تحریک انصاف نے اپنی انتخابی مہم میں 100روز کا ایجنڈہ دیا تھا اور عوام کے ذہنوں میں یہ نقش کردیا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت آتے ہیں تین ماہ کے اندر ملک میں دودھ و شہد کی نہریں بہنا شروع ہوجائیں گی اور بہت زیادہ توقعات پیدا کرکے عوام سے ووٹ لئے گئے اور عام آدمی نے تحریک انصاف کو منتخب کرنے کے بعد تین ماہ میں ہی بہت بڑی تبدیلی کی آس لگالی لیکن معاشی صورتحال کے باعث نظام مملکت کو آئی ایم ایف کے نئے قرضے کے بغیر چلانا ممکن نہ تھا اور اگر اس بات کا بروقت احساس کرکے نئی حکومت قائم ہوتے ہی آئی ایم ایف سے رجوع کرلیا جاتا تو معیشت کی اس قدر بری حالت نہ ہوتی لیکن حکومت نے اس کے متعلق سوچنے میں ہی مہینے لگادیئے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ معاشی صورتحال خراب ترہوتی چلی گئی اور جب حکومت نے آئی ایم ایف جانے کا فیصلہ کیا تو اس وقت تک معاشی پہیہ مکمل طور پر جام ہوچکا ہے اور ڈالر کی قیمت میں اضافہ‘ اسٹاک مارکیٹ میں بدترین مندی کی صورتحال ہے۔
اس مشکل معاشی صورتحال کی ذمہ دار موجودہ حکومت نہیں ہے اور وزیراعظم عمران خان قوم سے چھ ماہ کا وقت مانگ کر نمایاں بہتری کی امید دلارہے ہیں لیکن میرے خیال میں موجودہ حکومت کو کم از کم ایک سال ملنا چاہئے تاکہ وہ معیشت کی بہتری کے لئے سال بھر ایسے اقدامات کریںکہ ملک کو ممکن حد تک قرضوں کی ضرورت نہ رہے۔ حکمراں جماعت کی لیڈرشپ کی جذباتی تقاریر اور سہانے خوابوں کی وجہ سے عام آدمی تو فوری تبدیلی کا طلبگار ہے او روزیراعظم کے چھ ماہ کے انتظار پر اعتبار نہیں کررہا حالانکہ قوم کو ایک سال خاموشی سے نئی حکومت کو کام کرنے دینا چاہئے اور وزیراعظم کو بھی انتخابی مہم کے 100 دن کے پروگرام کے ان کی پارٹی ساکھ پر منفی اثرات دیکھتے ہوئے قوم سے چھ ماہ کا وقت نہیں مانگنا چاہئے بلکہ طویل مدتی اور حقائق پر مبنی وقت لیکر نتائج کا وعدہ کیا جائے تو بہتر ہوگا۔
نئی حکومت نے مجبوری میں گیس کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ کیا کیونکہ یہ معاشی معاملات چلانے کے لئے ضروری تھا اور حکومت نے اس بات کی پرواہ نہیں کی کہ اس فیصلے کے ضمنی انتخابات میں کیا منفی یا مثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔ اگر حکومت گیس کی قیمتیں بڑھانے کا فیصلہ ضمنی انتخابات کے انعقاد تک موخر کرتی تو اس کے ضمنی انتخابات میں نتائج پر یقینی طور پر اثرات ہوتے کیونکہ گیس کی قیمتوں میں اضافے کے بعد مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے اور عام آدمی کے روز مرہ اخراجات میں اضافے سے عوام کی توقعات پر زدپڑی ہے اور وہ نئی حکومت اور حکومتی جماعت سے متنفرہورہی ہے ۔ مشکل معاشی فیصلوں اور کچھ معاشی معاملات میں غیرضروری تاخیر اور انتخابی مہم و اس سے قبل بلاوجہ کے بلندبانگ دعوؤں کی عدم تکمیل کی وجہ سے تحریک انصاف کی مقبولیت حکومت میں آتے ہی کم ہوئی ہے ۔
تحریک انصاف اٹک اور لاہور کی جیتی ہوئی نشستیں ہار گئی۔ اٹک میں میجرطاہر صادق کو عام انتخابات میں ٹکٹ دیئے گئے اور انہوں نے بہترین انتخابی نتائج دیکر اٹک میں پارٹی کو مقبول ترین جماعت ثابت کیا لیکن مبینہ طور پر ضمنی انتخاب میں ٹکٹ جاری کرتے ہوئے میجر طاہر صادق کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور پارٹی نے براہ راست اپنی مرضی سے ٹکٹ جاری کیا جس وجہ سے میجر طاہرصادق کی مکمل حمایت شاید تحریک انصاف کے امیدوار کو حاصل نہیں تھی جس کی وجہ سے ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کو اٹک کی قومی اسمبلی کی نشست پر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
لاہور میں ن لیگ نے اپنے ادوار میں سب سے زیادہ ترقیاتی کام کئے اور میگاپروجیکٹس لگائے اسی لئے عام انتخابات میں بھی لاہور میں ن لیگ نے تحریک انصاف کو ٹف ٹائم دیا ۔ سعدرفیق نے اپنے حلقے میں کام کرائے تھے اسی لئے ان کی اپنے حلقے میں بہت مقبولیت بھی ہے اور دوسری طرف نئی حکومت کے مشکل معاشی فیصلے بھی عوام کا رجحان تبدیل کرنے کا سبب بنے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ وزیراعظم یا کابینہ کے کسی فرد نے انتخابات کے دوران نہ تو کسی حلقے میں جاکر جلسے کئے اور نہ ہی ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا گیا اور نہ ہی انتخابی عمل میں کسی قسم کی سرکاری مداخلت سامنے آئی۔ صرف آئی جی پنجاب کی تبدیلی کا فیصلہ ایسا اقدام تھا جسے انتخابی نتائج پر اثرانداز ہونے کی کوشش قرار دیا گیا اور الیکشن کمیشن نے آئی جی کی تبدیلی کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا۔
ہمایوں اختر ابھی تحریک انصاف میں شامل ہوئے اور انہیں ٹکٹ دے دیا گیا جس کی وجہ سے تحریک انصاف کے دیرینہ کارکنوں اور رہنماؤں کی حوصلہ شکنی ہوئی اور اس وجہ سے بھی تحریک انصاف کوبہت کم ووٹ ملے۔ میں پہلے بھی کئی بار تحریر کرچکا ہوں کہ ایک وقت تھا جب پیپلزپارٹی اقتدار میں تھی تو ملک کی دوسری بڑی جماعت تحریک استقلال تھی مگر ہماری قیادت سے بھی اسی طرح کے فیصلے ہوئے کہ نئے آنے والے لوگوں کو ’’الیکٹیبلز‘‘ قراردیکر دیرینہ کارکنوں کو نظرانداز کیا گیا اور پھر تاریخ شاہد ہے کہ تحریک استقلال گزرتے وقت کے ساتھ اپنی مقبولیت کھوتی چلی گئی کیونکہ دیرینہ اور قربانیاں دینے والے کارکن اور رہنما یہ سمجھ گئے کہ یہاں پارٹی عہدوں اور ٹکٹوں پر صرف دولت مند چند خاندانوں کا قبضہ ہوچکا ہے۔
اب یہی صورتحال تحریک انصاف کو بھی درپیش ہے کہ نئے آنیوالوں کو ٹکٹ دیئے جاتے ہیں جبکہ قابل نوجوانوں اور قربانیاں دینے والے کارکنوں کو یکسر نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ تحریک انصاف میں ویسے بھی گروپ بندی واضح ہے اور وزیراعظم عمران خان خوداقتدار میں آکر ملکی معاملات کی بہتری کے لئے دن رات کوشاں ہیں اور اس دوران انہوں نے پارٹی پر توجہ کم کردی ہے جس کی وجہ سے پارٹی منتشر ہوتی چلی جارہی ہے۔پنجاب میں ویسے بھی ن لیگ کی مقبولیت میں واضح اضافہ ہوا ہے ۔ ایک طرف بیگم کلثوم نواز کے انتقال کے بعد عوامی ہمدردی‘ میاں نوازشریف اور مریم نواز کی ضمانت پر رہائی سے کارکنوں میں ولولہ پیدا ہوا ہے تو دوسری طرف نیب کی جانب سے شہبازشریف کی گرفتاری پر بھی عوام میںمختلف آراء پائی جاتی ہیں ۔ ضمنی انتخابات کے نتائج پر تحریک انصاف کو غور کرکے خامیوں کو دور کرنا ہوگا خصوصاً دیرینہ کارکنوں کو نظراندازکرنے کا سلسلہ تو ہر صورت بند ہونا چاہئے تبھی پارٹی کی مقبولیت میں اضافہ ممکن ہے۔
کراچی کی نشست پر ایک بار پھر تحریک انصاف کی کامیابی ایم کیو ایم کی قیادت کے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہئے کیونکہ ضمنی انتخابات پر کسی پہلو سے دھاندلی کا الزام سامنے نہیں آیا اور مکمل شفاف انتخاب میں کراچی سے تحریک انصاف نشست جیتی ہے۔ ایم کیو ایم کراچی کی سب سے بڑی نمائندہ جماعت رہی ہے لیکن اندرونی اختلافات اور بعض غیر سیاسی سرگرمیوں کے الزامات کی وجہ سے عوام نے انہیں مسترد کیا ہے۔ کراچی میں ویسے بھی ٹرن آؤٹ بہت کم ہوگیا ہے اور عوام کو باہر لانے کی صلاحیت ایم کیو ایم کے پاس رہی ہے ۔ موجودہ صورتحال پر انہیں غور کرکے پارٹی کی مقبولیت میں اضافے کے لئے دن رات محنت کرنے کی ضرورت ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024