میاں نواز شریف کی بیرون ملک روانگی سے کافی دنوں بعد سیاسی موسم میں کچھ سردی کا احساس ہوا تو ہم نے اچھے موسم سے لطف اندوز ہونے کا فیصلہ کیا۔ گاڑی نکالی اور رنگ روڈ سے ہوتے ہوئے ایک کافی شاپ جا پہنچے۔ یہاں نوجوان آپ کو ہنستے کھیلتے نظر آتے ہیں، کھاتے پیتے، اٹھکیلیاں کرتے، قہقہے لگاتے دکھائی دیتے ہیں۔ اچھے کھانے اور نسبتاً بہتر آب و ہوا سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہاں آنے کا مقصد نوجوانوں کو خوش و خرم دیکھنا، فطرت سے لطف اندوز ہونا، موبائل سے دور رہ کر خاموش زندگی کی نعمت سے فائدہ اٹھانا ہوتا ہے۔ اکثر اس میں کامیابی ملتی ہے۔ یہیں بیٹا احمد بھی بھاگ دوڑ کرتے نظر آتا ہے تو خود کو اس جیسا جوان محسوس کرنے کا بھی اپنا ہی مزہ ہے۔
کئی ہفتوں سے میاں نواز شریف کی صحت، علاج اور بیرون ملک روانگی پر اتنی ہلچل رہی کہ اپنے لیے وقت ہی نہیں نکل سکا۔ اسی دوران مولانا فضل الرحمان کے نام نہاد آزادی مارچ نے روزمرہ کے معمولات کا دھڑن تختہ کیا تو ہم نے بھی جواب میں ان کے آزادی مارچ کا دھڑن تختہ کر کے جواب دیا۔ مولانا کی واپسی کو باعزت کہا جائے یا اسے کوئی اور نام دیا جائے اس پر اہل علم کی رائے ذرا مختلف ہے۔ بہرحال ہم اسے ناکام واپسی ضرور کہتے ہیں۔ ان کی واپسی اور میاں نواز شریف کی روانگی سے زندگی کچھ دیر کے لیے معمول پر آئی تو خود کلامی کا موقع ملا۔
انسان کو خود سے بات چیت ضرور کرنی چاہیے، کبھی کبھی بہت اچھے خیالات آتے ہیں، شعور کی گہری دنیا میں جھانکنے کا موقع ملتا ہے۔ اللہ کی رحمت ہو تو بہت دور کی چیزیں قریب نظر آنے لگتی ہیں۔ دھندلا منظر واضح ہو جاتا ہے لیکن اس کے لیے کچھ بنیادی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے اس پر پھر کبھی بات کریں گے لیکن ہمیں اپنے لیے ایسے مواقع ضرور بنانے چاہئیں کہ خود سے بات کر سکیں۔ ایک ریسٹورنٹ گئے کچھ کھانے پینے کے لیے منگوایا اور بیٹھ گئے۔ سوچنے لگے کہ یہ کیا ہو رہا ہے، ملک کس طرف جا رہا ہے اور معاشرے میں تقسیم اور فاصلے کتنی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔دور فضا میں جہاز نظر آ رہے ہیں۔ لوگ دنیا کا سفر کر رہے ہیں اور ہم یہاں انگریزی والے سفر میں ہیں۔
پاکستان میں اکثر و بیشتر لوگ میاں نواز شریف کی روانگی کو سیاسی فتح یا شکست کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ کے کارکنان اسے اپنی اپنی فتح قرار دیتے ہوئے ایک دوسرے پر لعن طعن کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ حالانکہ نہ میاں نواز شریف کے یہاں رکنے سے کسی کو کچھ ملنا تھا نہ جانے سے کسی کو انفرادی فائدہ یا نقصان ہوا ہے۔ سیاسی کارکنان اپنے قائدین کی اندھی تقلید کرتے ہیں اور یہی ان کی سب سے بڑی بدقسمتی ہے کہ اوپر سے جو کہا جاتا ہے سب اسے حرف آخر سمجھ بیٹھتے ہیں۔
میاں نواز شریف چلے گئے، انہیں جانا ہی تھا، وہ رکتے بھی تو کیا ہوتا ان کے جانے سے کیا ہو گا۔ وہ بیمار ہیں یا نہیں ہیں انہیں بہتر علاج کی ضرورت ہے یا نہیں یہ بھی الگ بحث ہے۔ اس روانگی نے ایک مرتبہ پھر ہمیں سیاسی، معاشی، اخلاقی اور مذہبی طور پر کہیں بہت دور پیچھے دھکیل دیا ہے۔ اس روانگی نے ایک پاکستان کے خواب کو چکنا چور کر دیا ہے۔ عمران خان دو نہیں ایک پاکستان کے نعرے اور خواب کے ساتھ میدان میں آئے اور اس وعدے اور دعوے کے ساتھ ایوان وزیراعظم میں گئے اور ابھی موجود ہیں۔ یقینا اس روانگی کو وہ بھی دیکھ رہے ہوں گے۔ وہ خود سے پوچھیں تو یقیناً جواب میں انہیں ناکامی اور مایوسی ملے گی۔ کیونکہ وہ جس خواب کے ساتھ یہاں تک آئے تھے اس کا بنیادی فلسفہ ہی انصاف کی فراہمی اور قانون کی عملداری ہے۔ اگر یہی دو شعبے کام نہ کریں نتائج نہ دیں تو یقین مانئے ایک پاکستان کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ حکمران چاہے کوئی بھی ہو وہ عمران خان ہوں یا کوئی اور جب تک قانون سب کے لیے برابر نہیں ہوتا اور انصاف کے ترازو میں امیر و غریب برابر نہیں ہوں گے اس وقت تک کوئی مہم، فلسفہ اور سوچ پروان نہیں چڑھ سکتی کچھ بھی کر لیں کامیابی نہیں مل سکتی کیونکہ یہ قرآن کے احکامات کے منافی ہے۔ سورہ النساء میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو اللہ تمہیں انصاف کی کیا ہی اچھی نصیحت فرماتا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت میں بھی انصاف کا شعبہ بہتر نہ ہوا تو نوجوان نسل کی امیدیں ٹوٹ جائیں گی۔
میاں نواز شریف کا باہر جانا یہ ثابت کرتا ہے کہ ہم آج بھی اس فلاحی ریاست کے قیام سے بہت دور ہیں۔ جہاں مجرموں کو آزادی دے دی جائے، بے گناہ قید ہوں، ڈکیت دندناتے پھریں، قاتل کے خوف سے صلح ہوتی رہے، بھوک رقص کرتی رہے، قانون کی عملداری کہیں نہ ہو وہاں بہتری ممکن ہی نہیں ہے۔ لاقانونیت اور ناانصافی سے بھرا ہوا معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا، ایسے معاشرے کی معیشت جتنی بھی اچھی ہو جائے بے چینی رہے گی، بدامنی نظر آتی رہے گی۔
میاں نواز شریف کا جانا قانون کے دوہرے معیار کی سب سے بڑی مثال ہے۔ایک لمبے کیس کے بعد انہیں سزا سنائی گئی۔ ہم مثال قائم کر رہے ہیں کہ قانون توڑیں، ملکی خزانے کو نقصان پہنچائیں اور پھر موقع ملنے پر آپکو ملک سے باہر بھیج دیا جائے گا۔
عمران خان اپنی مدت پوری کریں اور اس دوران وہ قانون و انصاف کے شعبوں کو بہتر نہ کر سکیں تو یہ ان کی ناکامی ہو گی۔ ایک میاں صاحب گئے ان کے بعد دوسرے پھر تیسرے یہ سلسلہ چلتا رہا تو عوام کا بچا کھچا اعتماد بھی ختم ہو جائے گا۔
پھر ٹریفک سگنل توڑنے والوں کو جرمانہ کیوں کیا جاتا ہے، بھوک کے ہاتھوں مجبور کو چوری پر سزا کیوں دی جاتی ہے، عادی مجرموں کو جیلوں میں بند کیوں کیا جاتا ہے۔ معاشرے میں تحفظ اور امن کا احساس بہتر معیشت سے نہیں قانون کی عملداری سے ہوتا ہے۔
معاشرے میں برابری کا مطلب غریب اور امیر کا مالی حیثیت میں برابر ہونا نہیں ہے۔ دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہے کہ ریاست میں سب مالی لحاظ سے برابر ہوں لیکن اگر کوئی قانون توڑتا ہے یا قانون ہاتھ میں لیتا ہے تو قانون توڑنے والے کے ساتھ امیر یا غریب کا فرق کئے بغیر فیصلہ کیا جاتا ہے۔ برابری کا مطلب قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ نواز شریف پر رحم کھانے والے وزیراعظم ملک میں بیروزگاری کا شکار، بھوک سے تنگ، علاج کی سہولتوں سے محروم اور بیگناہ قیدیوں پر رحم کب کھائیں گے۔ اس سے پہلے کہ کچھ اور سوچتے احمد لینے آ گیا۔ یوں ہم نے ایک پاکستان کا خواب آنکھوں میں سجائے مصروف زندگی میں واپس آ گئے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024