وزیر تعلیم سندھ کا قابل تقلید فیصلہ
’’عجب کرپشن کی غضب کہانی‘‘ کے عنوان سے جتنی بھی بجھا رتیں یا الزامات کی تندو تیز ہوائیں سندھ سے آتی ہیں اتنی پاکستان کے کسی اور صوبے سے نہیں آتیں۔ مگر ایک بہت ہی خوشبودار تروتازہ جھونکا اسی سندھ دھرتی سے ایسا آیا کہ دل باغ باغ ہو گیا۔’’تبدیلی‘‘ کا شور و غوغا تو کے پی کے سے بہت گرجتا رہا مگر تبدیلی کی مہک سندھ سے آئی۔
خبراگرچہ بہت چھوٹی ہے مگر ہمارے ملک کے کلچر کے مطابق بہت بڑی ہے۔ سندھ کے وزیر تعلیم مہر سردار علی شاہ نے اپنی بیٹی کو گورنمنٹ سکول میں داخل کرا دیا۔ اگرچہ یہ خبر معمولی ہی سہی مگر افسوس کرپٹ‘ کرپٹ ‘ چور چور چیختا چلاتا الیکٹرانک میڈیا اس خبر کو غیر معمولی طور پر اہمیت نہ دے سکا۔ جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس خبر کو نہ صرف بریکنگ نیوز کے طور پر بار بار چلایا جاتا بلکہ ٹاک شوز میں بھی بحث کیلئے اہمیت دی جاتی۔ سندھ کے ایک وزیر نے وہ کام کر دکھایا پاکستان میں جس کی نظیر نہ تو ماضی میں ملتی ہے اور نہ ہی حال میں کہیں نظر آتی ہے۔ اس مثال کو ہائی لائٹ کر کے نہ صرف وزیر موصوف کی جرات و ہمت کی ستائش کی جاتی بلکہ دوسرے ہم عصر عہدیداروں کو بھی اس مثال کی طرف عمل کرنے کی ترغیب دی جاتی۔
ہمارے وزیراعظم نے اس عہدہ پر براجمان ہونے سے قبل بارہا کنٹینروں پر دعویٰ کیا تھا کہ اشرافیہ کے بچے جب تک پاکستان کے سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل نہیں کریں گے۔ ہمارا معیار تعلیم کلرک ہی پیدا کرتا رہے گا۔ مگر افسوس کہ کاروں اور بھینسیں بیچ کر ملکی معیشت کو راہ راست پر لانے کی معاشی پالیسیوں سے جان چھوٹے تو اپنے کئے دعوؤں اور وعدوں کی پاسداری کی طرف خیال جائے۔ حکومت سنبھالے 100 دن ہونے کو آئے مگر ابھی تک وہ مشاق ماہرین کی 200 افراد پر مشتمل ٹیم نظر نہیں آرہی جس کے بارے میں وزیراعظم نے دعویٰ کیا تھا کہ ’’میرے پاس 200 قابل افراد کی ٹیم ہے جسے موجودہ ملکی بحرانوں سے نمٹنے کا ہنر آتا ہے۔ مگر اب یہ آئن سٹائن قسم کے ماہرین معیشت 70 سالہ پرانا راگ الاپنے کے سوا کچھ نیا نہیں کر رہے کہ سابقہ حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہم مجبوراً ان ہی کے نقش قدم پر چلنے پر مجبور ہیں۔
ضمنی الیکشن میں اس راگ کو شرف قبولیت عوام نے نہیں بخشا۔ اس کے باوجود ایسے دعوؤں پر تو عمل کیا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم اپنی تمام کابینہ کو حکم دیں کہ ان کے اگر تمام نہیں تو ایک ایک بچہ ضرور سندھ کے وزیرتعلیم سردار مہر علی شاہ کی تقلید میں گورنمنٹ کے تعلیمی ادارے میں داخل ہو۔ یہی حکم وفاقی کابینہ کے علاوہ تمام صوبائی کابینہ کو اور حتیٰ کہ حکومتی سطح پر تمام اراکین وفاقی و صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اسمبلی کو بھی جاری کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے تو کسی دہری شہریت رکھنے والے متنازعہ مشیر وزیر کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی جس ملک میں نیب کا چیئرمین وزیراعظم سے ملاقات کے بعد اپوزیشن پر سخت اور حکمرانوں پر نرم رویہ رکھنے کا پابند ہو سکتا ہے تو خان صاحب کے ایک حکم پر تمام وزراء اور اراکین اسمبلی اپنے کم از کم ایک بچے کو گورنمنٹ کے تعلیمی ادارے میں داخل کیوں نہیں کرا سکتے ۔
اب تمام میڈیا اور تجزیہ نگار سندھ کے اس سکول کا تعلیمی و انتظامی جائزہ لے سکتے ہیں۔ جس میں وزیرتعلیم سندھ کی بیٹی تعلیم حاصل کررہی ہے۔یقیناً اس سکول کا معیار علاقہ کے تمام سکولوں سے ممتاز ہو گا۔ اس کے اساتذہ سٹاف اور تمام طلباء و طالبات حتیٰ کہ ان کے والدین کیلئے وہ سکول قابل فخر ہو گا۔ غریب و امیر تمام بچوں کے والدین محفلوں میں برملا فخر سے کہتے ہیں کہ ہمارے بچے اس سکول میں پڑھتے ہیں جہاں وزیر تعلیم کی بیٹی پڑھتی ہے۔ یہ ایک بہت ہی اچھی بلکہ پیاری قابل تقلید مثال قائم کی ہے۔ وزیر موصوف کے اس اقدام پر جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کو چاہئے کہ اس ملک کا بدبودار کرپٹ زدہ مسخ چہرہ ہی دنیا کو نہ دکھائے ایسی مثالوں کو بھی وقت دے۔ مذاکرے کرائے۔ وزراء اور ارکان اسمبلی کو ٹاک شوز میں بلائے اور انہیں وزیرتعلیم سندھ کے عمل کی تقلید پر راغب کرے۔
اگر تمام اسمبلیوں کے ارکان کے بچے اپنے اپنے حلقہ کے سرکاری سکول‘ کالج یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کریں تو یقیناً نہ صرف تعلیمی نظم و ضبط بہتر ہو گا بلکہ تعلیمی پالیسی یکسو اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ مرتب ہو گی۔ سرکاری تعلیمی اداروں پر لوگوں کا اعتماد بڑھے گا۔ اساتذہ بہتر کام کر سکیں گے۔ صرف اور صرف وزیر تعلیم سندھ کے ایک عمل کی تقلید کرنے سے ہمارا نظام تعلیم بلندیوں کو چھوتا نظر آئے گا تو دوسری طرف پرائیویٹ اداروں کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ ان کی لوٹ کھسوٹ کا بازار سرد ہو جائے گا۔ وزیراعظم عمران خان کے ایک وعدے کی تکمیل ہو جائے گی۔ اگر ایسا ہوا تو عین ممکن ہے کہ غریب عوام بھی نئے عزم‘ اعتماد اور ولولہ کے ساتھ فخر سے گورنمنٹ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کریں گے اور اس ملک و قوم کیلئے اپنی گراں بہا خدمات سر انجام دے کر اس ملک کو ترقی یافتہ ممالک کے برابرلاکھڑا کریں گے۔ یہاں راقم بطور ایک استاد اس بات کی تعریف ضرور کرنا پسند کرے گا کہ گزشتہ پانچ سالوں سے ہمارے شعبہ تعلیم نے پرائمری‘ مڈل اور ہائی سکول کی کتب کو جس جدید تدریسی ضروریات سے ہم آہنگ مرتب کیا ہے۔ وہ سلیبس کسی طور بھی آکسفورڈ کی کتب سے کم تر نہیں بلکہ ہمیں فخر ہوتا ہے جب دیکھتے ہیں کہ آکسفورڈ کی کتب میں ہماری سرکاری کتب سے حوالہ جات کوڈ کئے جا رہے ہیں۔ سرکاری کتابوں میں درج معیاری اور اعلیٰ تعلیم دینے کیلئے اساتذہ بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ بھرتی کئے جا رہے ہیں۔ اب سکولوں میں سبجیکٹ سپیشلسٹ بھی ایم فل اور پی ایچ ڈی موجود ہیں۔ یہی اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ مختلف ہائی لیول کے پیشہ ورانہ امتحانات میں کامیابی حاصل کر کے سرکاری سکولوں ‘ کالجز ‘ یونیورسٹیوں میں ملازمت کے اہل سمجھے جاتے ہیں۔ لہٰذا سندھ کے وزیر تعلیم کی تقلید کو بذریعہ حکم وزیراعظم پورے ملک میں لاگو کردیں تو ہمارے تعلیمی اداروں کو چار چاند لگ جائیں۔
آج بطور پاکستانی مجھے بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ وزیر تعلیم سندھ سردار مہر علی شاہ نے اپنی بیٹی کیف کو سرکاری سکول میں داخلہ دلوا کر یہ ثابت نہیں کیا کہ کیف بھی عام بچی ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ان کے اس فیصلے نے اس سکول کی ہر عام بچی کو کیف کے برابر لاکھڑا کیا اور ان تمام بچیوں کے والدین فخر سے کہہ رہے ہیں کہ ہمارے بچے اس سرکاری سکول میں پڑھتے ہیں جہاں وزیرتعلیم سندھ کی بیٹی بھی پڑھتی ہے۔ بطور ایک پاکستانی استاد کے وزیر تعلیم سندھ مہر سردار علی شاہ کو سلام۔