پاکستان کی سیاسی تاریخ کے تناظر میں سیاسی جمہوری نظام کا جائزہ انتہائی ضروری ہے تاکہ ریاست کو سٹیٹس کو یعنی جمود سے نکال کر اسے فعال اور متحرک بنایا جاسکے۔ قیام پاکستان کے بعد انڈین ایکٹ 1935ء میں ترامیم کر کے اسے عبوری آئین کے طور پر تسلیم کر لیا گیا جو پارلیمانی تھا۔ وزیراعظم اور کابینہ بااختیار تھے۔ قائداعظم چونکہ پاکستان کے بانی، فادر آف نیشن اور پہلے گورنرجنرل پاکستان تھے لہٰذا کابینہ نے اپنے اختیارات ان کو تفویض کر دئیے۔ گویا عملی طور پر ریاست کے نظم و نسق کو وزیر اعظم کے بجائے گورنر جنرل نے چلایا۔ انڈین تھریٹ کے پیش نظر پاکستان کی آزادی اور سلامتی کیلئے آئین سے عارضی انحراف ضروری تھا۔ قائداعظم نے 10 جولائی 1947ء کو اپنے ہاتھ سے نوٹ تحریر کیا جس میں صدارتی نظام کو پاکستان کیلئے موزوں قرار دیا وہ چونکہ ڈیموکریٹ تھے لہٰذا ان کی خواہش تھی کہ پاکستان کا آئین دستور ساز اسمبلی تیار کرے۔ 1947ء سے 1956ء تک ریاست پر پارلیمانی عبوری آئین نافذ رہا۔ ابتدائی دس سال سیاسی افراتفری اور محلاتی سازشوں پر مشتمل تھے اس دوران سات وزیراعظم تبدیل ہوئے اور بھارت کے وزیر اعظم نہرو نے کہا میں اتنے پاجامے نہیں بدلتا جتنی پاکستان میں حکومتیں بدلتی ہیں۔ پاکستان کا پہلا آئین 1956ء پارلیمانی تھا جو صرف دو سال چل سکا۔ 1958ء میں سکندر مرزا نے آرمی چیف جنرل ایوب خان کی آشیرباد سے ملک پر مارشل لاء مسلط کر دیا۔
طاقت و رسول اور عسکری بیوروکریسی نے جاگیر داروں اور تاجروں سے ملی بھگت کر کے ریاست کو جمہوری پٹڑی سے ہٹا دیا۔ جنرل ایوب خان 1962ء تک ریاست کو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے چلاتے رہے۔ 1962ء میں انہوں نے صدارتی آئین نافذ کیا جو 1968ء تک چلتا رہا۔ جنرل ایوب کے دس سالہ صدارتی دور میں بائیس خاندان ملکی دولت پر قابض ہو گئے۔ احساس محرومی پیدا ہوا جو سقوط ڈھاکہ کا سبب بنا۔ البتہ ملکی ترقی و خوشحالی (تربیلا، منگلا گڈ گورننس، فعال ریاستی ادارے) کے حوالے سے یہ پاکستان کا بہترین دور تھا۔ ایوبی معاشی ماڈل سے دنیا کے کئی ممالک نے فائدہ اُٹھایا۔ جنرل یحییٰ کا دور تاریخ کا المیہ ہے۔ ذوالفقارعلی بھٹو دسمبر 1971ء میں پاکستان کے صدر بنے۔ انہوں نے 21 اپریل 1972ء کو عبوری صدارتی آئین نافذ کیا۔ وہ صدارتی نظام کے حق میں تھے۔ اپوزیشن نے سخت اختلاف کیا۔ وفاقی وزیر قانون میاں محمود علی قصوری بطور احتجاج مستعفی ہو گئے چنانچہ 1973ء کا متفقہ پارلیمانی آئین نافذ ہوا مگر پارلیمانی آئین اپنے خالق کو نہ بچا سکا۔ جنرل ضیاء الحق کا دور صدارتی نہیں بلکہ آمرانہ تھا جو پاکستان کی بربادی کا دور ثابت ہوا۔ 1988ء سے 1999ء تک (بے نظیر بھٹو، میاں نواز شریف) کا پارلیمانی دور عمومی طور پر محاذ آرائی، بلیک میلنگ، ہارس ٹریڈنگ ، کرپشن، بدانتظامی اور معاشی بدحالی کا دور تھا جس میں خفیہ ایجنسیوں کا کردار انتہائی افسوسناک رہا۔ اگر پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) آپس میں محاذ آرائی نہ کرتے اور پارلیمانی جمہوری روایات کا احترام کرتے تو آمر جنرل پرویز مشرف کو اقتدار پر قبضے کی جرأت نہ ہوتی۔ جنرل پرویز مشرف کا دور صدارتی تھا انکے پہلے دو سال مثالی تھے۔ 2002 ء میں پارلیمانی انتخابات کے بعدان کو اپنی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کو حکومت بنانے کیلئے پی پی پی کے بارہ اراکین قومی اسمبلی توڑنے پڑے۔ معاشی ترقی ، سرمایہ کاری اور روزگار کے حوالے سے جنرل مشرف کا دور بہتر رہا۔
2008ء سے 2018ء تک پارلیمانی جمہوری دور (آصف زرداری، میاں نواز شریف) کی یادیں ہمارے لیے تازہ ہیں۔ میگا کرپشن سکینڈل، بیڈ گورننس ، لاقانونیت، بیرونی قرضے، غربت، جعلی ڈگریاں ، دوہری شہریت ،بیروزگاری اس دور کی تلخ یادیں ہیں۔ پارلیمانی ایگزیکٹو نے جمہوری اصولوںکے بجائے بادشاہت کے طرز پر ریاست کو چلایا۔ آئین میں ترمیم کر کے آرٹیکل 63/A کے تحت منتخب اراکین پارلیمنٹ سے ووٹ کا حق چھین لیا گیا اور پارٹی لیڈرآمر بن گئے۔ پارلیمانی جمہوریت میں سادہ اکثریت ریاست کی مالک بن جاتی ہے۔ پارلیمانی جمہوریت میں انتخابات ہیں مگر نمائندگی نہیں ہے۔ 2 فیصد لوگ 98 فیصد پر حکومت کرتے ہیں۔ منتخب نمائندے استعداد، اہلیت اور مہارت سے عاری ہوتے ہیں اور وزیراعظم کو بلیک میل کر کے اربوں روپے کا ترقیاتی فنڈ حاصل کر لیتے ہیں جو ان کا آئینی استحقاق ہی نہیں ہے پارلیمانی نظام کی بنیادی خامی یہ ہے کہ وزیراعظم اراکین اسمبلی کوکابینہ میں شامل کرنے کا پابند ہوتا ہے چاہے وہ میرٹ پر پورے نہ اُترتے ہوں۔ وزیراعظم کو اپنا اقتدار بچانے کیلئے کابینہ کا سائز بھی بڑا رکھنا پڑتاہے۔ تاریخ اور عوام گواہ ہیں کہ پارلیمانی نظام ناکام ہو چکا ہے۔ اور ’’سٹیٹس کو‘‘ کا قائم رکھنے کا مضبوط ہتھیار بن چکا ہے۔ مفکر اسلام علامہ اقبال نے درست کہا تھا کہ ’’ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں‘‘ جمود سے سماج برباد ہوتے ہیں جبکہ تبدیلی سے پروان چڑھتے ہیں۔ پاکستان کے معروضی حالات کا تقاضہ ہے کہ سیاسی جمہوری نظام میں مثبت تبدیلیاں لائی جائیں۔
صدارتی نظام دنیاکے کئی ممالک میں کامیابی سے چل رہا ہے جو اسلام کی روح اور عوام کے مزاج کے قریب ہے۔ ترکی ماڈل کی طرح پاکستان کو بھی آئینی ریفرنڈم کے ذریعے سیاسی جمہوری انتخابی نظام میں تبدیلیاں لانی چاہئیں تاکہ ریاست پاکستان قومی چیلنجوںکا مقابلہ کر سکے۔ اٹھارہویں آئینی ترامیم کے بعد صوبے خودمختار ہیں لہٰذا اب صدارتی نظام کیلئے حالات سازگارہو چکے ہیں۔ کسی بھی سیاسی نظام کو چلانے کیلئے ریاست کے عوام کا کردار بڑا اہم ہوتاہے۔ عوام تعلیم یافتہ ، باشعور اور باکردار ہوں تو حکومتی نظام خوش اسلوبی سے چلتا ہے لہٰذا ہنگامی بنیادوں پر نئی نسل کی تعلیم و تربیت پرتوجہ دی جانی چاہئے۔
بیس کروڑ عوام کے مفاد میں تجویز ہے کہ صدر کا براہ راست انتخاب کیا جائے اسے کابینہ سازی کا اختیاردیا جائے۔ وزیر کیلئے وزارت کے تقاضوں کے مطابق اہلیت اور معیار مقرر کیا جائے۔ صدر پارلیمنٹ کوجواب دہ ہو جومتناسب نمائندگی کے اصول پر منتخب کی جائے۔ صوبوں کی تعداد میں انتظامی بنیادوں پر اضافہ کیا جائے۔ صوبوں کے گورنر بھی براہ راست منتخب کئے جائیں۔ ضلعی حکومتوں کو زیادہ سے زیادہ بااختیار بنایا جائے تاکہ عوامی شرکت سے جمہوری نظام مضبوط اور مستحکم ہو سکے اور عام آدمی کے مسائل مقامی سطح پر حل کئے جا سکیں۔جو نظام ہم کئی بار آزما چکے ہیں اسے باربار آزمانا عقل مندی نہیں ہے۔ اراکین پارلیمنٹ کا کام قانون سازی ہونا چاہئے۔ صدارتی نظام کے نفاذ کے بعد جب انکے اختیارات محدود ہو جائینگے ا وران کوترقیاتی فنڈ نہیں ملیں گے تو سیاست کرپٹ عناصرسے پاک ہو جائیگی۔ ایک برطانوی پارلیمنٹیرین نے پارلیمانی جمہوریت کو ’’منتخب آمریت‘‘ قرار دیا ہے جس میں اقلیت اکثریت پر حکمرانی کرتی ہے۔ تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں ایک جمہوری نظام (پارلیمانی) سے دوسرے جمہوری نظام (صدارتی) کی جانب سفر تبدیلی ، ارتقاء اور پرامن انقلاب ہے زندہ قومیں آئین نوسے خوف زدہ نہیں ہوا کرتیں۔ جمہوری نظام عوامی اور شراکتی بن کرمستحکم ہو جائے گا تو اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت بھی ختم ہو جائے گی کیونکہ کوئی بھی مقتدر ریاستی ادارہ مٹھی بھر اشرافیہ کو تو ناراض کر سکتا ہے مگر عوام کی ناراضگی کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔ جو دوست فوجی آمریتوں سے صدارتی نظام کوجوڑ کر خدشات کا اظہارکرتے ہیں ان سے التماس ہے کہ صدارتی نظام مکمل جمہوری نظام ہے جس میں چیک اور بیلنس موجود ہوتا ہے۔ منتخب صدر نہ اتنا بااختیار ہوتا ہے کہ آمر مطلق بن جائے اور نہ ہی اتنا کمزور ہوتاہے کہ بلیک میل ہونے لگے۔ کسی بھی ایشو پر اختلاف دلیل اور شواہد کی بنیاد پر ہونا چاہئے۔ زمینی حقائق، معروضی حالات اور عوامی مزاج کے منافی نظام کامیابی سے نہیں چل سکتا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024