ایک کہانی بڑی پرانی
بچپن میں کہانی سُنتے تھے کہ ایک غریب اور متوسق طبقے کا آدمی شیخ زاہد تھا جس نے زندگی میں بہت محنت کی جو کمایا اُسے سنبھالنے اور درست جگہ پر خرچ کرنے کا سلیقہ جانتا تھا۔ شیخ صاحب نے بچوں کی تربیت بھی اسی طرح کی جس طرح وہ خود تھے۔ رفتہ رفتہ مالی حالات بہت اچھے ہوگئے اور وہ شہر کے اوّل درجے کے کاروباری حضرات میں شامل ہوگئے۔شیخ صاحب اور اُن کی بیوی کا کمال یہ تھا وہ پائی پائی کا حساب اپنے پاس رکھتے تھے اور اخراجات کو کنٹرول میں رکھتے ۔ اُن کے گھر جو بھی آتا وہ اُسے اپنی زندگی اور کامیابیوں کی داستان ضرور سناتے تمام عزیز و اقارب اُن کی پوری زندگی سے واقف تھے۔رفتہ رفتہ اولاد بڑی ہوئی تو اُنہوں نے ایک ایک کر کے بیٹوں کی شادیاں کرانا شروع کیں۔ بہو کی تلاش میں وہ بہت احتیاط کرتے اور کوشش کرتے کہ پڑھی لکھی، خوبصورت،سلیقے والی اور سمجھ دار ہو۔ پہلی بہو آئی تو اُسے شیخ صاحب اور بیگم صاحبہ نے اپنی کامیابیوں کی داستانیں سنائیں اور گھر کے طور طریقے سمجھائے۔ یوںپہلی بہو سمجھ گئی اور اُس نے احسن طریقے سے اپنے آپ کو اس نئے ماحول میں ڈھالا ۔ اب دوسرے اور آخری بیٹے کی بار ی آئی توبیگم زاہد جگہ جگہ کہنے لگیں کہ دوسری بہو بھی سیانی لاؤں گی۔ دِن رات تلاش کے بعد ایک لڑکی پسند آئی جب وہ گھر آئی تواُسے گھر کے طور طریقے سمجھائے اور زندگی میں کامیابیوں کی داستانیں سنائیں۔ چھوٹی بہو نے گھر کا ماحول دیکھا تو سمجھ گئی کہ یہاں وہی قابل تعریف ہے جو بچت کرتا ہو۔ لہذا چھوٹی بہو نے ساس سُسر اور خاندان میںاپنی عزت اور جگہ بنانے کے لئے زبردست ترکیب سوچی۔ چھوٹی بہو نے ایک روز اپنے شوہر سے کہا کہ کیوں نا ہم اپنی تمام بھینسیں بیچ دیں۔ پوچھا کیوں؟ کہا کہ ہم نے چار بھینسیں ر کھی ہوئی ہیں جن میں سے دو دودھ دیتی ہیں ۔ تین بندے ان کا خیال رکھتے ہیں جن کی تنخواہ، کھانے پینے کے اخراجات کے علاوہ بھینسوں کا بھی بہت خرچہ ہے۔ دوسرا! ان بھینسوںکی وجہ سے دو کمرے بھی زیر استعمال ہیں اور گند بھی بہت ہے ۔ اگر انہیں بیچ دیں تو اچھی خاصی رقم وصول ہو جائے گی اور ملازمین کے علاوہ دیگر اخراجات کی بھی بچت ہو گی ۔ خاوند یہ فلسفہ سُن کر بہت متاثر ہوا اور کہا کہ مجھے توآج تک یہ خیال ہی نہیں آیا۔ دوسرے دن بھینسیں بھیج دیں اور نوکروں کو فارغ کر دیا ۔ ساس سُسر گھر آئے تو پتا چلا کہ دُودھ ڈبے کا ہے۔ پوچھنے پر بیٹے نے بتایا کہ آپکی بہو بہت سیانی ہے اُس نے اسی لئے بھینسیں بیچ دیںکہ خرچہ بہت زیادہ تھا۔ ساس سُسر بہو کا فلسفہ سُن کر بہت متاثر ہوئے اور جا کر اپنے گھر کی بھینسیں بھی بیچ دیں ۔ پھر چھوٹی بہونے خاوند سے کہا کہ ٹی وی بیچ دو۔ یہ وقت ضائع کرتا ہے، بجلی خرچ کرتا، نقد رقم وصول ہوگی جو کاروبار میں کام آئے گی۔ ٹی وی صرف نقصان کر تا ہے اور آنکھوں کے علاوہ ہر وقت ٹی وی کے سامنے بیٹھے سے بیماریاں لگ جاتی ہیں جن پربعد علاج کے لئے بھاری اخراجات کرنے پڑتے ہیں ۔ یوں ٹی وی بھی اونے پونے بک گیا۔ ساس سُسر کو خبر ہوئی تو وہ پھر بہت متاثر ہوئے اور جگہ چھوٹی بہو کے لئے تعریفی کلمات بیان کرنے لگے کہ ہماری بہو کتنی سیانی ہے ۔ یوں رفتہ رفتہ گھر کا فریج اسلئے بک گیا کہ فالتو کھاناپکتا ہے جو پیسوں کا ضیاع ہے۔ بجلی بھی خرچ ہوتی ہے اور باسی کھانا کھانے کو ملتا ہے جس سے صحت خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔ساس ، سُسر ، خاوند بلکہ پورا خاندان چھوٹی بہو کا گرویدہ ہوگیا۔ پورے خاندان میں یہ سیانی بہو کے نام سے مشہور ہو گئی۔اب آیا اصل مرحلہ جب اپنے بچے ہوئے تو پتا چلاکہ بازاری دُودھ میں گندا پانی ہوتا ہے لہذا آئے روز بچے ہسپتال میں داخل ہیں۔ اپنی بھینسیں ہوتی تو بچے بیمار نہ ہوتے۔ مہمان آئے تو ٹھنڈا پانی میسر نہ تھا لہذا برف استعمال کرنا پڑتی، بچے سکول جانا شروع ہوئے تو ٹی وی، موبائل اور لیب ٹاپ کی فرمائش کرنے لگے کیونکہ جب دوست گھر آتے تھے تووہ حیرانی سے پوچھتے کہ آپکے گھر میں نہ ٹی وی ہے نہ فریج ، نہ موبائل اور نہ لیب ٹاپ ۔ اب سیانی بہو کی گھڑی الٹی چلنا شروع ہوگئی۔ ٹی وی، فریج، بھینسیں اور گھر کے دیگر سامان کی خریداری دوبارہ شروع ہوئی تو قیمتیں ہوش رُبا تھیں۔ قیمتیں سن کر شیخ صاحب کے ہوش اڑگئے اور میاں بیوی میں جھگڑا شروع ہو گیا اور خاندان بھر میں مشہور ہونے والی سیانی بہو اب جگہ جگہ بے عزت ہونے لگی۔ سیانی بہو نے کچھ عرصہ تو اپنی بہت عزت اور مشہوری کرائی مگر غیر شعوری اور عارضی عمل کی وجہ سے آخر کار بے عزت ہونا پڑا!موجودہ حکومت کی مثال بھی اسی سیانی بہو جیسی ہے۔ حکومت کے پاس نہ تو کوئی منصوبہ ہے اور نہ کوئی ویژن۔ بس عوام کو خوش کرنے کے لئے کبھی وزیراعظم ہاؤس ، کبھی گورنرہاؤسز،کبھی وزیر اعلیٰ ہاؤسز ، کبھی بھینسو ں ، کبھی گاڑیوں اور کبھی ہیلی کاپٹر بیچ کر سیانی بہو کی طرح اخراجات میں کمی کر رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت کا سیانی بہو کی طرح تمام تر زور پنجاب اور وفاقی حکومت پر ہے۔ اخراجات کی کیا شاندار بچت کی جا رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے لاہور، مری، نتھیا گلی، پشاور اور پنڈی کے گورنر ہاؤسز اور پنجاب ہاؤس پر اٹھنے والے 115کروڑ روپے کی بچت ہوگی۔گورنر ہاؤس لاہور، پشاور، کراچی اور کوئٹہ کی دیواریں گرادی جائیں گی۔ عجائب گھروں میں تبدیل کیا جائے گا اور پارکس بنیں گے۔ یعنی مز ید اربوں روپے کے اخراجات کئے جائیں گے مگر آمدن چند کروڑ۔ کچھ عرصہ بعد پتا چلے گا کہ گورنر ہاؤس لاہور تو پنجاب گورنمنٹ کی پراپرٹی ہی نہیں۔ یہ تو کشمیر پراپرٹی کا حصہ ہے۔ اُس کے بعد مزید اخراجات کر کے واپس آزاد کشمیر حکومت کے حوالے کرنا ہوگا۔ اسی طرح گورنر ہاؤس مری، پنجاب ہاؤس مری اور گورنر ہاؤس نتھیا گلی کو شاندار ہوٹلوں میں تبدیل کیا جا ئے گا۔اربوں روپے مزید اخراجات کر کے ہوٹل بنائے جائیں گے تو پتا چلے گا کہ ہوٹل نقصان میں چل رہا ہے لہذا اب واپس لو۔ شروع کے اس عرصہ میں جب ہر طرف سے حکومت کی واہ واہ ہو رہی ہے سیانی بہو کی طرح مشہوری بھی بہت ہورہی ہے لیکن جوں جوں یوٹرن لئے جائیں گے اسی طرح سیانی بہو کے خاوند اور خاندان کی طرح عوام کی ناراضگی بھی دیکھنے کو ملے گی۔وزیراعظم ہاؤس میں 8 بھینسیں ہیں جن کے خلاف حکومت نے بڑا پراپگینڈہ کیا اور کہا کہ تمام بھینسیںفروخت کی چاچکی ہیں۔ رفتہ رفتہ یو ٹرن لے کر وزیراعظم ہاؤس بھی تعلیمی ادارہ نہیں بن سکے گا کیونکہ وہ ریڈزون میں ہے۔ آخر میں پتا چلے گا کہ وزیراعظم باؤس کے علاوہ ، گورنر ہاؤسز او ر بقیہ زیادہ تر عمارتیں اُسی طرح رہیں گی جیسی تھیں۔ البتہ عوام کو دکھانے اور مطمعن کرنے کے لئے چند عمارتوں پر میک اپ کی سی تبدلی کر دی جائے گی ۔ اداروں کے سہارے ڈیموں، اخراجات میں کمی، گورنر ہاؤسز ، گاڑیوں او ر میٹرو بیسوں پر سیاست کر رہی ہے مگر اخراجات اس طرح کم کئے ہیں کہ واہ واہ کہنے کو دل چاہتا ہے۔ پنجاب میں 45 وزراء بنائے ہیں حالانکہ 41وزراء سے زیادہ نہیں ہونے چاہئے۔ یہ ہے اصل بچت جو سیانی بہو والی ہے۔ جو حالات ہیں اور جسطرح کنفیو ژ ن حکومت میں پائی جاتی ہے لگتا ہے یہ بچت کے تعریفی کلمات چند عرصے کے لئے ہی ہیں۔ آخر کار یہ سلیکٹڈ حکومت کوبھی سیانی بہو کی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔