ایک زمانہ تھا جب جوائنٹ فیملی سسٹم کو ترجیح دی جاتی تھی گھر کا ہر فرد اک دوسرے سے جڑا ہوا ،ذمہ داریوں کو مل کر احسن طریقے سے نبھانے کی چاہ، بچے والدین کا سامنا کرنے سے کتراتے تھے۔ تو تکار کا تو سوال ہی پیدا نہ تھا۔ بزرگوں کا رعب و دبدبہ یوں ہوتا تھا کہ شادی شدہ بال بچے دار ماں باپ کے سامنے سرجھکائے کھڑے رہتے اور اولاد ان کی دادا دادی کی گود میں اپنے والدین کی معصومیت اور بے بسی پر ہنستی تھی ۔بچے ماں باپ کو دادا دادی کا نام لیکر بلیک میل کرتے تھے تو اک عجب سماں ہوتا تھا۔ بزرگوں کا کہنا پتھر کی لکیر بن جاتا کسی کی جرأت نہ تھی اسے ٹالنے کی جہاں رشتہ پکا کر دیتے وہاں انکار کا سوال تک پیدا نہ ہوتا ۔گھر میں جو پکتا سب مل بیٹھ کر کھاتے مجال ہے جو کوئی کیڑے یا نقص نکالے۔ بن پوچھے بچوں کی شادیاں طے کر دی جاتیں تو دونوں طرف حیاء و پردہ داری کی پابندیاں رخصتی تک برقرار رہتیں لڑکا لڑکی کاایک دوسرے کو آنکھ اٹھا کر دیکھنا تو کجا بات چیت تک پابندی ہوتی تھی اور اگر کبھی کبھار بھولے سے آمنا سامنا ہو جاتا تو دونوں شرم کے مارے سر جھکا کر گزر جاتے۔ شادی سے پہلے ملنا ملانا معیوب سمجھا جاتا ، بے حیائی کا تصور تک نہ تھا لڑکی رشتہ طے ہوتے ہی رخصتی تک چادر و چار دیواری کے اندر خود کو مقید کر لیتی ۔ماں باپ، بہن بھائیوں سے نظریں ملا کر بات تک نہ کر سکتی تھی۔ بہن بھائیوں کا سامنا کرنے سے کتراتی تھی اور یہی شرم و حیا ہی تو ہماری اصل تہذیب تھی جو مشرق کی خوبصورت پہچان ہوا کرتا تھا۔ بیٹی رخصت ہو کر نئے گھر میں قدم رکھتی تو مہندی کا رنگ اترنے تک اسے خانہ داری سے دور رکھا جاتا۔ مہندی کا رنگ اترنے کے بعد اگر کام کی ابتدا کروائی جاتی تو سب سے پہلے بہو کے ہاتھوں سے نیک شگن کے طور پر میٹھی ڈش پکوائی جاتی تاکہ ہر سو خوشیاں اور آرام رہے۔ نئی سہاگن گھر میں گھونگھٹ بنائے رکھتی تاکہ محلے کی شاطر عورتیں کوئی بے تکی بات نہ پھیلا دیں۔ ساس سسر بہو کے صدقے واری جاتے ، نندیں بھی اپنی بھاوج کیساتھ بڑے مودبانہ انداز میں پیش آتیں بلکہ نندیں تو بھاوج کو ماں کا درجہ دیتیں اور بھاوج بھی اس رشتے کا پورا مان سمان رکھتی۔ بدزبانی چرب زبانی کا تصور تک نہ تھا شکوہ شکایت کا موقع تک نہ دیا جاتا لیکن موجودہ معاشرے میں وہ سب قدریں خال خال ہی گھرانوں میں نظر آتی ہیں لڑکے اور لڑکی کے درمیان انڈر سٹینڈنگ کے نام پر جو مادر پدر آزاد دے رکھی ہے اس نے تو ہماری قابل فخر تہذیب کا بیڑہ غرق کردیا ہے پورا معاشرتی وقار ابتری کی جانب گامزن ہے چادر اور چار دیواری کی آزادی سے عورت کی ساکھ بری طرح پامال ہو رہی ہے وہ بیٹی جو گھر سے سہانے خواب لیکر رخصت ہوتی ہے اسے جدید ہتھیاروں سے لیس کرکے مجاذ پر بھیجا جاتا ہے گھر میں ساس اگر تمہیں اک بات کہے تم نے بغیر سانس لئے دس سنا دیتی ہیں خاوند کو جوتے کی نوک پر رکھنا ہے وہ ماں باپ بہن بھائیوں سے جتنا دور رہے گا تمہارا گھر پر کنٹرول رہے گا چھتر کو ہر وقت گیلا کرکے رکھنا گھر میں برابری کی سطح پر کام کرنا، تم کوئی ماسی بھرتی ہو کر نہیں جا رہی ہو ہر پل اپنے کان ساس نندوں کی باتوں پر کھلے رکھنا اگر تم وہاں پر جا کر دب گئی تو پھر ساری عمر ساس نندوں کی غلامی کرنا پڑے گی۔ مندرجہ بالا تمام لوازمات نے شریف اور ملنسار گھرانوں کو مات دے دی ہے۔ رخصتی کے وقت اسے یہ نہیں کہا جاتا بیٹی تم جس گھر میں جا رہی ہو اب وہی تمہارا اصل مقام ہے وہاں کا ہر فرد تمہارے لئے قابل احترام ہے وہاں سسرال میں ہماری عزت کا بھرم قائم رکھنا جو روکھی سوکھی ملے اس پر شاکر رہنا اپنے سگھڑ پن سے ساس اور نندوں کا دل جیت لینا اگر کبھی کوئی خلاف معمول بات ہو بھی جائے تو صبر اور برداشت سے کام لینا تمہارا خاوند تمہارا مجازی خدا ہے اس کی عزت و تکریم میں کمی مت آنے دینا جتنے رشتے تم اس گھر میں چھوڑ کر جا رہی ہو یہ سب تم نے وہاں جا کر بنانے ہیں تمہارا گھر تمہارے جانے سے جنت بن جائے! لیکن آج الٹی گنگا بہہ رہی ہے زمانے بھر کی تمام اُلٹی تدبیریں بیٹی کو پڑھائی جاتی ہیں دوسری طرف اگر کوئی نیک بخت شریف ملنسار یا پڑی لکھی سسرال میں آتی ہے تو بعض الٹی قسم کی ساسیں اس پر اپنا بلاوجہ دبائو ڈالتی رہتی ہیں۔نندیں بھی اپنے حصے کے مطابق بھاوج کو پوری طرح زچ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں اسکے ہر کام میں کیڑے نکالے جاتے ہیں جہیز سامان زیورات کا طعنہ دیا جاتا ہے محلے کی شاطر عورتیں اکٹھی ہو کر ساس کو نئی نئی پٹیاں پڑھاتی ہیں کہ بہو کو قابو میں رکھنا ورنہ گھر سے چوراہے پر آجائو گی بیٹے کی باگیں کھینچ کر رکھنا ورنہ ہاتھ سے نکل جائے گا اگر وہ رن مرید بن گیا تو تم سب کی خیر نہیں بہو سارے گھر کو نچائے گی اور ساس بھی باتوں میں آ کر اپنے عہدے کا پورا استعمال کرتی ہے بہو پر مارشل لاء لگا دیا جاتا ہے اس کے کھانے پینے بولنے چالنے پہننے تک پر نظر رکھی جاتی ہے۔ بات بات پر بہو کو کانٹ پھانٹ کیا جاتا ہے بعض اوقات تو اسے بچا کھچا کھانا دیا جاتا ہے اس پر ہر ظلم حق سمجھ کر کیا جاتا ہے ساس یہ نہیں سوچتی کہ کل کلاں انکی بیٹیاں بھی کسی گھر کی بہو بنیں گی تو ان کیساتھ بھی یہ سلوک ہو سکتا ہے اپنی بیٹی کے لئے تو سب خیر کی امید رکھتے ہیں لیکن بہو کے معاملے میں یکسر نظریں پھیر لیتے ہیں۔ اگر بغور دیکھا جائے تو دونوں طرف سے لشکر خوب تیاری کرکے میدان میں اترتا ہے اور ایسے میں اک گھر شادی کے نام پر پراکسی وار کا حصہ بنا دیا جاتا ہے دونوں طرف سے فریقین اپنے اپنے موقف پر اپنے اتحادی کے ساتھ ہمہ وقت جنگ کے لئے تیار رہتے ہیں لڑکا اپنے گھروالوں کی طرف سے پریشان ہوتا ہے اور لڑکی نئے گھر میں آ کر نئی زندگی کی شروعات کو محاذ جنگ کی صورت میں شروع کرتی ہے اگر یہی رواج یونہی پروان چڑھتا رہا تو ہمارا مشرقی تہذیبی خاندانی ورثہ جو پہلے ہی انحطاط کا شکار ہے اس کا مزید جنازہ نکالنے میں ہم سب برابر کے ذمہ دار ہوں گے آج ہمیں ہر طرف سے بیرونی اندرونی شورش کا اندیشہ ہے جس کو ہم بہتر حکمت عملی سے مات دے سکتے ہیں ۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024