میری جچی تلی رائے ہے کہ عمومی طور پر پاکستان میں جو صاحب اطلاعات کے وزیر بنتے ہیں، انہیں آئی ٹی کی کوئی شد بد نہیں ہوتی اور جو صاحب انفارمیشن ٹیکنالوجی کا منصب سنبھالتے ہیں ، وہ اطلاعات کے نظام کے رمز آشنا نہیں ہوتے، آج کی دنیا میں ون ونڈو کا نظام رائج ہو رہا ہے۔ پاکستان میں صرف لوگوں کو وزارتیں بانٹنے کے لئے محکموں کے ٹکڑے کر دیئے جاتے ہیں۔ مگر اب جو اطلاعات کا نیا نظام ہے ، وہ مکمل طور پر ٹیکنالوجی پر مبنی ہے۔ اخبار اور ٹی وی کی جگہ سوشل میڈیا نے لے لی ہے اور سوشل میڈیا آئی ٹی کا حصہ سمجھا جاتا ہے جبکہ اس کے ا ثرات اطلاعات کے نظام پر مرتب ہوتے ہیں۔ چند برس قبل جب آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ سے میری پہلی ملا قات ہوئی تو میں نے ابتدائی فقرہ ہی یہ کہا تھا کی اگلی جنگ واہگہ یا چونڈہ کے محاذ پر نہیں، سوشل میڈیا کے میدان میں لڑی جائے گی۔ وہ میری بات سمجھ گئے اور جی ایچ کیو میں اتنابڑاا ور مﺅثر سوشل میڈیا سیٹ اپ بنا لیا کہ اس نے ملک دشمنوں کے چھکے چھڑا دیئے۔
آج میں وزیراعظم عمران خان سے ایک پتے کی بات کہتا ہوں کہ جب تک پی ٹی آئی اقتدار میں نہیں آئی تھی تو اس کے سوشل میڈیا نے اپنے سیاسی حریفوں کو پچھاڑ کر رکھ دیا تھا، مگر اقتدار مل گیا تو وزیر اعظم کو ایک اعلی سطحی اجلاس صرف اس نکتے پر غور کے لئے طلب کرنا پڑا کہ ان کی حکومت کی صحیح تصویر میڈیا میں کیوں سامنے نہیں آ رہی، پتہ نہیں اس اجلاس کے شرکاءکس نتیجے پر پہنچے ہوں گے مگر میری رائے یہ ہے کہ اس حکومت نے بھی اطلاعات اورآئی ٹی کے محکموں کو دو الگ اصحاب کے سپرد کر رکھا ہے۔ ہو سکتا ہے دونوں کو اپنے اپنے محکمے کے امور پر مکمل عبور حاصل ہو مگر یہ کام ایک وزیر کی نگرانی میں جب تک نہیں دیا جاتا تب تک نہ حکومت کو مطلوبہ نتائج ملیں گے اور نہ پاکستان اور اس کی قوم کا بھلا ہو سکتا ہے۔ ہمیں آج کی دنیا میں آئی ٹی کے میدا ن میں ترقی کرنی ہے، اخبارات تو ایک عرصے سے چھپ رہے ہیں ۔ٹی وی بھی کام کر رہے ہیں مگر آئی ٹی نے انہیں مجبور کر دیا کہ وہ اپنے آپ کو ویب پر لائیں۔ اب اخبار، ای پیپر کی شکل میں ساری دنیا میں دستیاب ہے جبکہ آئی ٹی کے بغیر اسے دنیا تو کیا ، ملک کے کونے کونے تک پہنچانا ممکن نہیں تھا۔ آئی ٹی کا نظام ا ٓ جانے کے بعد دنیا پل پل کی خبر جاننا چاہتی ہے اور پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا اپنی روایتی شکل میں یہ فریضہ ادا نہیں کر سکتے۔ اب صرف ای پیپر ہی نہیں ہر خبر لمحہ بہ لمحہ انٹرنیٹ کے ذریعے فراہم کی جا رہی ہے اور ہر ٹی وی چینل بھی انٹرنیٹ پر لائیو دیکھا جاسکتا ہے۔ جب یہ کام ایک ہی شعبہ کرتا ہے تو اس شعبے کو چلانے کے لئے بھی ایک ہی محکمہ ہونا چاہئے۔ اگر لوگوں کو دو محکموں کے چکر لگانے پڑیں تو کام کی رفتار سست پڑ جائے گی جبکہ دنیا روشنی سے زیادہ تیز رفتاری کے سا تھ ا ٓگے بڑھ رہی ہے، فیس بک، یو ٹیوب، ٹوئٹر، لنکڈ ان، ٹمبلر ، گوگل کے علاوہ سینکڑوں ایسے پلیٹ فارمز اورذرائع موجود ہیں جو خبر کی نشر و اشاعت میں دن رات مصروف ہیں۔ مگر ہم نے وقت کے تقاضوں کو فراموش کر رکھا ہے۔ وزیر اطلاعات الگ۔ وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی الگ۔ پی آئی ڈی الگ اور پیمرا الگ جبکہ کام سارے کا سارا ایک تو پھر وزیر ایک کیوں نہ ہو، پیمرا اور کیبل آپریٹرز کاا ٓدھا کنٹرول آئی ٹی کے پاس اور اگر کوئی ٹی وی تنگ کر رہا ہو یا کیبل آپریٹر سے شکایت ہو جائے تو نزلہ وزیر اطلاعات پر۔ اخبار کا ڈیکلریشن وزارت اطلاعات جاری کرتی ہے اور ٹی وی کا لائسنس بھی اسی کے کنٹرول میں پیمرا جاری کرتا ہے مگر اخبارا ور ٹی وی دونوں آئی ٹی بھی استعمال کرتے ہیں، اس لئے ان کی ٹانگ دو محکموں کے اندر پھنسی رہتی ہے۔
میں سن دو ہزار میں نیویار ک کی معروف کولمبیا یونیورسٹی میں ایک نہائت تجربے کار ابلاغیات کے پروفیسر سے ملا تھا ، وہ نہ صرف اس یونیورسٹی میں صدر شعبہ ابلاغیات رہے بلکہ نیویارک ٹائمز کے بھی اومبڈس مین رہے۔ اس وقت تک آئی ٹی ابھی ابتدائی شکل میں تھی۔ اس لئے جب میںنے ان سے سوال پوچھا کہ کیا دس بیس برس بعد پرنٹ میڈیا کی اہمیت کم نہیں ہو جائے گی اور ا سکی جگہ ویب اخبار اور انٹر نیٹ ٹی وی لے لیں گے توان کاجواب نفی میں تھا اور میرے لئے ذاتی طور پر انتہائی مایوس کن بھی کیونکہ میں ویب اخبار میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کرچکا تھا۔ میں آئی ٹی کا آدمی نہیں تھا اور میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک دن سوشل میڈیا بھی جنم لے گا اور خبر کی دنیا میں بھونچال آ جائے گا۔ آج ایک ٹویٹ اخبارات کی ہیڈلائن اور ٹی وی چینلز کی بریکنگ نیوز بن جاتا ہے۔ ایسا ہی کوئی ٹویٹ دنیا کے کئی دارالحکومتوںپر لرزہ طاری کر دیتا ہے۔
مجھے شبہ ہے کہ ہم نے اطلاعات اور آئی ٹی کو اکٹھا نہ کیا تو ہم قومی طور پر پس ماندگی کا شکار ہو جائیں گے۔ میری تجویز کی رو سے وزیر اطلاعات کو صرف دو محکمے مزید سنبھالنے ہوں گے۔ ایک پی ٹی سی ایل۔ دوسرا پی ٹی اے ۔ ان سے جڑے ہوئے موبائل فون ادارے اور سافٹ ویئر ہاﺅس بھی اسی کو کنٹرول کرنے ہوں گے۔ وزیر اطلاعات ٹیکنیکل امور کے لئے ایک مشیر کی خدمات حاصل کر سکتا ہے مگر جہاں تک اطلا عات کے نظام کا تعلق ہے تو وہ ان سب شعبوں کی کوآرڈی نیشن کے بغیر نہ حکومت کو مطلوبہ نتائج دکھا سکتا ہے اور نہ قوم کو دنیا کی ترقی کا ہم سفر بنا سکتا ہے۔ ہمارے ہمسایہ ملک افغانستان میں فائیو جی کی ٹیکنالوجی استعما ل ہو رہی ہے ، ہم تھری جی اور فور جی کے ساتھ رینگ رہے ہیں۔ یہ نظام ابلاغیات کی ترقی کے لئے بنیادی کردار کی حیثیت رکھتا ہے۔
میرا سوال ہے کہ کیا آج اخبار اب ہاتھ سے لکھے جاتے ہیں، کیا اخبار کی پلیٹیں ہاتھ سے صاف کی جاتی ہیں اور کیا ٹی وی چینلز کو نت نئی خبریں ، فوٹوز اور ویڈیو کلپس ڈاک کے ذریعے بھیجے جاتے ہیں۔ برسوں پرانی بات ہے کہ میں موٹر وے پر سفر کرہا تھا، یکا یک میرے سامنے ایک لگژری بس الٹ گئی اور اس نے ساری سڑک روک لی۔ میرے دل میں آیا کہ کیا ہی بہتر ہوتا کہ کسی ٹی وی چینل نے اپنا فون نمبر دیا ہوتا تو میں اس حادثے کی تصویر ابھی اوراسی وقت نشر کروا سکتا تھا، اس وقت تک واٹس ایپ کا دور نہیں آیا تھا، اب آ ئی ٹی کی یہی شاہراہیں اخبار اور ٹی وی چینلز استعمال کر رہے ہیں اور ان سے بھی تیز تر سوشل میڈا کا نظام ہے جو پل بھر میںہلچل مچا دیتا ہے۔
تو صاحبو ! اگر ہمیں منشی گیری کرنی ہے تو طرز کہنہ سے چمٹے رہیں اور گر برق رفتاری سے ا ٓگے بڑھنا ہے اور کنٹرول اور مانیڑنگ کو بہتر بنانا ہے تو نئے اور انقلابی فیصلے کرنا ہوں گے۔ تحریک انصاف نئے پاکستان کے نعرے کے ساتھ ا ٓئی ہے ، اگر وہ مجوزہ دزارتوں کو اکٹھا کر دے تو اس پر کوئی اضافی مالی اخراجات نہیں آئیں گے مگر اس کو یہ فکر لاحق نہیں ہو گی کہ اس کی آواز عوام تک نہیں پہنچ رہی یا اس کی تصویر کو گدلا کیا جا رہا ہے۔
میں پھر کہتا ہوں کہ آج کی دنیا میں کوئی بھی خبر پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا سے قبل عوام تک پہنچ جاتی ہے۔ اس کی مانیٹرنگ کون کرے گا، وزیر اطلاعات یا وزیر آئی ٹی۔ کشمیر کے گھنے جنگلوں میں برہان وانی نہ کوئی اخبار چھاپتا تھا، نہ کوئی ٹی وی چینل چلا رہا تھا ۔اس کے ہاتھ میں بس ایک اینڈرائڈ ڈیوائس تھی جس کے ذریعے ا سنے اپنی قوم کو ایک ہی نعرہ دیا،کیا چاہیئے ، آزادی، آزادی ۔ برہان وانی کو بھارتی فوج نے شہید کر دیا مگر اس کا پھیلایا ہوا نعرہ کشمیر کے گلی کوچوں میں گونج رہا ہے۔کر لو جو کرنا ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024