کھلاڑیوں کو پلیئر آف دی ایئر، باؤلر آف دی ایئر، آل راؤنڈر آف دی ایئر کے ایوارڈ دیئے جاتے ہیں، کہیں بیسٹ آرٹسٹ، کہیں بیسٹ سنگر اور کہیں بیسٹ ڈرامہ آف دی ایئر کا ایوارڈ دیا جاتا ہے۔ جن حالات میں پاکستان کرکٹ بورڈ کا حالیہ فزیکل فٹنس کیمپ جاری ہے اسے فٹنس کیمپ آف دی ایئر کا ایوارڈ آسانی سے دیا جا سکتا ہے۔ ایسا فٹنس کیمپ جس میں کئی کھلاڑیوں نے شرکت کرنا تھی توجہ طلب بات یہ ہے کہ صرف دو فاسٹ باؤلر ہی دستیاب ہیں اور ان دو میں سے بھی ایک کم ہو جائے گا یوں صرف ایک فاسٹ باؤلر پر مشتمل فزیکل فٹنس کیمپ کا انعقاد اچھے فیصلوں کا پتہ دینے کیلئے کافی ہے۔
جس پیشہ وارانہ اور ماہرانہ انداز میں اس کیمپ کا انعقاد کیا گیا ہے اسے دیکھنے کے بعد ہر کسی کو یقین ہو جانا چاہیے کہ ملکی کرکٹ انتہائی محفوظ ہاتھوں میں ہے اور پاکستان کرکٹ بورڈ کو دنیا کے چند بہترین دماغ چلا رہے ہیں۔ کیا کہنے ہیں ان اعلی دماغوں کے جو یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہیں کہ میچ پریکٹس سے زیادہ اچھی پریکٹس کوئی نہیں ہے اور میچ سے زیادہ اچھی فٹنس کا متبادل کوئی نہیں ہو سکتا۔ استاد محترم سید سلطان عارف مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ ایک میچ ایک ہفتے کی پریکٹس پر بھاری ہے۔ ملک کے سب سے بڑے ٹورنامنٹ قائد اعظم ٹرافی کے مقابلے جاری ہیں کیا کھلاڑیوں کو فٹنس بہتر بنانے کیلئے ان مقابلوں سے بہتر کوئی ذریعہ ہو سکتا ہے۔ ہنگامی بنیادوں پر کیمپ کا انعقاد کر کے پاکستان کرکٹ بورڈ نے اپنی ہی بنائی ہوئی پالیسی کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔
بورڈ ایک طرف قائد اعظم ٹرافی کو اہمیت دینے کا نعرہ لگاتا ہے تو دوسری طرف کئی کھلاڑیوں کو جاری ڈومیسٹک سیزن میں من پسند فیصلے کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ جس کا جہاں دل کرتا ہے وہ کھیلتا ہے اور کرکٹ بورڈ کا جہاں کسی کو روکنے سے دل کرتا ہے روک دیا جاتا ہے اور جہاں کہیں بھیجنے کا دل کرتا ہے بھیج دیا جاتا ہے۔ فیصلوں میں پختگی کا نہ ہونا پالیسی میں کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے ٹی ٹین کے این او سی جس بنیاد پر منسوخ کیے تھے انہیں دوبارہ دیکھ لیں تو شاید کچھ یاد آ جائے کیا اب ملک میں قائد اعظم ٹرافی کا انعقاد نہیں ہو رہا جو کچھ پلیئرز کو جنوبی افریقہ جانے کی اجازت دی گئی تو بعض کو کیمپ میں طلب کر لیا گیا ہے۔ اس دوہری پالیسی نے واضح کر دیا ہے کہ نئے نظام کو بھی پرانے بلکہ گھسے پٹے طریقے سے چلایا جا رہا ہے۔
بورڈ کو چاہیے کہ قائد اعظم ٹرافی کے دوران قومی کرکٹرز کی شرکت کے حوالے سے واضح پالیسی ترتیب دے اور پھر اس پر سختی سے عمل بھی کرے۔ ایسی پالیسی جس کا سب پر یکساں اطلاق ہو۔ چہرے دیکھ کر یا پیغام وصول کرنے کے بعد فیصلے تبدیل کرنے کی روایت کو بدلنا ہو گا۔ بھاری تنخواہوں والے افسران نے بھی وہی کام کرنے ہیں جو پہلے ہو رہے تھے تو کم تنخواہوں والوں میں کیا برائی تھی۔
چند روز سے اخبارات اور ٹی وی چینلز پر پاکستان کرکٹ بورڈ کے فٹنس کیمپ کی خبریں شائع ہو رہی ہیں۔ کہیں لکھا جا رہا ہے کہ پی سی بی کا فٹنس ٹیسٹ مذاق بن گیا، کہیں لکھا جا رہا ہے کہ ایک یا دو کھلاڑیوں کیلئے اس کیمپ کے انعقاد کا مقصد سمجھ نہیں آتا۔ غرضیکہ ہر طرف پی سی بی کی باکمال انتظامیہ کے لاجواب فیصلوں پر بات چیت ہو رہی ہے۔ کہیں مذاق بن رہا ہے تو کہیں سنجیدہ بحث سننے کو مل رہی ہے۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین احسان مانی، پرانے آئین کے مینجنگ ڈائریکٹر اور نئے آئین کے تحت چیف ایگزیکٹو کا عہدہ پانے والے وسیم خان نہایت قابل، پیشہ ور اور دور کی نگاہ رکھتے ہیں، ہمیں بتایا گیا تھا کہ اب پائیدار فیصلے دیکھنے کو ملیں گے لیکن تصویر کے دوسرے رخ میں یو ٹرن ہی نظر آ رہے ہیں۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ کفایت شعاری سے کام لیا جائے گا لیکن یہاں تو اخراجات پہلے سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ ملک کے تمام چھوٹے بڑے کرکٹرز کو صرف ماہانہ پچاس ہزار پر ٹرخایا جا رہا ہے جبکہ آفیشلز کو ان کی من چاہی تنخواہیں ادا کی جا رہی ہیں جن کی بدولت پیسہ کمایا جاتا ہے وہ قطاروں میں لگے نظر آتے ہیں اور منظور نظر افسران کی بیرون ملک دوروں کی لائنیں لگی ہوئی ہیں۔
کرکٹ بورڈ کے اعزازی اور اخراجات میں کمی کے بلند و بانگ دعوے کرنے والے چیئرمین احسان مانی ایک سال میں ایک کروڑ اٹھائیس لاکھ سے زائد خرچ کر چکے ہیں۔ رہائش گاہ کی مد پینتیس، گاڑی اور ڈرائیور کی مد میں دس لاکھ سے زائد، غیر ملکی دوروں پر چھپن لاکھ سے زائد اور اندرون ملک سفر پر بارہ لاکھ سے زائد رقم خرچ کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ بھی لاکھوں کے اخراجات ہیں۔کیا یہی تبدیلی ہے۔ کیا یہی کفایت شعاری ہے، کیا یہی سادگی ہے۔ اگر یہی سادگی ہے تو کھلے دل سے خرچ پر کیا نتیجہ نکلے گا اور فضول خرچی کی جائے تو یہ رقم کہاں تک جا پہنچے گی۔ بہر حال دن بدلے فقط وزیروں کے پاؤں ننگے ہیں بینظیروں کے!!!!
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024