بڑا عہدہ ۔ بڑی کُرسی ۔ معتبر شخصیت جب بات کرے تو کوئی کیسے جھٹلائے ؟ گندم اور چینی پاکستان کے د و بڑے مسائل ۔ ان کے سوا پاکستان کے تما م اشاریے مثبت ہیں ۔ رواں سال کھانے پینے کی 16 اشیاء ’’216 فیصد‘‘ تک مہنگی ہوئیں ۔ عام استعمال کی اشیا ء نہ کہ لگژری آئیٹمز ۔ یہ اعداد و شمار ’’پاکستان ادارہ شماریات‘‘ کے جاری کردہ ہیں ۔
غلط وقت پر بارش سے فصل تباہ ہونے کا بیان ۔ ہم انسان ہیں کیسے کہہ سکتے ہیں غلط وقت۔ بطور مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ ہر امر ’’حکمِ ربی‘‘ ہے تو پھر ؟بڑے بیان سے چند دن قبل بھرپور خیر مقدمی بیانات کے جلو میں ’’عالمی یوم خوراک‘‘ منایا گیا ۔
سرکاری نرخوں پر آٹا کہاں مل رہا ہے کسی کو معلوم نہیں ۔ غریب کو روٹی میسر نہیں ۔ ’’وزراء ‘‘اچھا کہہ رہے ہیں ۔ ’’وزیر‘‘ ایک پودا لگاتا ہے تو اخباروں میں اشتہار لگ جاتے ہیں ۔ ’’پشاور ہائیکورٹ‘‘ کے ریمارکس ۔ ہمارے نہیں ۔ ہاں جس صفحہ پر ریمارکس پڑھے اُسی پر آدھے صفحہ سے زائد پر پھیلا سرکاری نرخوں پرآٹا فراہمی کا اشتہار اِس پیغام کے ساتھ پڑھا ’’عوام الناس پریشان نہ ہوں‘‘۔ بھلے پنجاب کا تھا مگر بحران تو پورے ملک میں ہے بلکہ دوسرے علاقوں میں شدید تر ہے۔ کوئی مسئلہ نہیں چاہے حکومت ٹریلین من گندم ۔ چینی درآمد کر لے۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ دستیاب نہیں ۔ نہ اُن نرخوں پر جن کا دعویٰ ہے اور نہ اُن مراکز پر جو پہلے سے سبسڈی فراہم کر رہے تھے۔
’’انڈسٹری‘‘ بحال ہے۔ طویل برسوں کے بعد پاکستان ’’کرنٹ اکاؤنٹ خسارے‘‘ سے باہر آیا ۔ برآمدات اور ترسیل زر زیادہ رہیں ۔ بالکل درست۔ یہ حکومتی کام ہیں جو بہرحال حکومت نے انجام دینا ہوتے ہیں۔ دعوے سچ ہیں کوئی شبہ نہیں پر میرا مسئلہ یہ ہے کہ دعوؤں اور مارکیٹ کی روز مرہ ضروریات میں بہت بُعد ہے۔ فرق ہے۔ بنیادی اشیاء صرف کی قیمتوں میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہو رہا ہے۔ بحران پیدا نہ ہونے کا اعلان بہت اہم ۔ ہم ستائش کرتے ہیں ۔ مگر نہ پہلے اور نہ لمحہ موجود میں کوئی بھی بحران کو روک سکا اور نہ روک رہا ہے ۔ البتہ موجودہ حکومت کے کافی سارے اقدامات قابل پذیرائی ہیں مگر میرا مسئلہ ’’پیٹ‘‘ ہے۔ پیٹ سے جُڑی ہر شے جب تک آسانی سے اور مناسب قمیت پر مجھے فراہم ہوتی رہے گی مجھے کوئی پرابلم نہیں ۔ قابل احترام ’’سپریم کورٹ‘‘ کہہ اُٹھی ہر طرف ڈرامہ ہے‘‘ ۔بھلے ریمارکس غیر ملکی طلباء کے کیس میں تھے پر سٹیج تو ملکی سر زمین ہے۔
’’14 سال‘‘ بعد گیس ذخائر ختم ہو جائیں گے ۔ حکومتی مشیر کی رپورٹ۔ کہنے کو تو لمبا عرصہ ہے ۔ تیزی سے گزرتے وقت کو کوئی روک نہیں سکتا تو سوچنا کِس نے ہے؟ خرابی ۔ بدنظمی ۔کرپشن کا ملبہ ہمیشہ ماضی پر ڈالنے کی روایت کافی پُرانی ہے تو کِسی نے ’’اپنی ٹرم‘‘ سے آگے کی منصوبہ بندی کی ؟؟ اچھی خبر کہ ’’زیارت‘‘ میں بلاک بولان سے تیل کا نیا ذخیرہ دریافت ہوگیا ۔ یومیہ ’’800 بیرل‘‘ کی توقع ۔ ’’اللہ کریم‘‘ اِس سے زیادہ حجم کے ذخیرے عطا فرمائے ۔ آمین۔
میرا مسئلہ یہ نہیں تھا کہ’’ اے ۔ پی ۔سی‘‘ ہوئی تھی یا ہوگی۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ مجھے درپیش مسائل بابت ایجنڈہ شامل تھا یا ہوگا۔ سب کا خلوص شک سے مُبرا ہے پر ’’میرے پیٹ‘‘ سے جُڑے مسائل صرف میرے کیوں ہیں ؟ آپ سب کے کیوں نہیں ؟ سب کی ترجیح کیوں نہیں ؟
’’کرونا‘‘ اثرات ۔ پاکستان میں مزید غربت بڑھنے اور ایک کروڑ محنت کش بیروزگار ہونے کا امکان ۔ اندرونی قرضوں میں اضافہ ۔ بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں مشکلات کا عندیہ ۔ جنوبی ایشیاء میںپاکستان کی شرح نمو تمام ممالک سے کم۔ مہنگائی کی شرح ’’9فیصد‘‘ رہنے کا امکان ۔ ’’قرضے‘‘ کِس نے لیے ؟ کیوں لیے؟ ہم نہیں جانتے ۔ میرا مسئلہ نہیں ۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ کہاں خرچ ہوئے ؟اگر ہم پر خرچ ہوئے تو فائدہ مند اثرات دکھائی کیوں نہیں دے رہے ؟ کُل قرضوں کا ایک حصہ بھی صحیح استعمال ہوتا تو آج ہم اِس حالت میں ہوتے ؟ قوم مزید مقروض ۔مزید بے روزگار نہ ہوتی ۔ ’’کرونا‘‘ توآٹھ مہینے پہلے آیا تھا ۔ قبل ازیں بھی یہی صورتحال تھی ۔ بجلی ۔ گیس ۔ پانی ۔ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ’’فیول ایڈجسٹمنٹ‘‘ اصطلاحات بے پناہ پُرکشش اور عوام بے حد دل گرفتہ ۔ مفلوک الحال ۔
واقعی درست فرمایا قابل احترام ’’چیف جسٹس پاکستان‘‘ نے کہ حکمرانوں نے سرکاری پیسہ ذاتی سمجھ کر بانٹا ۔ اس لیے حکومت کے مالی حالات خراب ہیں ۔ حکومتی پیسہ پھینکنے کے لیے نہیں ہوتا۔ پیسے الیکشن سٹنٹ کی غرض سے بانٹے گئے ۔ برس ہا برس سے دہائی دیتی ’’اعلیٰ آوازیں‘‘ معلوم نہیں عوامی نمائیندوں کی سماعتی پہنچ سے دُور کیوں ہیں ؟ سرکاری و سیاسی تقاریر کی حد تک عوامی درد جھلکتا بلکہ بہت اُچھلتا ہے مگر عملی اقدامات سمیت منصوبے دانستہ و نا دانستہ تاخیر کا شکار ہیں ۔ ہم سب ارادی طور پر نیت کی فنی خرابی ۔ کھوٹ میں مبتلا ہیں ۔ سب سے اولین قدم ۔ ہم سب کو اپنے ارادوں کی بر وقت ۔ موثر تکمیل واسطے اپنی نیت کی اصلاح ۔ درستگی کرنا اشد ضروری ہے۔ سیاست اپنی جگہ۔ جمہوریت کی اہمیت سے انکار نہیں مگر جن کے ووٹوں سے ’’اعلیٰ ایوانوں‘‘ تک پہنچتے رہے ہیں اُن کے حقوق کی پاسداری ۔ مفادات کے تحفظ کو کِسی طور پامال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ عوام کے تحفظ ۔ سلامتی اور معاشی مواقع کی یکساں بلا تاخیر فراہمی ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ عوام ریاست کی پہلی اینٹ اور کلیدی اساس ہیں۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ مہنگائی کے خاتمہ کے لئے موثر ۔ عملی اقدمات اٹھائے ۔’’ پرائس کنٹرول کمیٹیوں‘‘ کی کاکردگی زیرو ہے ۔ ان کی فعالیت کا یہ حال ہے کہ حکومتی نوٹس کے بعد حرکت میں آتی ہیں اور کارکردگی یہ ہے کہ ایک آدھ تصویری چھاپہ نوٹس ختم۔ چیکنگ ختم اور جو دورے ہوتے ہیں صرف کاغذات کا پیٹ بھرنے کے لئے ہوتے ہیں۔ ضلعی سطح پر’’ ڈپٹی کمشنر‘‘ اس کام کا ذمہ دار ہوتا ہے ۔حکومت ضلعیـ افسران کو پابند بنائے کہ وہ روزمرہ بنیاد پر ٹھوس مانیٹرنگ کریں۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024