6ستمبر 2012 کے یوم دفاع کے ٹی وی شو میں میجر جنرل شفیق احمد ستارہ جرات نے اپنی کمپنی کی 19/18ستمبر 1965کی رات چونڈہ کی جنگ بتاتے ہوئے کہا کہ ان کی کمپنی پر حملہ آور بھارتی نمبر26بریگیڈ حملہ کرتے ہوئے راستہ بھول گئی۔ یہ تو غلط ہے وہ تو 58بریگیڈ تھی۔ پورے بھارتی نمبر1کور میں 26بریگیڈ تو کوئی تھی ہی نہیں اس علاقے میں۔
پروفیسر مظفر مرزا نے جنرل موسیٰ کی کتاب My Versionکا حوالہ دیا اور یہ شکوہ کیا کہ اس کتاب کو پڑھ کر ان کو کوئی خاص علم حاصل نہیں ہوا اور کہ جنرل موسیٰ نے بھی ڈنڈی ماری ہوئی ہے۔ یہ ایک تیزوتند چھوٹا سا جملہ اور اس کے ساتھ کوئی اور الفاظ یا جملے نہیں ہیں۔ جس کی وجہ سے ڈنڈی مارنے کا ماحول سمجھ نہیں آیا۔ جنرل موسیٰ نے بطور پاکستانی فوج کے کمانڈر انچیف جنگ کے متعلق اپنا نقطہ نظر بیان کیا۔ وہی پاکستانی فوج جس کے متعلق 6ستمبر کے 17کالموں میں میں نے محبت اور پیار بھرا رنگ بکھرا ہوا دیکھا اخبار میں کچھ کم جگہ کی وجہ سے چھوٹے فقرے یا الفاظ اپنے ہی رنگ کے مطلب پیش کر جاتے ہیں۔ حالانکہ اتنے پڑھے لکھے لکھاری کا مطلب زیادہ تر پرمحبت ہی ہوتا ہے لیکن اتنے چھوٹے اور ترش فقرے اپنے تئیں اپنا ہی مطلب لےے ہوئے ہوتے ہیں۔ پروفیسرمظفر مرزا یہ جانتے ہوں گے کہ ہماری افواج اور ہمارے عوام بہت سخت جذبوں سے سرشار ہیں۔ مگر وہ پیدائشی طور پر باہمی رنج و شک (amoral familism) میں بھی یکدم مبتلا ہو جاتے ہیں۔ پہلے ہی ہم اس چیز پر سوال و جواب کے طلب گار ہیں کہ آیا 1971 کی جنگ میں 1965والا جذبہ اسی سطح پر تھا کہ نہیں۔ تمام اہل دانش پر لازم ہے کہ وہ آپس میں سر جوڑیں اور وجوہات معلوم کریں اور اس میں آگے ابتری کو روکنے کی سبیل سوچیں۔ وجوہات تو بہت ساری اور صاف ہیں ہمیں صرف ان کا ادراک کرنا ہے۔ جناب عزیز ظفر آزاد (جرس جمہور) کا اشارہ ان بہادروں سے بھی بہادر جوانوں کی طرف ہے جو اپنے سینوں پر بم باندھ کر بھارتی ٹینکوں کے نیچے لیٹ گئے تھے۔ انھوں نے تاریخ میں بہت گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ کتنے آدمی تھے وہ؟ کتنے ٹینکوں کے نیچے وہ لیٹے تھے؟ کتنے ٹینک انھوں نے اس طرح تباہ کےے؟ ان کا تعلق کس یونٹ سے تھا؟ ان میں سے کن کن کو نشان حیدر یا کوئی اور جرات کے نشان دئےے گئے۔ کیا ان کی یونٹ یا یونٹوں کو کوئی امتیازی نشان دئےے گئے؟ کوئی کراس بیلٹ یا کالر پر کوئی آرائشی لائن یا وردی پر کوئی زیبائش؟ پاکستانی فوج کو کیا موافق تذویراتی یا ٹیکٹیکل فوائد حاصل ہوئے؟ آپ نے ان سربلند جوانوں کا رزمیہ بیان کیا میں نے ایک عمر گزار دی ان سولات کا جواب ڈھونڈتے ڈھونڈتے۔ کیوں نہ ہم مل کر ایک زور آور گہرا قصد کریں ایسی جرات رندانہ کا سراغ ڈھونڈیں۔ مجھے اگر یہ نہیں ملا تو مجھے ایک اور واقعہ کا سراغ ملا ہے۔ ان نڈر اور بے خوف جوانوں کے علاوہ ان میں بھی مجھے بہادروں سے بھی بہادر افسران سردار صاحبان اور جوانان کی لازوال داستان شجاعت نظر آئی۔ 8ستمبر 1965کے دن سیالکوٹ اور چونڈہ کے میدان کارزار کی جنگی حالت کا علم ضروری ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لےے ہمارے 15ڈویژن کے جنرل آفیسر کمانڈنگ نے ایک خلیق اور حلیم سکینڈ لیفٹیننٹ فرید احمد بخاری ان کے بہادر دلیر سردار صاحبان اور سربکف جوانوں سمیت دشمن کی پیش قدمی کرتی ہوئی بکتر بند ڈویژن (کالا ہاتھی ڈویژن) پر غارت کن حملہ کرنے پر لگا دیا۔ کالا ہاتھی ڈویژن کے مقابلے میں فرید بخاری کی دو پلاٹونوں کے ہتھیار اور ننگی جیپیں ایسے ہی تھے کہ جیسے ایک چیونٹی ہاتھی پر رینگ کر چڑھ رہی ہو اس پر حملہ کرنے کے لےے۔ فرید احمد بخاری ان کے سربکف مجاہد اس کالے ہاتھی پر ٹوٹ پڑے۔ وہ اور ان کے نرم و لطیف (مقابلتاً) ہتھیاروں اور ننگی جیپوں سے حملہ کرنا؟ اس زمرے میں یہ بات عیاں ہے کہ یہ ان کے فرائض منصبی سے آگے اور بعید تھا۔
فرید اور ان کے مجاہد اپنے نرم و لطیف ہتھیار اور ننگی جیپوں پر بکتر بند ڈویژن کے تمام ٹینکوں سے 9کلومیٹر پیچھے جا کر (چونڈہ سے 17کلومیٹر مشرق مشرق شمال کی سمت میں) ایک زبردست جارحانہ پینترے سے حملہ کر کے کنگرہ گاﺅں کے نزدیک کالا ہاتھی ڈویژن کی 71میڈیم رجمنٹ کی بیٹری تباہ کر ڈالی۔ عالی جناب تمام اہل علم غور فرمائیں وہ کالا ہاتھی ڈویژن کے تمام ٹینکوں کے پیچھے چلے گئے تھے۔ عقب میں ایسے اچانک حملے کی وجہ سے کالا ہاتھی ڈویژن دس کلو میٹر پیچھے پس قدمی کر گیا۔ اس ضمن میں وائرلیس پیغام نشر ہوا۔ ”اپنے پنڈ کو بھاگو“ 17پونا ہارس نے اپنے پنڈ کی طرف سرپٹ (دڑکی میں) دوڑنا شروع کر دیا۔ہماری افواج میں مقابلتاً انتہائی کمی کی وجہ سے سیالکوٹ اور چونڈہ کے درمیان 27کلومیٹر کا خلا تھا۔ اگر فرید بخاری اپنے مجاہدوں کے ساتھ ایسا حملہ نہ کرتے تو بھارتی نمبر 1کور (تین ڈویژن اور ایک بکتر بند ڈویژن) پہلے ہی دن سیالکوٹ کے عقب میں جا نکلتے اور پاکستانی فوج سخت مصیبت میں پھنس جاتی۔ اس کی بجائے فرید احمد بخاری کے حملے نے ان کی دڑکی مخالف سمت میں لگوا دی اور بھارتی نمبر1کور کا حملہ دو دن کے لےے رک گیا۔ وہ بہادروں سے بھی بہادر شیر دلیر جوان جو بھارتی ٹینکوں کے نیچے چلے گئے تھے۔ ان کے علاوہ سیکنڈ لیفٹیننٹ فرید احمد بخاری کے مٹھی بھر بہادر شیر دلیر سردار صاحبان اور جوان 13FFرجمنٹ کے تھے۔ یہ اتنا بڑا اعزاز پلٹنوں میں سے پلٹن 13FFرجمنٹ کو جاتا ہے۔ ہمارے اہل علم و دانش نے 6ستمبر 2012 کے دن اپنے ڈھیر سارے کالموں میں ہمارے افسران سردار صاحبان اور جوانان میں وہ عقابی روح پھونکی ہے۔ وہ ان کی ازحد قابل ستائش کوشش ہے۔ ہم فوجیوں کا فرض ہے اور خاص طور پر 1965 اور 1971 کی جنگوں کے غازیوں کا فرض ہے کہ ہم اپنے اہل علم و دانش کو صحیح اور درست حقائق بہم پہنچائیں۔ ہم غازیوں کا مصمم ارادہ ہے کہ اپنے افسران سردار صاحبان شیر جوانان اور اپنی رجمنٹوں کی بار بار عزم و شجاعت اور دلیری کی داستانوں کو کسی پیدائشی شکوک (amoral familism) کی نذر نہیں ہونے دیں گے۔ کم از کم جب تک ہم زندہ ہیں اور آپ کو گھوڑے کے احوال سے (From the Horse's Mouth) سننا ابھی تک میسر ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024