ایسے کیسز کی طرف جارہے ہیں یکطرفہ احتساب کا تاثر ختم ہوجائیگا، ایک شخص لندن ، امریکہ میں علاج کراتا ہے باقی انسان نہیں: چیئرمین نیب
اسلام آباد (نا مہ نگار، نوائے وقت رپورٹ)چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال نے کہا ہے کہ نیب راولپنڈی نے میگا کرپشن کیسز میں پلی بارگین کے ذریعے اربوں روپے کی ریکارڈ وصولی کرکے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، نیب کے یکطرفہ احتساب کا تاثر غلط ہے، 2017کے بعد کوئی میگا کرپشن سکینڈل سامنے نہیں آیا، جو کرے گا وہ بھرے گا، کسی سے ڈیل ہو گی نہ ڈھیل ہو گی اور نہ ہی کسی کو این آر او ملے گا، صحت کیلئے کروڑوں روپے کے فنڈز ہونے کے باوجود ہسپتالوں میں کتے کے کاٹے کی ویکسین دستیاب نہیں ہے، اب صوبہ کارڈ نہیں چلے گا، نیب کارروائی جاری رکھے گا، ملک میں ہسپتالوں کی حالت زار خراب ہے لیکن وہ لوگ زکام کے علاج کیلئے لندن اور امریکہ چلے جاتے ہیں، جن سیاستدانوں کے کیسز نیب میں ہیں وہ دشنام طرازی کی بجائے پلی بار گین کریں اور بیرون ملک جائیں، وہ وقت جلد آئے گا جب ریاست مدینہ اپنی شکل اختیار کرے گی اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب ہم سب اپنا احتساب کریں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے نیب ہیڈ کوارٹرز میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے نیب راولپنڈی کے افسروں میں سرٹیفکیٹس تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ نیب کے تمام افسروں اور اہلکاروں سخت محنت کر رہے ہیں، تمام ریجنز بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں لیکن راولپنڈی بیورو کی کارکردگی سب سے بہتر ہے۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ نیب کا کسی سیاسی جماعت، گروہ اور گروپ سے تعلق نہیں، ہم صرف پاکستان اور اس کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں، ریاست اور حکومت کے درمیان فرق ہے، حکومتیں چلی جاتی ہیں لیکن پاکستان کا قیامت تک تابندہ، پائندہ رہے گا۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ کوئی یہ توقع نہ رکھے کہ وہ صاحب اقتدار ہے اور اسے کچھ نہیں کہا جائے گا۔ انہوں نے نیب کے یکطرفہ احتساب کے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہوائوں کا رخ بدل رہا ہے، پہلے 25سے 30سال کے پرانے مقدمات کو نمٹایا گیا اور اب دوسری طرف جا رہے ہیں، یکطرفہ احتساب کا الزام درست نہیں، جو جماعتیں 30، 35سال اقتدار میں رہیں، جو چند ماہ ہوئے اقتدار میں آئے اس تناظر میں ان کی کرپشن کا جائزہ لینا ہو گا، 2017کے بعد کوئی کرپشن کا میگا سکینڈل سامنے نہیں آیا۔ انہوں نے کہا کہ نیب کے تشخص کو مجروح کرنے کیلئے بے سروپا باتیں کی جا رہی ہیں، بی آر ٹی کیس پر سپریم کورٹ نے حکم امتناعی دیا ہوا ہے، اسی طرح ایم سی بی کے مقدمہ پر بھی لاہور ہائی کورٹ نے حکم امتناعی جاری کر رکھا ہے، ان حکم امتناعی کے خاتمہ کیلئے اقدامات کر رہے ہیں تاکہ ان مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ تنقید برائے تنقید کی بجائے مثبت اور تعمیری تنقید کریں، دشنام طرازی، دھمکیوں اور لالچ کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا، عمر کے اس حصہ میں کوئی سمجھوتہ اور سرنڈر نہیں کروں گا، ڈھیل، ڈیل اور این آر او نہیں ہو گا، کسی سے دوستی، دشمنی نہیں، آئین و قانون کے مطابق کام کریں گے، نیب قوانین نہ پڑھنے والے نیب پر تنقید کرتے ہیں۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ وائٹ کالر کرائم اور دیگر مقدمات کی تفتیش میں بہت فرق ہے، وائٹ کالر کرائم کا کیس لاہور سے شروع ہو کر اسلام آباد سے ہوتا ہوا خلیجی ممالک تک جا ملتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وسائل کو بہترین انداز میں استعمال کرنا ضروری ہے، سکاٹ لینڈ جیسے اداروں کیلئے مقدمات نمٹانے کیلئے وقت مقرر نہیں کیا گیا، یہ شکنجہ کسنا کہ نیب 90دن میں اپنا کام مکمل کرے، بہت مشکل ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی کو پکڑتے ہیں توکہتے ہیں کہ سیاسی انتقام لے رہے ہیں، ہم کیوں سیاسی انتقام لیں گے، ہر آدمی اللہ اور اپنے ضمیر کو جوابدہ ہے، کوئی شخص خامیوں سے پاک نہیں تاہم ان خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنا ہمارے بس میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس کے خلاف شکایت کی جانچ پڑتال، انکوائریاں، انویسٹی گیشن اور بدعنوانی کے ریفرنس دائر ہیں۔ اور وہ نیب کے ریڈار پر ہیں وہ نیب کو کیسے اچھا سمجھیں گے، عوام کو ان لوگوں کے جھانسے میں آنے کی ضرورت نہیں بلکہ لوگوں کو بین الاقوامی معتبر اداروں کی جانب سے نیب کی کارکردگی کے اعتراف کو دیکھنا چاہئے، نیب کے مقدمات میں سزا کی شرح60سے70فیصد ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان100ارب ڈالر کا مقروض ہے، 60فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، اگر ان سے ان رقوم کے بارے میں پوچھا جائے تو یہ سوال کرنا جرم ہے، اگر یہ جرم ہے تو نیب یہ جرم کرتا رہے گا۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ صحت کیلئے کروڑوں روپے کا بجٹ ہونے کے باوجود ہسپتالوں میں بچوں کیلئے کتے کے کاٹے کی ویکسین دستیاب نہیں، ارباب اختیار نے اس بجٹ کو صحیح استعمال نہیں کیا، وہ جوابدہ ہیں چاہے ان کا تعلق کسی بھی صوبے سے ہو، اب صوبہ کارڈ نہیں چلے گا، نیب کارروائی جاری رکھے گا، ملک میں ہسپتالوں کی حالت زار خراب ہے لیکن وہ لوگ زکام کے علاج کیلئے لندن اور امریکہ چلے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جہاں بھی کرپشن ہو گی نیب بلاامتیاز کارروائی کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ مختلف عدالتوں میں 270ریفرنس زیر سماعت ہیں جن کی مالیت 940ارب روپے بنتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بدعنوانی کے ریفرنس سننے والے ججوں کی تعداد 25ہے جسے بڑھا کر 50کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بدعنوانی کے مقدمات کو تیزی سے نمٹایا جا سکے۔ نیب مقدمات میں تاخیر کی ذمہ داری نیب پر عائد نہیں کی جا سکتی، انہوں نے کہا کہ نیب میں پراسیکیوشن میں میرٹ پر بھرتیاں کی گئی ہیں، گذشتہ 2سال کے دوران نیب عوام کیلئے امید کی کرن بن کر سامنے آیا ہے، امید ہے کہ وہ وقت جلد آئے گا جب ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ آج وہ لوگ بھی پس زنداں ہیں جن سے آنکھ سے آنکھ ملا کر بات نہیں کی جا سکتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ نیب عوام دوست ادارہ ہے اور دوسروں کی عزت نفس کا خیال رکھتا ہے، دیگر اداروں کو بھی نیب کے افسران اور اہلکاران کی عزت نفس کا خیال رکھنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہتھکڑی کا کلچر ختم کر دیا ہے، نیب ریمانڈ ختم ہونے کے بعد ملزم عدالتی تحویل میں چلا جاتا ہے، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو نیب سے تصدیق کر لینی چاہئے۔ انہوں نے اکرم درانی کی والدہ کے حوالہ سے خبروں کو مسترد کر دیا، کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ نیب کے کسی دفتر میں کسی خاتون کو نہیں بلایا جائے گا بلکہ نیب کی خاتون افسران سوالنامہ لے کر جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ نیب افسران دوسروں کی عزت نفس کا خیال رکھیں، نیب نے اپنے قیام سے لے کر اب تک 328ارب روپے بدعنوان عناصر سے برآمد کرکے قوم خزانہ میں جمع کرائے ہیں جبکہ 2017سے اب تک ڈیڑھ سو ارب روپے وصول کرکے قومی خزانہ میں جمع کرائے گئے ہیں، ایک صوبہ میں نیب کو کام کرنے نہیں دیا جا رہا، جب ایک کیس درج ہوتا ہے تو ایک وزیر پریس کانفرنس کرتا ہے اور وکیل بن کر کہتا ہے کہ یہ کیس بنتا ہی نہیں، نیب افسران وہاں بڑی محنت اور دلیری سے کام کر رہے ہیں، صاحب اقتدار نیب کیلئے مشکلات پیدا کرنے کی بجائے تعاون کریں، ان سے کسی قسم کی زیادتی نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ گھبرانے اور ڈرانے کا زمانہ گزر گیا۔ انہوں نے کہا کہ کرکٹ کے معاملہ میں بھی شفافیت نہیں، یہ ملک کے وقار کا سوال ہے، سنگین نوعیت کے الزامات ہیں، سری لنکن ٹیم پاکستان آنے والی ہے لہذا نہیں چاہتے ملک کا امیج خراب ہو، چاہتے ہیں کہ ملک میں کھیل کو فروغ ملے، غریبوں، بیواں اور پنشنروں سے کروڑوں روپے وصول کرنے والوں کا یوم حساب آ چکا ہے، وہ لوٹی گئی رقوم واپس کرکے اپنے معاملات حل کریں، نیب اب تک کروڑوں روپے متاثرین میں تقسیم کر رہا ہے۔آئی ایس پی کے مطابق چیئرمین نیب نے کہا کہ اب ایسے کیسز کی طرف جا رہے ہیں جن سے یکطرفہ احتساب کا تاثر ختم ہو جائے گا۔ نجی ٹی وی کے مطابق انہوں نے کہا کہ ایک شخص لندن یا امریکہ سے علاج کراتا ہے باقی انسان نہیں۔