خداداد صلاحیتیں اور حکومت سے مطالبہ
یہ تحریر ان خداداد صلاحیتوں کے مالک نوجوانوں کے نام جو اپنی صلاحیتوں سے وطن کی ترقی میں اپنے حصے کی شمع جلانے کے خواہاں ہیں لیکن اپنی منزل کو خواب سمجھتے ہیں۔ آخر ان کے جذبے کو ماند کرنے میں کون شریک ہے۔ انہی نوجوانوں میں شمار میرے کلاس فیلو رجاس المحسن کا ہوتا ہے جو کہ بورے والا میں پیدا ہوئے۔ بعد میں اپنی فیملی کیساتھ عمان عرب امارات میں منتقل ہوئے۔ رجاس نے وہاں سے او لیول اور اے لیول کاامتحان پاس کیا۔ اس کیساتھ رجاس نے موسیقی کے کلب کو بھی جوائن کیا۔ عمان میں زیادہ تر موسیقار موسیقی میں منفی تاثر دیتے تھے جو کہ فحاشی کی طرف لے جاتی۔ لیکن رجاس کے اساتذہ نے اسے مثبت سوچ پر مبنی موسیقی کی تلقین کی جو کہ نوجوانوں کو خودی کو پہچاننے میں مددگار ثابت ہو ۔ موسیقی کے اتار چڑھاؤ سمجھنے کے بعد رجاس نے جدت سے منسلک موسیقی کا جو کہ فری سٹائل اپنایا۔ اعلیٰ تعلیم کیلئے رجاس نے پاکستان کارخ کیا۔ رجاس نے بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں ایم بی اے میں داخلہ لیا اور Rapping کو بھی جاری رکھا۔ رجاس انگریزی ‘ عربی اور دوسری کئی زبانوں میں کمال کی موسیقی پر عبور رکھتے ہیں۔ پاکستان پی ایس ایل کا اعلان ہوتے ہی رجاس اور عدنان نے بذات خود Tittle song پر کام شروع کیا۔ بعض اوقات رجاس کو سٹوڈیو جانے کیلئے اپنی مکمل جیب خرچ رکشے کے کرائے کی نذر کرنی پڑتی۔ اپنے سونگ کی پذیرائی کیلئے موسیقاروں سے رجوع کیا لیکن سب کو اپنی عزت کی فکر تھی کہ ہم سے آگے نہ نکل جائے۔ رجاس نے بہت کوشش کی کہ ملتان سلطان کی انتظامیہ تک رسائی ہو لیکن جس سے پوچھتے تھے ہر بندہ جڑیں کاٹنے پر لگا ہوا تھا۔ ایک دن ان کو کسی طرح سے ملتان سلطان کے مارکیٹنگ منیجر کا رابطہ نمبر ملا۔ انہوں نے اپنے سونگ کی ریکارڈنگ انہیں بھیجی اور دیکھتے ہی انہوں نے رجاس کا سونگ پسند کر لیا اور رجاس کو لاہور سٹوڈیو آفیشل ریکارڈنگ کیلئے بلا لیا۔ مختلف ٹی وی پر رجاس کو انٹرویو کیلئے بلایا گیا۔ یہ وہی رجاس ہے جس نے اپنی صلاحیتوں پر یقین کیا اور منزل کو ایک حقیقت سمجھتے ہوئے محنت جاری رکھی لیکن حکومتی سہار ا نہ ہونے کی وجہ سے رجاس کا یہ جذبہ ماند پڑنے کا اندیشہ ہے۔ مقصد تحریر یہ ہے کہ وہ نوجوان جو چائے کی دکانوں پر مختلف ڈھابوں پر اپنی صلاحیتوں کی نمائش لگائے بیٹھے ہیں آخر کس کی آس پر اور وہ کون ہے جوان کی انگلی پکڑ کر منزل کی نشاندہی کردے۔ اب ان کانوں کے دروازے پر ایسی دستک کم ہی سنائی دیتی ہے کہ ’’یہ بچے ہماری قوم کا سرمایہ ہیں‘‘ سیاست‘ دھاندلی‘ مہنگائی اور معاشرے کی دوسری بحث کو ان نوجوانوں کی ذمہ داری بنا دیا گیا۔ دو وقت کی روٹی ان کو صدا دیتی ہے کہ بھائی چھوڑو ان صلاحیتوں کو یہ تو بندہ فارغ وقت میں بھی کر سکتا ہے۔ ایک چھوٹا سا ہنر بھی ان نوجوانوں کو قومی رہنما بنا سکتا ہے۔ حکومتوں کی لاغرضی نے ان نوجوانوں کو ناکارہ بنا دیا ہے۔ یہ مانا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ Rapping کو فروغ دیں۔ بات یہ ہے کہ جہاں ہمارے نوجوان دوسرے بھارتی موسیقاروں کو سنتے ہیںوہیں اپنی ثقافت اور تہذیب کے رنگ کو رجاس کی آواز میں تلاش کریں۔ میرا تو مدعا یہی ہے کہ کھیلوں اور موسیقی سے دور قومیں خود کو پہچاننے سے قاصر رہتی ہیں۔ اگر اسی موسیقی کو مثبت انداز میں پیش کیا جائے تو ہماری نسلوں کی رہنمائی کر سکتی ہے۔ خاص طور پر ان نوجوانوں کیلئے جو احساس کمتری میں مبتلا رہتے ہیں۔ بات صرف یہ ہے جیب میں وزن ہو گا تو بات میں بھی وزن نظر آئے گا۔ اگر یہ خداداد صلاحیتوں کے مالک اگر پیسہ نہیں رکھتے تو اس میں ان کا کیاقصور ہے۔ عمران خان صاحب آپ تو اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ کس طرح سے مشقت اور جدوجہد سے نکل کر بندہ آگے آتا ہے۔ کچھ نوجوان ایسے بھی دیکھے۔ ساری رات مزدوری کرتے اور طلوع آفتاب ہی سے حصول تعلیم میں مشغول ہو جاتے۔ خان صاحب بھوک کی تلوار کے سائے میں یہ صلاحیتیں ماند پڑ جانے کا اندیشہ ہے۔ آج اگر ان کو کوئی پلیٹ فارم مل جائے تویہ اپنی موسیقی سے دہشت گردی اور دوسری برائیوں کو باہر کا دروازہ دکھا سکتے ہیں۔
اس کاادائے شکر ہو کس طرح سے انیس
جس نے اٹھا کے خاک سے انسان بنا دیا
آخر کب تک ان آرٹس کونسلوں کی دہلیز پر ان صلاحیتوں کی نمائش لگے گی آرٹس کونسلوں والے صرف اپنی کرسی کا بھرم رکھنے کیلئے تھوڑی بہت سرگرمیاں کروا دیتے ہیں لیکن جب تک ریاستی کاوشیں حرکت نہیں پکڑتیں یہ صلاحیتیں اسی طرح بھٹکتی نظر آئیں گی۔ مجھے یہ بات بہت افسوس سے کہنی پڑتی ہے کہ جو محنت کر کے وطن کی نمائندگی کرے امجد صابری قوال کی طرح موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے لیکن سلام ایسی ہستیوں کو جنہوں نے بیرون ملک جاکر ارض پاک کا امن کا پیغام پہنچایا۔ کاش ایسا ہو کہ سکول دور سے ہی بچوں کو بتایا جائے کہ وہ کیا کر سکتے ہیں کیونکہ ہر طالب علم نہیں جانتا کہ اس کے اندر کونسی صلاحیتیں پوشیدہ ہیں وہ اقبال کی خود سے دنیا بدل سکتا ہے۔ یہ استاد ہی کی ہستی ہوتی ہے جو شاگرد کے دل کے شیشے میں جھانک کر اسے خوابوں کا نقشہ سمجھاتی ہے۔ آپ قدم بڑھائیں عمران خان صاحب آپ کو ان خداداد لوگوں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ یہ مت بھولیے گا آپ کو وزیراعظم بنانے میں نوجوانوں نے ایک ستون کا کردار ادا کیا۔ اپنے نوجوان بھائیوں سے بھی امید رکھتا ہوںکہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ارض پاک کی نمائندگی کریں گے۔
اس مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں جو کہ واجب بھی نہ تھے