چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ طاقتوروں کا طعنہ ہمیں مت دیا جائے ، ہمارے سامنے طاقتور صرف قانون ہے ، سابق آرمی چیف کے مقدمے کا فیصلہ ہونے جا رہا ہے۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ججز پر اعتراض کرنیوالے تھوڑی احتیاط کریں اور طاقتوروں کا طعنہ ہمیں مت دیں، وزیراعظم نے جس کیس کا طعنہ دیا اس پر بات نہیں کرناچاہتا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس کیس میں باہرجانے کی اجازت وزیر اعظم نے خود دی، ہائی کورٹ نے صرف جزئیات طے کی ہیں، اس معاملے کا اصول محترم وزیراعظم نے خود طے کیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ آج کی عدلیہ کا تقابلی جائزہ 2009 سے پہلے والی عدلیہ سے نہ کریں، 2 وزرائے اعظم کو ہم نے نااہل کیا اور ایک کو سزا بھی دی، یہ مثالیں آپ کے سامنے ہیں ہم صرف قانون کے تابع ہیں۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ سابق آرمی چیف کے مقدمے کا فیصلہ ہونے جا رہا ہے ، مختصر وسائل کیساتھ مثالی کام کئے ہیں، ایک آرمی چیف کا مقدمہ عدالت میں چل رہا ہے، ہمارے سامنے طاقتور صرف قانون ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ میں اصلاحات کیلئے اندرونی وسائل استعمال کئے ، اصلاحات کیلئے کسی سے پیسہ نہیں مانگا ، وزیراعظم کا انصاف کے سیکٹر میں تبدیلی کااعلان خوش آئند ہے، انھوں نےوسائل کی فراہمی کی بات کی، جس کا خیرمقدم کرتاہوں۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ عدلیہ کو اب وسائل کی کمی کا سامنا تھا ، عدلیہ نےپچھلے3سال میں 36لاکھ کیسز کا فیصلہ کیا ، ان کیسز میں شائد ایک یا دو طاقتور لوگ ہوں گے، کوئی شخص طاقتور کہلاتا ہے تو یہ تاثر غلط ہے کہ 36لاکھ کیسز کو بھول جائیں۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ وسائل کے بغیر جو عدلیہ کی کارکردگی ہے اس کامعاشرے کو شائد علم نہیں، 25 سال کا کریمنل بیک لاگ ختم کردیا ہے ، ہم نےماڈل کورٹس کا ڈھنڈوراپیٹا نہ اس کاکوئی اشتہار لگایا اسی سسٹم کیساتھ صرف چند پہلوؤں کےذریعےماڈل کورٹس چلائیں۔
انھوں نے کہا کہ وزیراعظم نے عدلیہ کو وسائل دینے کی بات کی ہے ، وہ وسائل دیں گے تو نتائج اس سے کئی گنا بڑھ جائیں گے، سرکار سے ایک پیسہ نہیں مانگا ،عدلیہ جانفشانی سے کام کررہی ہے، 187 دن میں 73ہزار303ٹرائل مکمل کئے ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ معاشرے کے طبقے عدلیہ پر اعتراض میں احتیاط کریں ، ججز دن رات کام کررہےہیں ان کی حوصلہ افزائی کریں ، ہمارے سامنے کوئی طاقتور نہیں ہیں طاقتور صرف قانون ہے، وزیراعظم کو معلوم ہوگا اجازت انھوں نےخود دی تھی ، وزیراعظم بھی بیان دینےسے احتیاط کریں ، کوئی بھی ادارہ یا انسان پرفیکٹ نہیں ہے۔