دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے پریس بریفنگ میں مقبوضہ کشمیر میں بے گناہ کشمیریوں پر بھارتی فورسز کے وحشیانہ مظالم سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ ترجمان نے نئی دہلی پر زور دیا کہ وہ بانڈی پورہ میں بھارتی فورسز کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی آزادانہ تحقیقات کرے۔ ترجمان نے ایک بار پھر واضح کیا کہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، کشمیر میں استصواب رائے کے حوالے سے بھارت اپنے وعدوں پر عمل درآمد کو تیار نہیں تو پاکستان اس کا ذمے دار نہیں، موجودہ حکومت نے بھی بھارت کو تمام تصفیہ طلب معاملات پر مذاکرات کی پیشکش کی تھی لیکن پہلے بھارت نے ہامی بھر لی اور پھر بات چیت سے بھاگ گیا۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں سنگین جرائم میں ملوث ہے ، قابض بھارتی فوج مقبوضہ وادی میں ظلم کی نئی تاریخ رقم کررہی ہے ، اقوام متحدہ بھارتی فوج کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی تحقیقات کرائے۔جہاں تک بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی جرائم کا تعلق ہے تو آج سے نہیں بلکہ مقبوضہ وادی میں سنگین نوعیت کے انسانی جرائم کا سلسلہ تو آزادی کے وقت سے ہی جاری ہے، 1948ء میں بھارت نے یہ دیکھتے ہوئے کہ پاکستان کے پاس نہ تو باقاعدہ فوج ہے اور نہ ہی لڑنے کے لئے وافر مقدار میں اسلحہ و گولہ بارود، لہذا پاکستان کی دفاعی لحاظ سے کمزور پوزیشن کو دیکھتے ہوئے اس نے ریاست کشمیر پر لشکر کشی کردی اور اس کی فوجیں انسانی قبرستان تعمیر کرتی پوری وادی پر قابض ہونے کے قریب تھیں کہ ہمارے سرحدی علاقے میں آباد قبائلی اپنا ذاتی اسلحہ لے کر بھارتی فوج سے ٹکرا گئے اور ایسے تابڑ توڑ حملے کئے کہ بھارتی فوج پسپائی پر مجبور ہوگئی، اور جب بھارت سرکار کو یہ خوف ہوا کہ اب کہیں پورا کشمیر ہی ان کی دسترس سے نہ نکل جائے تو اس وقت کے بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو اقوام متحدہ میں چلے گئے جہاں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے وہ قرارداد منظور کی جس پر عمل درآمد کا آج بھی کشمیری عوام اور پاکستان کی جانب سے مطالبہ کیا جاتا ہے، لیکن بھارت نہ تو اقوام متحدہ کی قرارداد پر عمل درآمد پر مائل ہوتا ہے اور نہ ہی کشمیری عوام پر غیر انسانی ظالمانہ بلکہ دہشت گردانہ مظالم کا سلسلہ روکنے پر آمادہ ہے، بھارتی فوج نے یہ وطیرہ بنا رکھا ہے کہ ہر روز پانچ سات کشمیری جوانوں کو شہید کردیتے ہیں اس طرح ایک طرف وہ مقبوضہ وادی میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی سازش میں ملوث ہیںاور دوسری جانب کشمیری عوام میں نوجوانوں کی تعداد میں کمی کررہے ہیں تاکہ ان کی فوجوں کے غیرانسانی مظالم پر کشمیر میں ان کے خلاف جوابی کارروائی کرنے والاطبقہ ہی عنقا ہوجائے، اس سازش کو پروان چڑھانے کے لئے اب بھارتی فوجیں عوام اور بالخصوص نوجوان طبقے پر وحشیانہ انداز میں غیر انسانی ظلم و بربریت میں مصروف ہیں، اگر اب بھی اقوام متحدہ اور عالمی برادری نے اس پر نوٹس نہ لیا اور کشمیری عوام نے یہ محسوس کر لیا کہ عالمی برادری میں سے کوئی ان کے ساتھ نہیں اور جو بھی کرنا ہے انہیں خود ہی کرنا ہے اور یہ سوچتے ہوئے انہوں نے بھارتی فوج کے خلاف جنگِ آزادی شروع کردی تو درحقیقت یہ جنگ ہوگی تو کشمیری عوام کی جانب سے لیکن بھارت سرکار جو عالمی سطح پر جھوٹے پراپیگنڈے کی ماہر ہے، اس نے کشمیری عوام کی جنگِ آزادی کا الزام پاکستان پر منڈھ دینا ہے، لہذا عالمی برادری نوٹس لے اور جان لے کہ مستقبل میں کشمیری عوام کی جانب سے جو بھی جوابی کارروائی ہوگی، وہ خواہ کیسی بھی ہو، کشمیری عوام کی جانب سے ہوگی اس میں پاکستان کی حمایت ضرور شامل ہوگی لیکن کسی قسم کا عمل دخل نہیں ہوگا۔
ایک طرف مقبوضہ وادی میں بھارت نے ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے‘ دوسری طرف روہنگیا مسلمان سفاکیت سے دوچار ہیں۔ ادھر چین میں بھی مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ ہے۔ چین میں ایغور مسلمانوں پر ظلم و ستم امت مسلمہ کے لیے حسا س موضوع بن چکاہے۔ اس بارے میں پہلے بھی خبریں آتی رہی ہیںمگر چین تردید کرتا رہا ہے تاہم اب جس تواتر سے اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ سنکیانگ میں ذہنی تربیت اورملک سے وفاداری کے نام پرمسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ابتدا میں بیجنگ حکومت نے صوبے کی مساجد پر قبضہ کرکے وہاں قومی دن کے عنوان سے پروگرام منعقد کرائے اور بڑے بڑے بینر آویزاں کرکے اسلامی تشخص کا حلیہ بگاڑنے کی کوشش کی اور اب پورے پورے خاندانوں کو غائب کرکے عقوبت خانوں کو بھرا جارہا ہے۔
اقوام متحدہ اور ہیومن رائٹس واچ کے مطابق سنکیانگ میں 10 لاکھ مسلمان محبوس ہیں۔ ٹارچر سیلوں میں جلادوں کے پاس لکڑی کے موٹے ڈنڈے اور چمڑے کے بید ہیں۔ علاوہ ازیں جسم میں سوئیاں چبھوکر اور ناخن کھینچ کر لوگوں کو اذیت دی جاتی ہے۔ چینی حکام کا موقف ہے کہ وہ اپنے ملک میں داعش کو روکنے اور اس کے ممکنہ حملوں سے بچاؤ کے لیے اقدامات کررہے ہیں۔ شام، عراق، افغانستان میں داعش نے اپنے قدم جمالیے ہیں اور فرانس، جرمنی، ہالینڈ اور دیگر یورپی ممالک کونشانہ بناتے رہتے ہیں۔ چین نے اب تک داعش کی موجودگی کا کوئی ثبوت پیش کیا ہے نہ اس کا موقف اتنا ٹھوس ہے کہ قابل اعتنا سمجھا جائے۔
دنیا بھر میں داعش کی سفاکانہ کارروائیوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن کیا دہشت گرد تنظیم کے انسداد کے لیے پہلا اور آخری اقدام مسلمانوں کی نسل کشی ہی ہے؟ اقوام متحدہ کے مطابق ایغور مسلمانوں کے ڈی این اے اور بائیومیٹرک نمونے حاصل کرکے بیرون ملک بسنے والے رشتے داروں کو بھی حراست میں لیا جارہا ہے۔ جاسوسی کا نظام اس قدر فعال کردیا گیا ہے کہ واٹس ایپ اور سماجی ذرائع ابلاغ کو ٹریس کرکے انڈونیشیا، قازقستان، ترکی اور دیگر ممالک سے متعلقین کو گرفتار کیا جارہا ہے۔ گو کہ بیجنگ نے اسے صرف ذہنی تربیت کا نام دیا ہے لیکن اقوام متحدہ کا اصرار ہے کہ پورے سنکیانگ صوبے کو دنیا سے کاٹ کر زبردستی مذہب چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔
چین کی ذمے داری ہے کہ اگر وہ اپنی بات میں سچاہے تو باقاعدہ عالمی میڈیا اور اقوام متحدہ کے مبصرین کو بلا کر ذہنی تربیت کے پروگرام سے مستفید ہونے کا موقع دے۔ جب کہ حال یہ ہے کہ آزادی اظہار رائے پر قدغنیں عائد کرکے عملی طور پردنیا کو وہاں کے حالات تک رسائی سے روکا جارہا ہے۔ سنکیانگ چین کے مغرب میں سب سے بڑا صوبہ ہے۔ تبت کی طرح یہ بھی ایک نام نہاد خودمختار علاقہ ہے اور بیجنگ کی جانب سے اس پر کڑی پابندیاں عائد ہیں۔ وہاں ایک کروڑ 10لاکھ ایغور مسلمان بستے ہیں، جو اپنی اصل میں ترکی النسل ہیں۔ ثقافتی طور پر وہ ایشیائی ممالک سے قریب ہیں اور ان کی زبان بھی ترکی سے قدرے مماثل ہے۔ سنکیانگ کی سرحدیں بھارت، افغانستان، پاکستان اور منگولیا سے ملتی ہیں۔ ہمارا المیہ ہے کہ مسلمان بھائیوں کی مدد تو درکنار ان کے احوال کی خبریں بھی غیروں سے ملتی ہیں۔ سعودی عرب اور یمن میں برسرپیکار عرب اتحاد کو فرقہ واریت کے رنگ میں دہشت گردی نظر آجاتی ہے۔ سنکیانگ کے معاملے پر کون سا اختلاف ہے کہ لب کشائی کی ہمت نہیں ہوتی۔ امریکا چین کے ساتھ تجارتی جنگ میں 60 ارب سے لے کر 200ارب ڈالر تک کے اضافی ٹیکس عائد کرکے ناک اونچی رکھنے میں مصروف ہے۔ اقوام متحدہ کی باربار مداخلت کے باوجود اس کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ فرانس، جرمنی اور دیگر یورپی ممالک اپنے ہاں تجارتی سرگرمیوں میں چین کی مداخلت کے خلاف بڑھ چڑھ کر بولتے ہیں۔ اس کے باوجود 10 لاکھ انسانوں کو خطرے میں دیکھ کر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ مسلم دنیا میں ترکی ہی ایسا ملک ہے جو فلسطین اور شام کے مظلوم مسلمانوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتا ہے۔ لیکن اس کی جانب سے بھی سنکیانگ کے ترک بھائیوں کے معاملے میں اب تک تشویش کا اظہار تک نہیں کیا گیا۔ عالمی برادری کایہی حال رہا تو خدانخواستہ میانمر کے روہنگیا مسلمانوں کی تاریخ کہیں سنکیانگ کے ایغور مسلمانوں کے ساتھ نہ دہرادی جائے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024