جمعۃ المبارک‘ 4؍ ربیع الثانی ‘ 1442ھ‘ 20؍ نومبر 2020ء
زرداری نے اسامہ کی پاکستان میں ہلاکت کو خوشی کی خبر قرار دیا تھا۔ اوباما
زرداری صاحب کی خوشی اپنی جگہ اس سے بڑی سینہ شگاف بات اوباما نے یہ کی کہ اسامہ کی ہلاکت کے لیے امریکی فوجی کارروائی کی اطلاع پاکستان کو دینا ان کی سوچ سے بھی زیادہ آسان نکلا۔ کوئی اور یہ بات کہتا تو اسے رنگ آمیزی کہہ کر ہم مسترد کر سکتے تھے۔ یہ بات امریکہ کا وہ صدر کر رہا ہے جو اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے سارے آپریشن کی نگرانی خود کر رہا تھا۔ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے اس وقت کے صدر آصف زرداری نے اس کارروائی پر اوباما سے خوشی کا اظہار کیا وہ بھی اس لیے کہ انکی اہلیہ کو بقول انکے القاعدہ کے انتہا پسندں نے قتل کیا تھا۔ گویا اس وقت جو اس حملہ پہ ناراضگی یا غصے کا اظہار کیا جاتا رہا بیانات داغے جاتے رہے وہ سب مصنوعی تھے۔ اقبال نے کیا خوب کہا تھا۔
’’حمیت نام تھا جس کا‘ گئی تیمور کے گھر سے ‘‘
اگرچہ ہم میں تیموری خون تو نہیں دوڑ رہا مگر بہرحال ہماری تاریخ میں عہد تیموری (مغل) اور امیر تیمور کی بہادری ، جرأت اور جنگی مہمات کے قصے عام ہیں۔ اوباما کی نشتر کی مانند چبھتی سچائی قوم کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہی ہے۔ قوم آج تک بے خبری میں امریکی آپریشن کے پراپیگنڈے کے سحر میں کھوئی ہوئی تھی۔ اب اوباما نے اسے جگا دیا ہے۔ مگر وہی
’’سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا ہوا‘‘
ہماری خوداری ، غیرت ، سرفروشی ، بہادری اور حمیت پر اوباما یہ انکشاف ہزار سوال چھوڑ گیا ہے۔ کوئی ہے جو اس کا جواب دے پائے۔ کہاں ہیں ہمارے تاریخ و جغرافیہ کے ثنا خواں۔ وہ بھی اتنا عرصہ اس معاملے میں خاموش کیوں رہے۔ آخر ہمیں سچ کا باہر سے کیوں پتہ چلتا ہے۔ ہم خود کیوں سچ نہیں بولتے۔
٭٭٭٭
وفاقی کابینہ کی نصف سنچری مکمل، وزرا کی تعداد 51 ہو گئی
وزیر اعظم نے اقتدار سنبھالنے کے بعد کہا تھا کہ وہ اپنی کابینہ مختصر رکھیں گے۔ وزیروں کی فوج جمع نہیںکریں گے۔ مشیروں کا تو ذکر ہی عبث ہے۔ لوگ خوش ہوئے کہ وزیر اعظم کو قومی خزانے کا کتنا خیال ہے کہ وہ وزیروں اور مشیروں کی فوج ظفر موج پر اسے اڑانے کی بجائے سادگی اور کم خرچ کفایت کے فلسفے پر یقین رکھتے ہیں۔ بے جا اسراف کے قائل نہیں۔ مگر جلدہی لگتا ہے انہیں احساس ہو گیا کہ یہ اقتدار کا کام تنہا سنبھالنا بہت مشکل کام ہے۔ کون ہے جو اپنی جان ناتواں پر ظلم کرے۔ سو انہوں نے آہستہ آہستہ اپنے اردگرد وزیر با تدبیر جمع کرنے شروع کر دئیے۔ شومئی قسمت سے ان میں اکثریت کہنے والے تو 90 فیصدکہتے ہیں وزیروں کا تعلق سابقہ کرپٹ حکومتوں سے تھا۔ یہ سب ان حکمرانوں کے وزیر تھے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان 51 وزیروں میں سے 19 وہ ہیں جو غیر منتخب ہیں۔ شاید ان کی قابلیت کی وجہ سے انہیں وزیر بنایا گیا ہے۔ چلیں چھوڑیں اس قصہ دراز کو۔ یہ تو ذکر تھا وزیروں کا اب آئیں ذرا دیکھتے ہیں مشیران باصفا کی طرف ان کی تعداد بھی ہوشربا ہے۔ 16 میں سے 14 وہ ہیں جو غیر منتخب ہیں صرف دو منتخب افراد کو اس قابل سمجھا گیا کہ انہیں مشیر کا عہدہ دیا جائے۔ یوں وزیر اعظم کے اردگردجو وزیر اور مشیر جمع ہیں ان میں بڑی تعدادایسے حضرات کی ہے عوام میں جڑیں ہی موجود نہیں۔ اب ظاہر ہے ایسے افراد کی قابلیت کو کون دیکھتا ہے۔ قصہ مختصر سادگی گئی تیل بیچنے اور بچت
گئی چولہے میں۔ حکمران کوئی بھی ہو ان کے طور اطوار وہی رہتے ہیں۔
عیش تو کرتے ہیں وزیر و مشیر
لوگ بس تالیاں بجاتے ہیں ۔
٭٭٭٭
پیپلزپارٹی نے گلگت بلتستان میں سب سے زیادہ ووٹ لئے: بلاول
آپ نے جو کہا درست کہا۔ اس میں کوئی شک نہیں مگر جناب یہ بھی تو دیکھیں الیکشن ختم ہونے کے بعد جیتنے والوں کی نشستیں گنی جاتی ہیں‘ ووٹ نہیں۔ الیکشن نتائج ووٹوں کی تعداد سے نہیں جیتنے والی پارٹی کو حاصل نشستوں سے معلوم ہوتے ہیں۔ اس وقت پی ٹی آئی نے 9 نشستیں جیتیں۔ ووٹ کتنے لئے‘ اس بحث میں کوئی نہیں پڑتا۔ اگر آپ نے زیادہ ووٹ لئے بھی تو اس سے الیکشن نتائج نہیں بدل سکتے کیونکہ کامیابی آپ کو صرف 4 سیٹوں پر ملی۔ یوں آپ کو گلگت بلتستان اسمبلی میں اپنی انہی چار سیٹوں پر گزارا کرنا پڑے گا۔ اب آپ الیکشن ہارنے کے بعد جو بیانیہ اختیار کریں‘ آپ کی مرضی۔ آپ کو جو فکر ستائے جا رہی ہے ‘مریم نواز کو ایسی کوئی فکر نہیں۔ دیکھا جائے تو انہوں نے بھی بڑے بڑے جلسے کئے مگر الیکشن میں صرف 2 سیٹیں ان کے حصے میں آئیں۔ شکر ہے ابھی تک انہوں نے اپنی پارٹی کو پڑنے والے ووٹوں کے بارے میں کوئی بیان نہیں دیا۔ البتہ پی ٹی آئی کے جیتنے والے آٹھ امیدواروں کو بھی اپنے لوٹے قرار دے رہی ہیں۔
٭٭٭٭
18 سال تک مفت تعلیم کا بل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے مستردکر دیا
چلو اچھا ہی ہوا ویسے ہی نوابوں ، سرداروں ، چودھریوں ، وڈیروں اور خانوں کے ہاتھوں یرغمال بنی ہماری قومی اسمبلی میں کتنے ایسے نمائندے ہیں جو سفید پوش طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو تعلیم کا درد رکھتے ہیں اور قوم کو تعلیمیافتہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ برا نہ لگے تو عرض یہ ہے کہ ہماری اشرافیہ طبقات کی نمائندگی کرنے والی اسمبلی کبھی نہیں چاہے گی کہ غریبوں کے بچے بھی پڑھ لکھ کر آگے آئیں کیونکہ اگر یہ بچے لکھ پڑھ گئے تو پھر ان کو سلام کون کرے گا۔ ان کے قدموں میں کون بیٹھے گا۔ مگر چونکہ عوام کو بے وقوف بنانا بھی ضروری ہے۔ ان سے ووٹ بھی لینے ہیں اس لیے انہیں جھوٹے وعدوں اور دعوئوں پر ٹرخایا جاتا ہے۔ ’’پڑھا لکھا خوشحال پاکستان‘‘ ایک ایسا خواب ہے جس کی تعبیر 72 برسوں میں نہیں مل سکی۔ اگر تھوڑی بہت اب امید بندھی تھی وہ بھی کچے دھاگے کی ڈور کی طرح ٹوٹ گئی۔ حکمرانوں نے وعدہ کیا تھا کہ تعلیم عام کرنے کے لیے 18 سال تک کی تعلیم فری ہو گی۔ مگر جب یہ بل منظور کرنے کا وقت آیا تو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے ہی اس کا گلا گھونٹ کر مسترد کر دیا۔ بھلا حکومت کو کیا پڑی ہے کہ وہ سالانہ اربوں روپے غریبوں کو پڑھانے پر خرچ کرے۔