جہاں تک مودی کی تعلیمی قابلیت کی بات ہے تو انہوں نے جو کچھ سیکھا‘ جو تعلیم حاصل کی وہ انتہا پسند جماعت آر ایس ایس سے حاصل کی۔ بیس سال کی عمر میں وہ آر ایس ایس کے جانثار کارکن کی حیثیت میں کام کررہے تھے۔ان کا سیاسی کیریئر 1985ء میں شروع ہوا جب انہیں بی جے پی کے لیے کام کرنے کا موقع ملا۔ یہاں سے ان کی قسمت بدل گئی۔1995ء میں بی جے پی کو گجرات میں کامیابی ملی اور مودی2001ء میں وزیراعلیٰ بن گئے۔تاہم مودی نے ایسے لوگوں کو اپنے قریب رکھا جو ان کے ساتھ وفادار تھے اور ایسے لوگوں سے فاصلے بڑھا لئے جو اپنے کام کے ماہر اور ذہین تھے۔ میرٹ کو بالائے طاق رکھنے کی یہ خاصیت بھارت کو آج بہت مہنگی پڑ رہی ہے کیونکہ وہ اپنی شخصیت کے حصار سے اب تک باہر ہی نہیں آ سکے۔
بھارت میں ایک ایسی بلٹ ٹرین کا منصوبہ شروع ہے جو ممبئی اور احمد آباد کے درمیان پانچ سو کلومیٹر کے فاصلے کو چھ گھنٹوں سے کم کر کے دو گھنٹوں تک لے آئے گی۔تاہم منصوبہ شروع ہوئے دو سال ہو چکے ہیں لیکن ٹرین کے راستے میں جو عوامی مقامات اور لوگوں کے گھر وغیرہ آتے ہیں ان کی ادائیگی اور متعلقہ قانونی مسائل حل نہیں ہو سکے۔ اس منصوبے کیلئے جاپان بڑی سرمایہ کاری کر رہا ہے لیکن یہ مسلسل التوا کا شکار ہے۔اس کے مقابلے میں اگر چین کو دیکھا جائے تو چین نے صرف 2018ء کے دوران ہی اپنے ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک 2800کلومیٹر طویل ٹریک بچھا لیا ہے۔مورخین کے مطابق بھارت اور چین کی معیشت ایک جیسی تھی۔ جبکہ 1990ء میں چین نے تیزی سے سر اٹھایا‘ انقلابی طور پر معاشی اصلاحات کیں اور آگے نکل گیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج چین کا جی ڈی پی بھارت کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ ہے۔اس سال جون میں بھارت کا جی ڈی پی چھ سالوں کے دوران پانچ فیصد کی کم ترین سطح پر آ چکا ہے۔اس کے باوجود بھارتی حکومت خطرے کی گھنٹیاں نظر انداز کر رہی ہے۔
بھارت کو اس وقت تین بڑے چیلنجز کا سامنا ہے جو ماحول‘ تعلیم اور انتظامی امور سے متعلق ہیں۔ بھارت میں بوسیدہ انفراسٹرکچراس کے ہیلتھ کیئر نظام کو بری طرح متاثر کررہا ہے جس کی وجہ سے کروڑوں لوگوں کی صحت کو مسلسل خطرات لاحق رہتے ہیں۔ غربت اور عدم مساوات بھارتی معاشرے میں رچ بس چکے ہیں اور اس کے لئے لازم و ملزوم دکھائی دیتے ہیں۔ نریندر مودی جو کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ فہرست بہت زیادہ طویل ہے۔تاہم تین معاملات پر ہی فوکس کر لیا جاتا تو مجموعی طور پر حالات کافی بہتر ہو سکتے تھے۔ ایسا لگتا ہے بھارت میں ماحول کی تباہی سے کسی کو کوئی پریشانی محسوس نہیں ہو رہی۔ دنیا میں پندرہ آلودہ ترین شہروں میں سے بارہ بھارت میں موجود ہیں جبکہ پانی کے معیار میں بھارت 122ممالک میں 120ویں نمبر پر ہے۔ یہی حال تعلیم کا ہے۔ دھڑا دھڑ لوگ دیہات سے شہروں کا رخ کر رہے ہیں لیکن کسی کو یہ معلوم نہیں کہ اکیسیویں صدی میں روزگار کے حصول کے لوازمات اور ضروریات کیا ہیں۔ ہر کوئی مزدوری اور نوکری کرنا چاہتا ہے لیکن سرکار ہر کسی کو مزدوری اور نوکری کہاں سے دے سکتی ہے۔ لوگوں کو ہنر سیکھنے کی طرف توجہ دلانا بھی تو حکومت کا کام ہے لیکن مودی سرکار کو شاید ان چیزوں کے لئے فرصت نہیں مل رہی۔ بھارت کا تیسرا بڑا مسئلہ انتظامی امور ہیں جو بیوروکریسی کی وجہ سے مسلسل زوال کا شکار ہے۔ برطانوی راج سے آزادی تو مل گئی لیکن ابھی تک ماضی کے وہی فرسودہ اور روایتی انتظامی طریقہ کار موجود ہیں جس کی وجہ سے روز مرہ کے مسائل میں پیچیدگیاں حل ہونے کی بجائے بڑھتی جاتی ہیں۔جدید دور کے تقاضوں سے خود کو لیس کرنے کی بجائے انتظامیہ وہی پرانا فائل سسٹم لے کر مکھی پر مکھی مارنے کو ترجیح دے رہی ہے۔
ماحولیات دنیا کے جدید ممالک کے صف اول کے مسائل میں شامل ہے لیکن بھارت میں سب کچھ الٹ چل رہا ہے۔ چند عشرے قبل جو بندہ بھارت سے کسی اور ملک گیا ہو اور اب واپس آ جائے تو وہ بھارت کی موجودہ حالت پر یقین ہی نہیں کر پائے گا۔ بالخصوص شمالی بھارت پنجاب اور ہریانہ میں ماحول کی جو صورت حال ہے وہ انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔کسانوں کی مہربانی سے خطے میں سموگ کا پانچواں موسم تشکیل پا چکا ہے کیونکہ وہ ہر سال باقاعد گی سے فصلوں کو جلا تے رہتے ہیں جس سے لوگوں کے لئے ترقی جیسی چیزوں کے بارے میں سوچنا تو درکنار‘سانس لینا بھی محال ہوچکا ہے۔ آگ کے اس دھوئیں میں گاڑیوں کے ڈیزل اورکوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس اور دیگر آلودہ اجزا شامل ہو چکے ہیں جن کی وجہ سے پورا شمالی بھارت ‘ پاکستان کے شہر لاہور سے لے کر بنگلہ دیش کے ڈھاکہ تک آلودگی کے نئے ریکارڈ قائم کر رہا ہے۔ یہ آلودہ فضا اس قدر زہریلی ہے کہ اس سے ہر سال بارہ لاکھ افراد جان کی بازی ہار جاتے ہیں اور اس کی وجہ سے خطے میں لوگوں کی اوسط عمر چار سال تک کم ہو رہی ہے۔
زراعت میں ٹیکنالوجی کے آنے سے کچھ نقصانات بھی ہوئے ہیں۔فصلوں کی مشینری کے ذریعے کٹائی کی وجہ سے بھوسہ باقی رہ جاتا ہے جسے جلائے بغیر کوئی چارہ باقی نہیں رہتا۔ ٹیکنالوجی نے فضائی آلودگی کو بہت زیادہ بڑھا دیا ہے ۔۔ مغربی ممالک کو بھی شروع میں یہ مسئلہ درپیش ہوا۔ وہاں بھی جب سموگ جیسے مسائل نے سر اٹھایا تو عوامی دبائو پر حکومت کو پالیسیاں تبدیل کرنا پڑیں جس کی وجہ سے اب وہاں ماحولیاتی مسائل قابو میں ہیں۔ تاہم بھارت میں قومی سطح پر ایسی کوئی پالیسی اپنائی جا رہی ہے نہ ہی مودی سرکار اس بارے میں کوئی ویژن رکھتی ہے۔باتوں کی حد تک تو بہت کام ہو رہا ہے لیکن عملی تدبیر دکھائی نہیں دیتی۔بھارت کو یہ سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ اس ترقی کی قیمت اسے زہریلی فضا ئی آلودگی کی پیداوار کی شکل میں ادا کرنا پڑ رہی ہے جو نئی نسل کے لئے انتہائی تباہ کن ہے کیونکہ جب انہیں صحت مند فضا ہی میسر نہ ہو گی اور وہ سانس ہی نہ لے پائیں گے تو اس ترقی کا کیا اچار ڈالیں گے۔چین کو بھی یہ مسئلہ درپیش ہے لیکن وہاں یک جماعتی حکومت ہے اور وہ فوکس کرتے ہوئے ماحولیاتی پالیسیوں کو نچلی سطح پر عمل درآمد کروا لے گی لیکن بھارت کی منقسم قسم کی حکومت ایسی جمہوریت کے بھنور میں پھنس چکی ہے جو اس قابل بھی نہیں کہ ماحولیاتی پالیسی کی تشکیل اور اس پر عمل درآمد کروا سکے۔
کاغذوں میں دیکھیں تو ماحول کو کنٹرول کرنے کے لئے لمبے چوڑے بھارتی قوانین اور ان کی تہہ در تہہ شقیں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ایک نیشنل گرین ٹربیونل بھی کہیں کہیں دکھائی دیتا ہے جو قوانین کو عمل درآمد کروانے کی طاقت رکھتا ہے لیکن اس کی حالت بھی عضو معطل جیسی ہے۔پوری دنیا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی افزائش ختم ہو رہی ہے لیکن بھارت واحد ملک ہے جہاں یہ 2005ء سے اب تک دوگنا ہو چکی ہے۔ بھارت میں زمین کی سطح پر موجود 70فیصد پانی آلودہ ہے جب کہ پورے ملک میں دو کروڑ ٹیوب ویلز سے جس تیزی سے پانی نکالا جا رہا ہے اس سے پانی کی بقا ء کے مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں اور پانی زمین سے مزید نیچے جا رہا ہے۔بھارتی کسان جتنا زیرزمین پانی اکیلے استعمال کر رہے ہیں اتنا چین اور امریکہ مل کر بھی نہیں کر رہے۔وہ ایک کلو چاولوں کی پیداوار کے لئے 6ہزار لٹر پانی زمین سے نکال رہے ہیں جبکہ چین میں اتنی ہی پیداوار کے لئے 6سو لٹر پانی استعمال کیا جاتا ہے۔ پچاس سال سے پانی پر کھلی سبسڈی دی جا رہی ہے۔آبپاشی کے لئے پانی مفت ہے جبکہ بیج‘ڈیزل‘ بجلی اور کھادیں لاگت سے بھی کم قیمت پر میسر ہیں۔یوں بھارت میں 70ملین ٹن اناج اور 15ملین ٹن گنا پیدا ہو رہا ہے اور اس کے لئے اتنا زیادہ صاف پانی استعمال ہو جاتا ہے کہ دوسری جانب بھارت میں سالانہ 2لاکھ بھارتی عوام پانی کو ترستے ہوئے ہلاک ہو جاتے ہیں جبکہ کروڑوں ہیپاٹائٹس جیسی بیماریوں کا شکار ہو تے ہیں۔ (جاری ہے)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024