالجوں یا مندروں کی چار دیواری کے اندر ہوتی تھی۔ جب سب ممبران جمع ہو جاتے تو سب سے پہلے ان کا مقامی رہنما مسلمانوں کے خلاف ایک زہریلی تقریر کرتا تھا۔ ہر جگہ جماعت کی طرف سے لکھے گئے احکامات کے تحت یہ کہا جاتا تھا ’’مسلمانوں پر ہر گز بھروسہ نہ کرو‘ مسلمان مجسم غنڈے ہیں‘‘۔ 3 ان کی تنظیم کچھ اس طرح تھی کہ ہر برانچ کو ’’گھاتک‘‘ کہا جاتا تھا۔ ضلع کے سالار کو ’’ادھیکاری‘‘ اور ڈویژن کے سالار کو ’’سنگ ادھیکاری‘‘ اور ملک کے سب سے بڑے شیطان صدر کو گورو جی ’’سرسنگ چالک‘‘ کہا جاتا اور بہت سے اشارے ہیں جو خالص سنسکرت زبان کے ہیں۔ ان کے گیت انتہائی اشتعال انگیز ہوتے ہیں اور ان کا عام نعرہ تھا ’’ہندی‘ ہندو‘ ہندوستان‘‘ سال میں ایک دن ’’گرو دکشنا ڈے‘‘ منایا جاتا ہے جس دن ہر ممبر زیادہ سے زیادہ چندہ جمع کرتا ہے جو ضلع کی برانچیں جمع کر کے گرو جی کو بھیجا جاتا ہے۔ ان کی خونی سرگرمیوں کا مسلمانوں کو کچھ معلوم نہ تھا۔ انگریزوں کے خفیہ ادارے اس قدر مضبوط ہوا کرتے تھے کہ ان کو اس دہشت گرد جماعت کی کارروائیوں کا پورا علم تھا مگر انگریزی حکومت نے اس طرف آنکھیں بند کر لی تھیں۔ وہ خوش تھے کہ خفیہ جماعت ہر جگہ ہندو مسلم فسادات کروائے گی جس کے نتیجے میں ان دونوں قوموں میں ایک دوسرے سے نفرت پھیلے گی جو انگریز حاکموں کے لئے بہت مفید ہو گی۔ ان کا ہر غلام بنائے ملک میں سب سے بڑا اصول تھا ’’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘‘۔
(4) ڈاکٹر ہیڈ گوار 1940ء میں مر گیا اور اس کی جگہ ایک اور مرہٹہ مادھوراؤ سداشیوراؤ گول والکر جماعت کا سرسنگ چالک مقرر ہو گیا۔ اب اس دہشت گرد جماعت نے پورے برصغیر میں ہندو مسلم فسادات کروانے شروع کر دئیے5) اس زمانے میں راقم گورنمنٹ کالج ہوشیارپور میں زیر تعلیم تھا۔ وہاں 1944ء سے 1945ء تک مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کا جائنٹ سیکرٹری بھی رہا۔ میں نے اس خفیہ دہشت گرد جماعت تھری ایس ایس کی سرگرمیوں کی خفیہ چھان بین کی۔ میں وہاں شہر سے باہر ہندوؤں کے دیانند اینگلو ویدک کالج (ڈی اے وی کالج) کے وسیع میدان میں منہ اندھیرے چھپ چھپ کر ان کے اجتماع کی کارروائیوں کو دیکھتا رہتا تھا۔ اس خونی دہشت گرد جماعت کے متعلق تفصیل سے معلومات حاصل کرنے میں ایک ہندو لڑکی نے میری بڑی مدد کی تھی۔ یہ لڑکی میٹرک میں پڑھتی تھی اور ہندوؤں کے گھرانوں میں بلاروک ٹوک رائج بے شرمی کی باتوں سے سخت نالاں تھی۔ میری تھوڑی سی تبلیغ پر اس نے کلمہ پڑھ لیا اور بڑے شوق سے نماز پڑھنی بھی سیکھ لی تھی۔ اس کے رشتہ دار اور محلے کے تمام ہندو لڑکے تھری ایس ایس کے فعال ممبر تھے ان نوجوانوں کو ہر مہینے جماعت کی طرف سے ایک پمفلٹ تقسیم کیا جاتا تھا۔ اس لڑکی نے بہت سے پمفلٹ چرا کر مجھے دئیے تھے۔ وہ سب ہندی زبان میں لکھے ہوتے تھے اس لئے وہ لڑکی ان کو پڑھ کر مجھے سناتی تھی۔ میں نے اس سے ایک ہفتے کے اندر اندر ہندی زبان سیکھ لی اور خود ان پمفلٹ کو پڑھنا شروع کر دیا۔ اللہ کی پناہ! ان تمام پمفلٹوں میں مسلمانوں کے خلاف زہر بھرا ہوا تھا۔ ان میں مسلمان بادشاہوں کے ہندوؤں کے خلاف ظلم و ستم کی جھوٹی داستانیں بھری ہوئی ہوتی تھیں۔ ان بادشاہوں نے تلوار کے زور پر ہندوؤں کو مسلمان بنایا تھا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ موجودہ مسلمانوں کو اپنے آبائی مذہب میں لوٹ آنے کا کہا جائے اور اگر وہ نہ مانیں تو انہیں قتل کر دیا جائے۔ ایک پمفلٹ میں تصویروں میں یہ دکھایا گیا تھا کہ رومی ٹوپی پہنے داڑھیوں والے مسلمان ساڑھی پہنی ہندو عورتوں کو اٹھا کر لے جا رہے ہیں اور لکھا تھا کہ مسلمان ہندو عورتوں کو اٹھا کر لے جاتے تھے اور تلوار دکھا کر ان کو مسلمان بنا کر اپنی بیویاں بنا لیا کرتے تھے ایک پمفلٹ میں تو جھوٹ کی ٹانگیں توڑ دی گئی تھیں، اس میں لکھا تھا کہ شہنشاہ اورنگزیب اتنا ظالم تھا کہ جب تک ہر صبح ایک سو ہندوؤں کو قتل نہ کراتا تھا اس وقت تک ناشتہ نہیں کرتا تھا۔
(6) ایک پمفلٹ میں یہ لکھا تھا کہ ہم ہندو بہت فراخ دل ہیں اس لئے ہم پیار سے کہتے ہیں کہ تلوار کے زور پر مسلمان بنائے گئے آباؤ اجداد کی اولادوں کو اپنے آبائی مذہب ہندو میں لوٹ آنا چاہئے اگر وہ نہ مانیں تو چلو وہ مسلمان ہی رہیں مگر قرآن مجید ہندی زبان میں پڑھیں‘ ہندوؤں کے رسم و رواج اور تہواروں کو اپنائیں‘ ہندوؤں کے ہیرو کو اپنا ہیرو سمجھیں اور ہندوستان سے باہر کسی جگہ کو متبرک نہ مانیں اگر اس فراخ دلانہ پیشکش کو منظور نہ کریں تو پھر وہ سب ہندوستان چھوڑ کر عرب چلے جائیں اور اگر وہ اس پر بھی راضی نہ ہوں تو پھر ہمارے پاس ان کو قتل کر دینے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ 7) اب جوں جوں وقت گزرتا گیا برصغیر میں جگہ جگہ مسلمانوں پر ہندوؤں کے حملے بڑھتے گئے۔ ان کا گورو گول والکر 1973ء میں مر گیا تو اس جماعت کی سربراہی دتا تویہ بالا صاحب دیورس کے سپرد ہوئی۔ 1994ء میں بالا صاحب نے خرابی صحت پر استعفا دے دیا تو پھر جناب راجدر سنگھ عرف راجو بھیا سرسنگ چالک بنا دئیے گئے۔ مارچ 2000ء میں انجینئر سلاشن جی نے یہ عہدہ سنبھال لیا اور ان کے بعد 2009ء میں جناب موہن بھگوٹ کو یہ عہدہ مل گیا۔ انہوں نے بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا اور اپنے خاص وفدار راج ناتھ سنگھ کو اس جماعت کا صدر منتخب کروا دیا۔ 8ہندوستان میں 2013ء کے عام انتخابات میں پاکستان کے خلاف زہریلی تقریریں کرنے کی بناء پر بی جے پی پارٹی نے اکثریت حاصل کر کے اپنی حکومت بنا لی اور دہشت گرد جماعت تھری ایس ایس کے پرانے فعال شخص نریندر مودی کو وزیراعظم بنا دیا۔ مودی صاحب نے اپنے تمام وزراء اور بڑے بڑے اہلکاروں کو اسی جماعت سے وابستہ لوگوں کو مقرر کیا۔ یہ مودی صاحب اس سے پہلے صوبہ گجرات کاٹھیاواڑ کے وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں۔ انہوں نے وہاں اپنی نگرانی میں دو ہزار مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ (جاری ہے)