افغانستان میں عام انتخابات کا انعقاد آج 20 اکتوبر کو ہونے جا رہا تھا، لیکن گزشتہ روز کی خونخوار دہشت گردی اور افغان طالبان کے اثر و رسوخ اور دہشت گردی کے ’’نئے طریقے‘‘ نے سنبھلتے افغانستان کے لیے شدید قسم کے مسائل پیدا کر دیے ہیں اور الیکشن ایک ہفتے کے لیے ملتوی کر دیے گئے ہیں۔ حالیہ واقعے کے مطابق قندھار گورنر ہائوس کے کمپاؤنڈ میں ایک اعلیٰ سطح اجلاس کے بعد سکیورٹی گارڈ نے فائرنگ کرکے گورنر زلمائے، پولیس چیف جنرل عبد الرازق اور انٹیلی جنس چیف عبد المومن کو ہلاک کردیا(بعض اطلاعات کے مطابق گورنر زلمائے کا علاج جاری ہے)۔ ابھی تک کی غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق پولیس چیف کے سکیورٹی گارڈ نے گولیوں کی بوچھاڑ کردی جس کے نتیجے میں اعلیٰ حکام جان سے گئے تاہم امریکی کمانڈر جنرل سکاٹ ملر اس حملے میں محفوظ رہے ۔طالبان نے اس حملے کی نا صرف ذمہ داری قبول کی اورعام انتخابات کو ناکام بنانے کے لیے مزید حملوں کا بھی اعلان کیا ۔اس خونخوار دہشت گردی کی وزیراعظم پاکستان عمران خان اور آرمی چیف نے شدید الفاظ میں ناصرف مذمت کی بلکہ افغانستان کے عوام کے ساتھ بھرپو ر اظہار یکجہتی کا مظاہرہ بھی کیا۔
افسوس ناک امریہ ہے کہ امریکا افغانستان میں گزشتہ 17سال سے موجود ہے لیکن دہشت گردی ہے کہ بڑھتی ہی جا رہی ہے، طالبان نت نئے انداز میں حملے کرتے اور اُس میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ دریں چہ شک کہ امریکی انتظامیہ کے ذمہ داران اور تھنک ٹینکس کے دانشور بباطن بخوبی جا نتے ہیں کہ کمزور ترین ممالک کے نہتے ترین شہری بھی جدید اور مہلک ترین وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانیوالے ہتھیاروں کے بل بوتے پر توسیع پسندانہ عزائم اور استعماری اہداف کیخلاف اگر سینہ سپر اور صف آرا ء ہو جائیں تو پس قدمی اور پسپائی اُن کا مقدر ہوا کرتی ہے۔ برطانیہ، فرانس ، سوویت روس،اسرائیل، بھارت ۱ور امریکا ایسے توسیع پسندانہ عزائم رکھنے والے ممالک کوالجزائر، انڈو نیشیا،ویتنام ، کوریا، چلی، ایسلوا ڈور ، پانامہ ، گوئٹے مالا، کیوبا،فلسطین ،لبنان ، چیچنیا ، بوسنیا، افغانستان اور عراق میں بدرجہ اتم اس کا تجربہ ہو چکا ہے کہ جدید دور میں کسی بھی چھوٹے سے چھوٹے یا بڑے ملک کو محض اُس کی اسلحی، عسکری، اقتصادی اور داخلی کمزوری کی وجہ سے ترنوالہ نہیں سمجھنا چاہیے۔میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کی کوئی بھی بڑی سے بڑی طاقت بھی کسی ایک ملک پر غاصبانہ اور جارحانہ قبضہ ٹیکنالوجیکل ، ایریل ، عسکری و اسلحی بالادستی کے بے دریغ اور اندھا دھند استعمال سے کر تو سکتی ہے لیکن 21 ویں صدی میں وہ اپنے اس ناجائز اور غیر قانونی قبضے اور تسلط کو کھربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود برقرار و استوار نہیں رکھ سکتی۔۔ 9/11 کے بعد افغانستان کے طالبان کی مزاحمت نے اس امر پر مہر توثیق و تصدیق ثبت کر دی ہے کہ طاقتور ترین ممالک بھی کسی اُس ملک کے شہریوں کو اپنا غلام بنانے سے قاصر رہتے ہیں، جہاں آزادی ، حریت اور بنیادی انسانی حقوق کا شعور توانائی اور شباب سے آشنا ہو ۔
یہی وجہ ہے کہ امریکا افغانستان میں امن عمل کے آگے نہ بڑھنے کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیتا ہے اور اپنی ناکامی کا سارا ملبہ پاکستان پر پھینکتا ہے۔ اور پاکستان کی مجبوری ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ تعلقات بگاڑنے سے بھی قاصر نظر آتا ہے اور عالمی طاقت ہونے کے ناطے امریکہ کے ساتھ تعلقات ہمارے لئے اہم بھی ہیں، روس کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے۔چین چونکہ پڑوسی اور اُبھرتی ہوئی عالمی طاقت ہے۔ اسٹرٹیجک پارٹنر ہونے کے ساتھ ساتھ اب وہ اہم اقتصادی پارٹنر بھی بن گیا ہے، اس لئے اس کی حیثیت اور اہمیت بھی غیرمعمولی ہے۔ حریف اور سائز میں کئی گنا بڑا پڑوسی ہونے کے ناطے ہندوستان کے معاملات بھی ہماری ترجیحات میں سرفہرست ہونے چاہئیں… ایران بھی اہم ترین پڑوسی ہے لیکن افغانستان بہت چھوٹا پڑوسی ہونے کے باوجود بعض حوالوں سے ہمارے لئے ان سب سے اہم ہوجاتا ہے…پہلی وجہ یہ ہے کہ مغربی دنیا ہمیں زیادہ تر افغانستان کے آئینے میں دیکھتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم گزشتہ سالوں میں سیاسی‘ سماجی اور تزویراتی حوالوں سے افغانستان کے ساتھ یوں نتھی ہوگئے ہیں کہ اس کے حالات سے سب سے زیادہ پاکستان متاثر ہوتا ہے… تیسری وجہ یہ ہے کہ افغانستان کے حالات اور تعلقات کا ہمارے اور امریکہ کے تعلقات پر بھی اثرپڑتا ہے‘ ہمارے اور چین کے تعلقات پر بھی ‘ ہمارے اور انڈیا کے تعلقات پر بھی ‘ ہمارے اور روس کے تعلقات پر بھی اور ہمارے اور ایران کے تعلقات پر بھی… اسی طرح پاکستان نے کسی دوسرے ملک میں اپنے آپ کو اتنا ملوث نہیں کیا جتنا افغانستان میں کیا بلکہ اس کی وجہ سے اپنے سماجی اور اقتصادی ڈھانچے کو بھی تباہ کیا… جتنی مالی‘ جانی اور سیاسی سرمایہ کاری پاکستان نے افغانستان میں کی ہے ‘ نہ پاکستان نے کہیں اور کی ہے اور نہ کسی اور ملک نے افغانستان میں کی ہے۔ لیکن اس کے باوجود افغانستان نے پاکستان پر کبھی بھرپور اعتماد نہیں کیا۔ 1979ء کے اواخر میں سابق سوویت یونین کی سرخ افواج افغانستان پر قابض ہوئیں تو وہاں سے مجبوری کے عالم میں گھر بار چھوڑ کر چلے آنے والے چالیس لاکھ کے قریب مہاجرین کو پاکستان نے اپنی پناہ میں رکھا۔ تین دہائیاں گزر گئی ہیں ہمارا ملک مسلسل ان کا بوجھ برداشت کیے جا رہا ہے… افغان قوم نے روسی قبضے کے خلاف آزادی کی جو جنگ لڑی وہ پاکستان کے براہ راست تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھی۔
بحرکیف افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات محض روحانی اور سیاسی نہیں… اس سر زمین کے ساتھ ہمارے علاقے کا رابطہ صدیوں سے باہمی، نسلی، سماجی اور تجارتی بنیادوں پر چلا آ رہا ہے آج کے افغانستان کی سب سے زیادہ تجارت پاکستان کے ساتھ ہے… سمندری راستوں سے محروم اس ملک تک ضرورت کی تمام اشیاء ارض پاکستان سے ہو کر گزرتی ہوئی پہنچتی ہیں۔ دونوں ملکوں کی سالانہ تجارت کا حجم دو ارب ڈالر سے زائد ہے، پاکستان کی زرخیز زمینوں پر اگنے والی گندم، چاول اور بنیادی غذائی اجناس کی دوسری فصلیں صرف قدیم آریائی قوموں کے لیے باعث کشش نہ تھیں۔ موجودہ افغانستان کے باشندے بھی جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کی خاطر پاکستان سے قانونی اور غیر قانونی دونوں ذرائع سے درآمد شدہ اشیائے خورو نوش کے محتاج ہیں… وہاں سے بھی میٹھے رسیلے پھل اور میوہ جات ہمارے ملک کے اندر آتے ہیں لیکن پاکستان سے جانے والی اجناس کا حجم کہیں زیادہ ہے۔
اس لیے دونوں ممالک کو دہشت گردی ختم کرنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔ اگر افغانستان یہ سمجھتا ہے کہ وہ پاکستان سے بات چیت کیے بغیر امن حاصل کرلے گا تو ایسا اس لیے بھی ممکن نہیں ہے کیوں کہ پاکستان افغانستان کا اہم ترین ہمسایہ ملک ہے جن کے درمیان 2430 کلومیٹر طویل سرحد ہے اور اس کی حفاظت ممکن نہیں مگر جہاں تک ممکن ہو سکے وہاں تک تو دہشت گردوں کے ہاتھ روکے جا سکتے ہیں ، اس سرحد میں تجارت اور دونوں ممالک کے شہریوں کی آمدورفت کے لئے 64 سے زائد کراسنگ پوائنٹس ہیں۔ جن میں 16 کو قانونی حیثیت حاصل ہے جبکہ 4 ریاستوں میں خیبر ایجنسی میں طورخم بارڈر، شمالی وزیرستان میں غلام خان، جنوبی وزیرستان میں انگور اڈا، اور بلوچستان میں چمن بارڈر شامل ہیں جہاں سے باقاعدہ تجارت اور لوگوں کی آمدروفت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ درجنوں غیر روایتی راستے بھی ہیں جہاں سے آمدورفت کے لئے لوگ پیدل یا خچروں کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ امر ذہن نشین رہے کہ پاکستان 2008ء سے بارڈر مینجمنٹ کا ایک تسلسل کے ساتھ افغان حکومت اور نیٹو حکام سے مطالبہ کرتا چلا آرہا ہے کہ پاکستان میں ایک ہزار سے زائد چوکیاں قائم کر رکھی ہیں جبکہ افغان حکومت نے سو سے بھی کم چوکیاں قائم کی ہیں۔ اصل مسئلہ سرحد سے دہشت گردوں کی آمدروفت روکنے کے لئے فول پروف انتظامات کرنا ہے۔ اس کے لئے دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا۔ اگر الزام اور جوابی الزام کی موجودہ کشیدہ صورت حال جاری رہی تو دونوں ممالک کے مابین کشیدگی کی خلیج مزید عمیق ہوسکتی ہے۔ افغان حکام کو اس امر کا احساس ہونا چاہیے کہ حالتِ امن میں بھی پاکستانی تعاون کے بغیر اس کے شہریوں کی گزربسر ممکن نہیں۔ لہٰذادہشت گردی اس خطے کا مشترکہ مسئلہ ہے جسے باہمی مشاورت سے حل کیا جانا چاہیے اور افغانستان پاکستان کے حوالے سے عوام کے اندر مجموعی تاثر کو مثبت کرنے میں کردار ادا کرے تاکہ صدیوں پرانے عوامی رشتے کو خارجیوں کے ذریعے ختم نہ کیا جاسکے۔ ورنہ درمیانی طاقتیں ہمیشہ طالبان کو استعمال کرکے کبھی پاکستان پر حملہ کرواتی رہیں گی تو کبھی افغانستان پر اور دونوں ملکوں کے عوام اس شدت پسندی اور ’’بارود‘‘ کی آگ میں جلتے رہیںگے!
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024