قانونی سیاسی انسانی فیصلے
مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ آئین اور قانون کے مطابق تھا جس کی اجازت اسلام آباد انتظامیہ نے دی تھی مولانا نے دھرنے کے دوران آئین اور قانون کی حدود کی پابندی کی اور قانون کا احترام کیا- دھرنے کے اختتام کا فیصلہ سیاسی بنیادوں پر کیا گیا مولانا جو سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے وہ انھوں نے حاصل کر لئے- البتہ اس میں انسانی پہلو بھی موجود تھا جمعیت علمائے اسلام کے کارکن سخت سردی میں مشکلات کا سامنا کر رہے تھے- حکومتی جماعت سمیت پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں نے مولانا کے آزادی مارچ کے بارے میں سیاسی مذاکرات کیے - پاکستان کی پس پردہ قوتیں بھی آزادی مارچ کی سرگرمیوں سے پوری طرح آگاہ رہیں- مولانا نے سیاسی بنیادوں پر اپنے دھرنے کا اختتام کردیا پرامن اختتام کے بعد سیاسی افواہوں کا بازار گرم ہوگیا- سیاسی تجزیہ نگاروں کے درمیان یہ اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کو چوہدری پرویز الہی اور چوہدری شجاعت حسین کے ذریعے کوئی نہ کوئی یقین دہانی کرائی گئی ہے جس کی بنا پر وہ پرامن طور پر دھرنا ختم کرنے پر آمادہ ہو گئے- پاکستان کی سیاسی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے لوگ اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ پاکستان کا سیاسی منظرنامہ تبدیل ہوسکتا ہے حکومتی جماعت کے خلاف گزشتہ ایک سال سے سلیکٹڈ کے الزامات لگائے جا رہے ہیں - مولانا کے آزادی مارچ نے اس تاثر کو مضبوط بنایا ہے کیا حکومتی جماعت اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرکے اس تاثر کو زائل کر سکے گی- ابھی تک حکومتی جماعت نے پنجاب میں کوئی ایک بھی پبلک ریلی نہیں کی جس سے اندازہ لگایا جاسکے کہ پاکستان کے عوام حکومتی جماعت کے ساتھ اسی طرح کھڑے ہیں جس طرح وہ انتخابات سے پہلے کھڑے تھے- حکومت نے آزادی مارچ کے سلسلے میں قانونی اور سیاسی طاقت استعمال کرنے سے گریز کیا-
میاں نواز شریف کی عدالتی ضمانت ان کے علاج اور پاکستان سے باہر جانے کی اجازت کے سلسلے میں بحث و مباحثہ عمومی طور پر انسانی اور طبی بنیادوں پر کیا جارہا ہے ۔ حکومتی جماعت اور اپوزیشن دونوں کے لیڈران سیاسی پوائنٹ سکورنگ کر رہے ہیں پاکستان کے عوام کو یہ نہیں بتایا جارہا کہ کیا عدالتی اور حکومتی فیصلے آئین اور قانون کے مطابق ہو رہے ہیں یا صرف انسانی بنیادوں پر ہی کئے جارہے ہیں اور کیا آئین میں یہ گنجائش موجود ہے کہ عدالت یا حکومت انسانی بنیادوں پر ماورائے آئین اور قانون بھی فیصلے کر سکتے ہیں- پاکستان کے وزیراعظم عمران خان بڑے تواتر اور تسلسل کے ساتھ یہ دعوے کرتے رہے ہیں کہ وہ کسی صورت این آر او نہیں دیں گے کیا ایک سزا یافتہ شخص کو بیرون ملک علاج کی اجازت دینا این آر او کے زمرے میں نہیں آتا جبکہ پاکستان کی عدالتی اور حکومتی تاریخ میں پہلے اس کی کوئی مثال بھی موجود نہ ہو پاکستان کی عدالتی اور سیاسی تاریخ میں یہ ناخوشگوار روایت عمران خان کے نام لکھی جائے گی-تمام بیمار سیاست دانوں کو بیرون ملک علاج کی سہولت دینی پڑے گی۔
پاکستان کے عوام کے ذہنوں میں یہ تاثر گہرا ہوتا چلا جارہا ہے کہ پاکستان میں چہرے دیکھ کر فیصلے کیے جاتے ہیں- سوال یہ ہے کہ کیا کابینہ کو یہ اختیار نہیں تھا کہ وہ یہ فیصلہ کرتی کہ میاں نوازشریف کو آئین اور قانون کے مطابق بیرون ملک علاج کرانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی لہٰذا حکومت ان کا نام ای سی ایل سے نہیں نکالے گی- اگر حکومت قانونی روایات کے مطابق یہ فیصلہ کرتی تو پاکستان بھر میں اس کے اس فیصلے کو سراہا جاتا اور اسے وزیراعظم کے پرانے موقف کے عین مطابق قراردیاجاتا مگر حکومت نے انڈیمنیٹی بانڈ کی شرط لگا کر ای سی ایل سے نام نکالنے کا فیصلہ سیاسی اور انسانی بنیادوں پر کیا ہے اور ابھی لاہور ہائیکورٹ نے اس قانونی سوال کا جائزہ لینا ہے کہ کیا سزا یافتہ شخص کا نام ای سی ایل سے سے باہر نکالا جا سکتا ہے اور اسے بیرون ملک علاج کی اجازت دی جاسکتی ہے - لاہور ہائیکورٹ کے محترم جج اگر چاہتے تو وہ 24 گھنٹے سماعت کرکے مکمل فیصلہ دے سکتے تھے مگر انہوں نے بھی میاں نواز شریف کی صحت کے حوالے سے ایک عبوری فیصلہ دے دیا ہے جس کے نتیجے میں میاں نواز شریف چار ہفتے کے لئے پاکستان سے باہر علاج کے لئے جا سکتے ہیں البتہ لاہور ہائیکورٹ نے میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف دونوں سے سے حلفیہ بیان لے لیا ہے کہ میاں نواز شریف صحت یاب ہوتے ہی پاکستان واپس آجائیں گے سب جانتے ہیں کہ میاں صاحب کی واپسی کا انحصار ڈاکٹروں کی رپورٹ پر ہوگا اللہ کرے میاں صاحب جلد صحت یاب ہوکر پاکستان واپس آجائیں تاکہ ان کی سیاسی جماعت مسلم لیگ نون کا سیاسی مستقبل روشن رہے- اب یہ اللہ تعالی ہی جانتا ہے کہ میاں صاحب کو صحت مند ہونے میں کتنا وقت لگ جائے گا۔
میاں نواز شریف کے پاکستان سے باہر جانے کے بعد عدالت اور حکومت دونوں کے لیے یہ سوال کھڑا ہوگیا ہے کیا جیلوں میں ایسے قیدیوں پر بھی یہ اصول لاگو ہوگا جو مختلف نوعیت کی شدید بیماریوں میں مبتلا ہیں اور ان کو جیلوں میں علاج معالجے کی معیاری سہولتیں فراہم نہیں ہیں اگر پاکستان میں آئین اور قانون کی حکمرانی کا نظام رائج ہو چکا ہوتا تو کوئی بڑے سے بڑا شخص بھی عدالت اور حکومت وقت پر غیر آئینی اور غیر قانونی دباؤ ڈالنے کی جرات ہی نہ کرتا - جب تک آئین اور قانون کی حکمرانی کی روایت مضبوط اور مستحکم نہیں ہوگی امیر طبقے کے افراد اس کمزوری سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔ میاں نواز شریف کے دور حکومت میں جب جنرل مشرف نے پاکستان سے باہر علاج کے لیے جانے کی اجازت مانگی تو مسلم لیگ نون کے لیڈروں کے بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں کہ انہوں نے سخت مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ایک ملزم کو کسی صورت پاکستان سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی کیونکہ ایسی کوئی مثال پاکستان کی تاریخ میں موجود نہیں ہے۔ ان بیانات کی روشنی میں مسلم لیگ نون کے لیڈروں کا اخلاقی موقف تو یہی ہونا چاہیے تھا چونکہ انہوں نے جنرل پرویز مشرف کی بیرون ملک علاج کی مخالفت کی تھی لہذا وہ میاں نواز شریف کے بیرونی ملک علاج کے لیے بھی عدالت یا حکومت سے اجازت طلب نہیں کریں گے۔ سیاستدانوں کے اس دوہرے معیار نے پاکستان میں جمہوریت اور سیاست کو کمزور کیا ہے جس کی وجہ سے ریاست کے طاقتور ادارے حسب منشا سیاست اور جمہوریت پر بالادستی اختیار کر لیتے ہیں۔ اگر پاکستان کے سیاستدان مثالی اور معیاری جمہوریت اور سیاست کا نمونہ پیش کریں تو کوئی طاقتور ادارہ سیاست میں مداخلت کرنے کی جرات نہیں کرسکتا- عمران خان اگر ایسے تمام حکمرانوں پر پاکستان سے باہر علاج کرانے پر پابندی عائد کر دیتے جنہوں نے پاکستان میں معیاری ہسپتال تعمیر نہ کرکے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا تو پاکستان کے عوام یقین کرنے لگتے کہ وہ نئے پاکستان میں داخل ہوچکے ہیں جو ریاست مدینہ بننے جا رہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی عدلیہ سے اپیل بروقت اور موزوں ہے کہ عوام کا تاثر تبدیل کیا جائے کہ پاکستان میں امیر اور غریب کے لئے الگ الگ قوانین ہیں۔