عام زندگی میں کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ بندہ بینک میں چیک کیش کرانے اس وقت چلا جاتا ہے‘ جب وقفہ ہوتا ہے۔ اس وقت بندے کو اچانک جھٹکا بھی لگتا ہے اور ذہنی کوفت بھی ہوتی ہے۔ اس عمل میں بندے کا اپنا قصور تھا کہ اس نے بنک میں ہونے والے وقفے کو ذہن سے نکال دیا۔ ذہنی کوفت کی ایک اور صورتحال اس وقت جنم لیتی ہے‘ جب بندے کو کسی محکمے میں اپنے کاغذات جمع کرانے ہوں۔ تاریخ بھی آخری ہو اور دفتر کی کھڑکی کے سامنے ایک لمبی قطار لگی ہو اور وہ لوگوں کی آمد سے مزید لمبی ہوتی چلی جا رہی ہو۔ بندہ اس قطار میں کھڑا ہو کر اس کا حصہ بن جاتا ہے۔ قطار جوں کی رفتار سے سرک رہی ہوتی ہے اور بندے کو ذہنی کوفت محسوس ہو رہی ہوتی ہے۔ اس بندے کی ذہنی کوفت کی شدت کا اندازہ کیجئے۔ جب وہ کھڑکی کے پاس پہنچے اور کھڑکی بند ہو جائے۔ کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ بندہ گھریلو ضرورت کی کوئی چیز کسی خاص دکان یا سٹور سے گھر سے کافی دور لینے چلا جاتا ہے لیکن اس دکان یا سٹور کے شٹر پر ایک اعلان لکھا نظر آتا ہے۔ ”شیخ صاحب کے سسر صاحب قضائے الٰہی سے انتقال فرما گئے ہیں لہٰذا دکان بند رہے گی۔“ یہاں دو کوفتیں محسوس ہوں گی۔ ایک مطلوبہ شے نہ ملنے کی اور دوسری موت کی خبر کی۔ زندگی کی ان کوفتوں کو شمار کیا جائے تو اچھی خاصی کوفت سیریز بن جاتی ہے۔ مثال کے طور پر عید کی چھٹیوں کے سلسلے میں آپ اپنے آبائی گھر جانے کے لئے بس اڈے پر پہنچتے ہیں۔ وہاں سب بسیں بھری نظر آتی ہیں۔ کسی کنڈکٹر کی نظر التفات آپ پر نہیں پڑتی۔ آپ ویگن اڈے پر جاتے ہیں وہاں بھی روز محشر کا سا سماں ہے۔ پھر آپ ریلوے سٹیشن کا رخ کرتے ہیں۔ یہاں بھی کوئی گاڑی موجود نہیں۔ ہمارے عام آدمی کی زندگی پر غور کریں تو اس کے لئے سال کے تین سو پینسٹھ دن اذیتوں اور کوفتوں میں گزرتے ہیں۔ اس کی تنخواہ اتنی قلیل ہوتی ہے کہ اس چادر کی طرح کہ اگر وہ سر ڈھانپے تو پا¶ں ننگے اور پا¶ں ڈھانپے تو سر ننگا۔ یہ عام آدمی اپنے بچوں کو سکول کی بجائے چھوٹی موٹی مزدوری پر بھیجتا ہے۔ اگر اس کے بچے کسی طرح سکول میں داخل ہو جائیں تو وہ مجبوراً انہیں سکول سے اٹھا لیتا ہے۔ اس غریب کا چہرہ دیکھیں تو اس پر غم‘ فکر‘ اندوہ یا گہری سوچوں کی لکیریں ہوتی ہیں‘ جو اس کی ذہنی کوفت کی غمازی کر رہی ہوتی ہیں۔ اس عام اور غریب آدمی نے پیٹ کی خاطر کسی نہ کسی کام پر بھی جانا ہوتا ہے۔ اسے پتا چلتا ہے کہ وہ جس سڑک پر جا رہا ہے‘ وہاں تو کوئی سیاسی پارٹی جلسہ کر رہی ہے۔ وہ سڑک تو بند ہے پھر وہ متبادل راستے تلاش کرتا ہے۔ وہ بھی بند نظر آتے ہیں۔ وہ صرف راستہ تلاش کرنے کے لئے ادھر ادھر بھٹکتا نظر آتا ہے۔ اس وقت وہ بھول جاتا ہے کہ اس کے گھر میں آٹا نہیں‘ اس کے بچے سکول نہیں جاتے۔ اس نے پچھلے مہینے قرض لے کر بجلی کا بل دیا تھا۔ اسے صرف اپنے کام پر جانے کے لئے راستہ چاہئے۔ ہمارے ہاں تو راستہ بند کرنے کی روایت نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ چلی آرہی ہے۔ سیاست میں تو دوسروں کا راستہ اور ناطقہ ہی بند کیا جاتا ہے لیکن ہم مذہبی معاملات میں بھی راہ گیروں کا راستہ بند کرنے ہی کو کار ثواب سمجھتے ہیں۔ راستے پر زندوں کا بھی حق ہوتا ہے‘ مردوں کا بھی حق ہوتا ہے‘ مریضوں کا بھی حق ہوتا ہے طلبہ کا بھی حق ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں ایک طوفان مچا ہوا ہے۔ ہر پارٹی اپنے اپنے انداز میں عوام الناس کے راستے بند کرکے شادیانے اور بغلیں بجا رہی ہے۔ عوام کے لئے کارکردگی صفر + صفر = صفر اور نعرے اور دعوے فلک شگاف عمران خان صاحب نے اسلام آباد بند کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ خان صاحب کے ایک قریبی شخص نے کتنی خوب بات کہی ہے کہ خان صاحب جب ٹکا کے ورزش کر لیتے ہیں تو ہم لوگوں کی شامت آجاتی ہے۔ شامت تو ان لوگوں کی بھی آتی ہے‘ جن کے راستے بند ہوتے ہیں۔ اتنی خجل خواری اور کھیچل کے بعد بھی حاصل حصول کچھ نہیں ہوتا۔ آج کل ہر سیاسی پارٹی اپنی اپنی پاور دکھا رہی ہے۔ فضل الرحمن صاحب اپنی پاور دکھا رہے ہیں۔ خورشید شاہ صاحب نے فرمایا ہے کہ بلاول کو بچہ سمجھنے والے ہاتھ ملا کر دیکھیں‘ طاقت کا اندازہ ہو جائے گا۔ ایسے لگتا ہے جیسے بلاول نے اپنے چاچے عمران سے کشتی کرنی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ کسی کو پیسے دینا تو آسان ہے لیکن اس سے لینا حکمت ہے۔ جس شخص سے پیسے لینے ہوں‘ اس شخص کو تھانے بھی بند کرا دیتے ہیں۔ وہ شخص پولیس سے کہتا ہے میرے پاس ہے ہی کچھ نہیں تو پولیس مدعی سے کہتی ہے کہ اس کیس کا ہمارے پاس کوئی علاج ہی نہیں۔ عمران خان اپنے جلسوں میں نواز شریف صاحب اور ان کے بچوں کے پاس پیسے کا تذکرہ ایسے کرتے ہیں‘ جیسے عمران خان انہیں دستی پکڑاتے رہے ہوں۔ اگر حسن نواز صاحب عمران صاحب سے یہ کہہ دیں کہ ”پا جی! تسیں سانوں ہتھیں دتے سن“ تو پھر کون سا قانون لاگو ہو گا۔ اب تو ہر پارٹی کی اپنی برات‘ اپنا بینڈ باجہ‘ اپنی موسیقی‘ اپنے نعرے‘ اپنے فیصلے‘ اپنی بڑھکیں اور اپنی میلی یا طنزیہ زبانیں ہیں۔ عوام کے راستے بند کئے جا رہے ہیں اردگرد دیکھیں کہ مقبوضہ کشمیر بھارتی ظلم و ستم کی وجہ سے بند پڑا ہے اور بے بس مسلمان اشیائے خوردنی کو ترس رہے ہیں۔ افغانستان کے حالات پر نگاہ دوڑائیں۔ وہاں کیا کچھ بند نہیں ہے۔ کراچی کو برسوں سے بند بلکہ بوری بند کیا جاتا رہا ہے۔ بلوچستان کے حالات دیکھ لیجئے۔ خدا خدا کرکے ملک کو دہشت گردی سے پاک کیا جا رہا ہے اور سیاست دانوں کو چاہئے کہ ہر وقت ملک بند کرنے کی نہ سوچیں۔ کبھی عوام کا بھی سوچیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38