بدھ ‘22 ؍ ربیع الاوّل1441ھ ‘ 20؍ نومبر2019 ء
سڑک سڑک گالیاں سن کر جے یو آئی کے رہنما لطف لے رہے ہیں: فواد چودھری
دھرنے والے مقامات سے گزرنے والے لوگ، ٹرانسپورٹر اور مسافر گھنٹوں خوار ہونے کے بعد بے زاری کی حالت میں شدت جذبات سے مغلوب ہو کر جو کچھ کہتے ہیں اسے لکھا نہیں جا سکتا کیونکہ کوئی بھی اسے پڑھنے کی تاب نہیں لا سکتا۔ اب جو بات فواد چودھری کہہ رہے ہیں اس کو سمجھنے کے لیے کسی سائنس ضرورت نہیں۔ یہ جگہ جگہ سڑکوں پر مختلف شہروں میں لگنے والے دھرنوں نے حقیقت میں عوام کو زچ کر دیا ہے۔ حکومت پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ حکمران اس سے لطف اندوز ہو رہے ہیں کہ عوام ازخود دھرنے والوں کو بے نقط سنا رہے ہیں۔ اس صورتحال میں بھلا انہیں کیا پڑی کہ درمیان میں کود کر اپنی شامت اعمال کو بھی آواز د یں۔ شاید جے یو آئی والے بھی اس صورتحال میں غالب کی طرح
کتنے شریں ہیں ترے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا
کی تصویر بنے ہوں گے۔ اس وقت حکومت قدرے اطمینان میں ہے کیونکہ دو بڑے مسئلوں سے اس کی جان بظاہر نہیں حقیقت میں چھوٹ چکی ہے۔ میاں نواز شریف بیرون ملک جا چکے اور اسلام آباد کا دھرنا حکومت پہلے ہی ختم کرا چکی ہے۔ اب ہر طرف شانتی ہی شانتی ہے۔ حقیقت میں اس وقت ’’گلیاں ہوون سُنجیاں وچ مرزا یار پھرے‘‘ والی حالت ہے۔ بس یہ جو اِدھر اُدھر ادھرنے کام خراب کر رہے ہیں ذرا یہ قابو آ جائیں تو پھر یہی سیاسی میدان ہو گا اور مرزا یار تنہا اس میں چوکے چھکے لگاتے نظر آئیں گے۔
٭٭٭٭
بنگلہ دیش میں پیاز کی قیمت بلند ترین سطح پر پہنچ گئی
ہم اگر ٹماٹر کو رو رہے ہیں تو آرام بنگلہ دیش والوں کو بھی نہیں۔ وہ بھی پیاز کے ہاتھوں آٹھ آٹھ آنسو بہا رہے ہیں۔ یہ پیاز کاٹتے ہوئے بہنے والے آنسو نہیں، پیاز کے ریٹ بڑھنے پر بہنے والے آنسو ہیں۔ ٹماٹر کے بنا تو ہانڈی پک سکتی ہے، دہی بھی ٹماٹر کی کمی پوری کر دیتا ہے۔ مگر اس پیاز کا کیا کریں جس کی فصل تباہ ہونے کی وجہ سے بنگلہ دیش میں یہ سونے کے بھائو بک رہا ہے۔ صرف یہی نہیں اس کی قیمت بڑھنے سے بازار میں بکنے والے کھانوں کی قیمت میں بھی اضافہ ہو گیا ہے کیوں کہ پیاز ہر کھانے میں حتیٰ کہ سلاد تک میں ڈالا جاتا ہے۔ اس کے بنا نہ کھانا بن سکتا ہے نہ سلاد۔ بنگلہ دیشی وزیر اعظم جو مخالفین کو کچا چبا کر کھانے کے لیے مشہور ہیں وہ بھی پیاز کی بڑھتی ہوئی قیمت کی وجہ سے پریشان ہیں۔ مشرقی عورت ہونے کے ناطے وہ جانتی ہیں کہ ہانڈی تیار کرنے کے لیے؎
تھوڑی تھوڑی سی پیاز ڈالی تھوڑا تھوڑا گھی
پھر چمچے سے اس کو ہلاتے رہو جی
کا عمل دہرانا پڑتا ہے اس بنا ہانڈی کہیں نہیں پک سکتی۔ اس لیے انہوں نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ اب کھانوں میں پیاز کا استعمال ترک کر رہی ہیں۔ اس سے کم از کم عوام کا غصہ ضرور کم ہو گا جو پیاز نہ ملنے کی وجہ سے عروج پر ہے۔ حسینہ واجد کو بھی یہی خوف ہے کہ کہیں خلق خدا حکومت کو ہی پیاز کی طرح چھیل کر کاٹنا نہ شروع کر دے۔ ویسے پیاز کی جگہ ا گر چاول عنقا ہوئے ہوتے تو بنگالی کب کا حکومت کو ’’بھات‘‘ بنا چکے ہوتے۔
٭٭٭٭
انتہا پسند وزیر اعلیٰ کا آگرہ کا نام تبدیل کرنے کا فیصلہ
یہ انتہا پسندی بالآخر بھارت کو لے ڈوبے گی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بھارتی حکمران 1947ء میں بھارت کے دو ٹکڑے ہونے سے سبق حاصل کرتے اور ملک میں مذہبی رواداری کو فروغ دیتے تاکہ آئندہ کبھی ایسی تاریخ نہ دہرائی جا سکے۔ افسوس صد افسوس ایسا نہ ہو سکا اور بھارتی حکمرانوں نے اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کا جینا محال کئے رکھا۔ جب سے بی جے پی برسراقتدار آئی ہے اس نے تو تنگ نظری کی انتہا کر دی ہے۔ وہ مسلمانوں سے وابستہ ہر چیز کو مٹانے یا بدلنے پر تلی ہوئی ہے۔ تاریخ پر اس کا بس چل نہیں سکتا اس لیے غصہ سڑکوں عمارتوں اور شہروں کے ناموں پر نکال رہی ہے۔ اس کام میں اتر پردیش کے انتہا پسند وزیر اعلیٰ ادیتہ ناتھ یوگی جسے ڈھونگی لکھنا زیادہ مناسب ہے کو کچھ زیادہ ہی مسلمانوں کے نام والی چیزوں سے چڑ ہے۔ پہلے انہوں نے الہ آباد کا نام بدل دیا۔ نجانے کیوں پریاگ راج رکھا۔ اب کوئی مسلم تو چھوڑیں ہندو بھی جو اپنا نام دیوان الہ آبادی رکھتا تھا وہ بھلا دیوان پریاگ راجوی کیسے لکھ یا رکھ پائے گا۔ اب آدتیہ کا کہنا ہے کہ آگرہ کا پرانا نام ’’آگروان‘‘ تھا ا س لیے وہی رکھا جانا چاہئے۔ اس سلسلے میں ماہرین سے مشورہ کیا جا رہا ہے جو ظاہر ہے وزیر اعلیٰ کی بات پر ہی عمل کریں گے۔ اس طرح
آگرہ سے گھاگرہ منگا دے رتیا
میں تو میلہ دیکھنے جائوں گی
والا گانا بھی بدلنا پڑے گا وہ ’’آگروان‘‘ کی پخ لگنے سے اچھا خاصہ بے سُرا ہو جائے گا اور زبان پر بھی نہیں چڑھے گا۔ سڑکوں کے نام پہلے وہ بدل چکے اب آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ یہ آدتیہ ڈھونگی جیسے لوگ ہی بھارت کو تباہ کرنے کے اصل ذمہ دار ہوتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
امارات میں 65 فیصد انگلش ٹیچر ٹیسٹ میں فیل
یہ اس ملک کا حال ہے جہاں محکمہ تعلیم وقفے وقفے سے اساتذہ کے تربیتی کورس بھی کراتا ہے تاکہ ان کی استعداد میں اضافہ ہو۔ مگر نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ اس پر عرب امارات کے وزیر تعلیم جزبز ہی نہیں باقاعدہ تلملا رہے ہوں گے۔ شاید انہیں علم بھی ہے کہ کوئی بھی ملک صرف بلند و بالا عمارتیں بنا کر ترقی یافتہ نہیں ہو سکتا جب تک وہ ملک تعلیمی میدان میں بلند و بالا مقام نہ حاصل کر لے۔ اسی لیے انہوں نے انگلش پڑھانے والے اساتذہ کا جب ٹیسٹ کروایا۔ اب اس کا نتیجہ ان کے لیے خاصہ مایوس کن ثابت ہوا ہے۔ یہ تو بالکل ہمارے جیسی صورتحال ہے۔ ہمارے ہاں تو اساتذہ کے لیے تربیتی کورسز کا اول کوئی تصور ہی نہیں اگر ہے تو وہ بھی ایسا کہ نہ شرکت کرنے والوں کو دلچسپی ہوتی ہے نہ کورس کرانے والوں کو۔ بس معاوضہ اور ٹی اے ڈی اے عزیز ہوتا ہے۔ سرکاری سکولوں میں بھی اب وہ اساتذہ نہیں رہے جو انگریزی پڑھانا جانتے تھے۔ ماسوائے بڑے بڑے نجی سکولوں کے۔ باقی رہی گھروں میں قائم سکولوں کی حالت تو اس سے کئی گنا زیادہ ابتر ہے۔ اب اگر حکومت بھی اصلاح کی کمر باندھ لے اور ملک بھر میں انگلش کے اساتذہ کے ٹیسٹ لے تو ہمارا نتیجہ عرب امارات سے بھی بدتر نکلے گا کیونکہ یہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ لاکھوں اساتذہ کا پول کھل جائے گا۔ ’’جو پردے میں رہنے دو پردہ نہ اٹھائو‘‘ بھی نہیں کہہ سکیں گے۔ کیونکہ برسوں سے وہ انگلش پڑھا کر تنخواہیں لے رہے ہیں۔ ان کے تو ٹیسٹ کے نام سے ہاتھ پائوں پھولنے لگ جائیں گے…
٭٭٭٭٭