علامہ خادم حسین رضوی انتقال کر گئے ہیں غم کی یہ خبر عاشقان رسول کو بے چین کر گئی ہے۔ چند روز قبل وہ فیض آباد میں دھرنا دیے بیٹھے تھے۔ گرج برس رہے تھے، تاجدارِ انبیاء ، خاتم النبیین نبی پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی حرمت کے لیے میدان عمل میں تھے۔ جب ملک کے بڑے بڑے طاقتور، بڑے بڑے مقرر، نامور گھروں میں تھے تو علامہ خادم حسین رضوی میدان عمل میں تھے اور آج وہ ہم میں نہیں ہیں۔ وہ بلا شبہ مجاہد ختم نبوت، مجاہد حرمت رسول صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم تھے۔ وہ ساری زندگی نبی کریم کی شان بیان فرماتے رہے، ساری زندگی دین کی خدمت میں وقف کی۔ گلی گلی نگر نگر قریہ قریہ قرآن کریم کا پیغام پہنچایا، تاجدارِ انبیاءؐ کی تعریف بیان فرمائی، لوگوں کو دین کی طرف بلاتے رہے، لوگوں کو حضرت محمد صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کی ختم نبوت پر قائم رہنے اور اس عظیم مقصد کے لیے قربانیاں دینے کے لیے تیار کرتے رہے۔ عظیم دینی خدمات پر انہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ویسے تو علامہ خادم حسین رضوی کی ساری زندگی ہی خدمت دین میں گذری ہے لیکن آخری چند برسوں میں ختم نبوت کے معاملے پر انہوں نے واضح اور دو ٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے حکمرانوں کو ختم نبوت کے قانون میں کسی بھی قسم کی تبدیلی سے روکے رکھا۔ یہ بھی حقیقت ہے گذشتہ چند برسوں کے دوران اقتدار کے ایوانوں میں جس انداز میں ختم نبوت کے قانون کے حوالے سے بات چیت ہوئی ہے اس کے بعد سخت اور دو ٹوک موقف کی ضرورت تھی۔ علامہ خادم حسین رضوی اور دیگر قابلِ قدر اور جید علما نے ہزاروں عاشقانِ ختم نبوت کے ساتھ مل کر اس قانون کی حفاظت کے لیے نتائج کی پرواہ کیے بغیر ہر قسم کے خوف سے آزاد ہو کر سڑکوں پر نبی کریم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کی ختم نبوت اور حرمت رسول کا مقدمہ بہترین انداز میں لڑا ہے۔ ان کی زندگی کے آخری ایام تو اس مقصد کے لیے کام کرتے ہیں گذرے ہیں۔ علامہ خادم حسین رضوی تو چلے گئے ہیں لیکن تحریک لبیک کے پلیٹ فارم سے ختم نبوت اور حرمت رسول کی جو شمع جلا کر گئے ہیں یقیناً نسلیں اس کی حفاظت کریں گی۔ انہوں نے جس سفر کا آغاز کیا تھا ان شاء اللہ پاکستان کے مسلمان اس کو آگے بڑھائیں گے۔ ختم نبوت کے قانون کی حفاظت ہم سب پر فرض ہے۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے نام پر بننے والے ملک میں کسی کو چھیڑ چھاڑ کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ پچانوے فیصد مسلمان آبادی میں ختم نبوت کے ساتھ سانسیں لینے والے غیور عوام کسی کو اس قانون میں کسی قسم کی تبدیلی کی ہرگز اجازت نہیں دے سکتے۔ علامہ خادم حسین رضوی کے مشن کو آگے بڑھایا جائے گا۔ تحریک لبیک کی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ علامہ صاحب کی عدم موجودگی میں اس عظیم مقصد کو اصل روح کے مطابق آگے بڑھائے۔ ہمیں اپنے بچوں کو ختم نبوت کا سبق دینا ہے۔ حضور صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم خاتم النبیین ہیں اس کا درس دینا ہے۔ نبی کریم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کی حرمت پر جان مان اولاد سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ بیدار رکھنا ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کو اس عظیم مقصد کے لیے تیار کرنا ہے یہ مقصد صرف تحریک لبیک یا علامہ خادم حسین رضوی مرحوم کا ہی نہیں ہے یہ ہم سب کی زندگیوں کا مقصد ہونا چاہیے۔
علامہ خادم حسین بائیس جون انیس سو چھیاسٹھ کو نکہ توت میں پیدا ہوئے ان کا تعلق ضلع اٹک سے تھا۔ انہوں نے جہلم اور دینہ کے مدارس سے حفظ و تجوید کی تعلیم حاصل کی۔ علامہ خادم حسین رضوی نے جامعہ نظامیہ رضویہ سے درس نظامی مکمل کیا۔ وہ ساری زندگی درس و تدریس سے منسلک رہے۔ دین سیکھتے اور سکھاتے رہے۔ وہ اپنے مخصوص انداز میں تقریر کرتے تو سننے والے گھنٹوں علامہ خادم حسین رضوی کو سنتے رہتے۔ وہ نہایت سادہ اور دلنشین انداز میں نبی کریم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کی شان بیان فرماتے تھے۔ اسلام کے اس عظیم خادم کے انتقال پر ملک بھر سے مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد تعزیت کا اظہار کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین
چودھری نثار علی خان اقتدار میں ہوں یا اقتدار سے باہر ان کی سیاست میں بہرحال مثبت سوچ، رواداری، قومی مفاد اور وضعداری نظر آتی ہے۔ ان دنوں وہ سیاسی طور پر غیر فعال ہیں لیکن غیر اہم ہرگز نہیں ہیں۔ ان کا سیاسی کیرئیر بے داغ ہے عمومآ ہمارے سیاستدانوں کو مختلف الزامات کا سامنا رہتا ہے۔ وزارتیں سنبھالنے والوں پر مال بنانے کے الزامات لگتے رہتے ہیں لیکن چودھری نثار علی خان اس حوالے سے بے داغ ہیں۔ ان کا سیاسی کیرئیر صاف شفاف ہے۔ بعض معاملات میں سخت موقف رکھتے ہیں اور بلا خوف و خطر اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن کا حصہ ہوتے ہوئے بھی جماعت کے اجلاسوں میں وہ اپنا نقطہ نظر مصلحت کا شکار ہوئے بغیر بیان کرتے تھے۔ ان کا اختلاف رائے سخت بھی ہوتا تھا اور اکثر اوقات جماعت کی اعلیٰ قیادت کو ناگوار بھی گذرتا لیکن چودھری نثار علی خان اختلاف رائے سے کبھی دستبردار نہیں ہوئے۔ وہ جماعت میں موروثیت قائم کرنے کے خلاف تھے اور جب تک ن لیگ کا حصہ رہے اس حوالے آزاد سیاسی نقطہ نظر بیان کرتے رہے۔ گذشتہ چند روز سے وہ ایک مرتبہ پھر جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے خبروں میں ہیں۔ اس حوالے سے چودھری نثار علی خان کہتے ہیں کہ ن لیگ کی حکومت کے دوران شہباز شریف کے ساتھ مل کر سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے عہدے میں توسیع دینے کی پیشکش کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز بات جنرل راحیل شریف کو فیلڈ مارشل بنانے کی پیشکش کرنا ہے۔ میرے پاس ایسی کوئی اختیار نہیں تھا اور نا ہی وزیراعظم نے مجھے کوئی اتھارٹی دی تھی۔ یہ پیشکش کرنا تو دور کی بات ہمارے ذہن میں بھی ایسا کچھ نہیں تھا۔ چودھری نثار علی خان کہتے ہیں کہ اعلی سطح پر سول ملٹری اجلاس میں کس نے کیا کہا تھا اس پر فی الحال بات نہیں کرنا چاہتا سنجیدہ اور ذمہ دار سیاست دان کی حیثیت سے اچھی شہرت کے حامل چودھری نثار علی خان کہتے ہیں کہ انتہائی حساس سرکاری معاملات میں ’’اِس نے یہ کہا، اْس نے یہ کہا‘‘ جیسی باتوں میں نہیں پڑنا چاہئے۔
سابق وزیر داخلہ نے ایک حساس معاملے کو نہایت عمدگی کے ساتھ نمٹانے اور دیگر سیاست دانوں کو سبق دینے کی کوشش کی ہے۔ ان کا موقف درست ہے کہ اعلیٰ سطح کے اجلاسوں میں ہونے والی حساس گفتگو پر نہایت محتاط رویہ اختیار کیا جانا چاہیے۔ اس سوچ کو مزید آگے بڑھائیں تو بنیادی طور پر سول ملٹری اجلاسوں میں ہونے والی حساس گفتگو شرکاء کے پاس امانت ہوتی ہے اور شرکاء ہی اجلاس کے محافظ بھی ہوتے ہیں اس لیے چودھری نثار علی خان نے ساتھی سیاست دانوں کو قومی رازوں کو راز رکھنے کا سبق دیا ہے۔ ہمارے سیاستدان ان دنوں ذاتی اختلافات اور دشمنی میں اس حد تک آگے نکل چکے ہیں کہ ان کے نزدیک حساس معاملات اور قومی رازوں کی بھی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ میاں نواز شریف لندن سے انکشافات کر کے بدلہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں تو یہاں سردار ایاز صادق پر انکشافات کا بھوت سوار ہے۔ یہی وہ رویے ہیں جن کی وجہ سے آج بھی ملک میں سیاست دانوں کو مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو سب اچھا لگتا ہے اور اقتدار سے نکل کر سب کو برا بھلا کہنے لگتے ہیں۔ میاں نواز شریف کو ذاتی رنجش ہے وہ یہ نہیں سمجھ رہے کہ ملک میں اگر پچاس فیصد لوگ انہیں ایماندار سمجھتے ہیں تو ہچاس فیصد انہیں بیایمان، کرپٹ، لوٹ مار کے کاریگر کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔ ہچاس فیصد انہیں اچھا سمجھتے ہیں تو اتنی ہی تعداد میں لوگ انہیں برا بھی سمجھتے ہیں اس لیے انہیں کسی خوش فہمی میں رہنے کے بجئے حقیقت کو کھلے دل سے قبول کرنا چاہیے۔ اگر ان کی سیاست میں انکی اپنی غلطیوں یا لوٹ مار کی وجہ سے کوئی وقفہ آیا ہے تو انہیں اپنی اصلاح کرنی چاہیے ساتھی سیاست دانوں کے نیچے سے سیڑھی تو نہ کھینچیں۔ ملک سلامتی کے حوالے سے یا پھر ملک کو درپیش مسائل کے حوالے سے ہونے والے اعلی سطحی اجلاسوں میں شرکاء بحث کرتے ہیں اختلاف رائے بھی ہوتا ہے شرکاء کھل کر اظہارِ خیال کرتے ہیں لیکن اس کا کیا مطلب ہے کہ وہ ساری باتیں عام کر دی جائیں۔ اگر ہم میاں نواز شریف یا سردار ایاز صادق کی طرح ہر بات عام کرنا شروع کر دیں تو خفیہ کیا رہے گا۔ کیا صرف وزیراعظم میاں نواز شریف اور اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق ہی رہے ہیں ان کے علاوہ کسی نے ایسے اجلاسوں میں شرکت نہیں کی۔ کیا آصف علی زرداری کے پاس راز نہیں ہوں گے، کیا یوسف رضا گیلانی کے پاس راز نہیں ہوں گے، کیا میر ظفر اللہ خان جمالی کے سینے میں راز دفن نہیں ہیں تو کیا یہ سب بھی حکومت سے الگ ہونے کے بعد قومی رازوں کو دنیا کے سامنے بیان کرنا شروع کر دیں؟ اس کا جواب میاں نواز شریف دیں اگر ہم مضبوط سیاسی نظام چاہتے ہیں تو ہمیں مضبوط اعصاب کے مالک اور مضبوط دماغی حیثیت کے حامل قابل بھروسہ اور بااعتماد افراد کو آگے لایا جائے۔ میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کو چاہیے کہ وہ اپنے رویے پر نظر ثانی کریں۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024