عدل و انصاف کی اہمیت
امام غزالی ؒنے صرف عدل کی اہمیت واضح کرنے اور سمجھنے کے لئے یہ بات کی کہ عدل انفرادی اور اجتماعی سطح پر نافذ کرنا ضروری ہے۔ اسے عدالتوں تک محدود کرنا اس کی ہمہ گیریت حیثیت کے ساتھ زیادتی ہے۔ اسی طرح عام آدمی بھی عدل کو اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتا‘ حالانکہ ہر فرد کے لئے عدل کرنا اس کی زندگی کو سنوارنے کے لئے ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ اجتماعی انسانی زندگی کی ہر ہر اکائی کے ساتھ عدل کرنے کی ذمہ داری ہر فرد پر عائد ہوتی ہے۔ یعنی فرد معاشرہ سے عدل کرے‘ معاشرہ فرد سے عدل کرے‘ عوام حکومت کے ساتھ عدل کریں‘ حکمران عوام کے ساتھ عدل کریں تو پھر ایک ایسا عادلانہ نظام قائم ہوسکتا ہے جہاں کسی کی حق تلفی نہیں ہوگی کسی پر ظلم نہیں ہوگا‘ کہیں منافقت نہیں ہوگی‘ کہیں کرپشن اور بدعنوانی نظر نہیں آئے گی۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں اور جنوں کی تخلیق کا صرف ایک ہی مقصد قرآن مجید میں بیان کیا ہے اور واضح انداز میں فرمایا ہے کہ ہم نے جنوں اور انسانوں کو سوائے اپنی عبادت کے اور کسی مقصد کے لئے پیدا نہیں کیا۔ جن یہ کام کس حد تک انجام دے رہے ہیں یہ انسانوں کے سوچنے اور غور کرنے کا مقام نہیں۔ البتہ انسان اپنے بارے میں سوچے کہ میرے خالق نے مجھے اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا ہے اس کی عبادت نہ کرنا، عدل کے منافی رویہ ہے۔ چنانچہ عبادت کو بھی جو ہمہ گیریت حاصل ہے اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے اس کو نہ سمجھنا عبادت سے عدل نہیں۔ اس کو اس کے مروجہ معنوں تک محدود کر دینا یعنی اسے نماز، روزہ یا ارکان اسلام کی پابندی کا نام دے کرخود کو عبادت گزار سمجھنا شروع کردینا، عدل نہیں کیونکہ اس عبادت کو حقوق کے حوالے سے تقسیم کردیا گیا ہے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد اور پھر بندوں کے ساتھ حقوق کی آگے مفصل تفہیم ہے۔ ان حقوق کی اللہ کے حکم کے مطابق ادائیگی عبادت ہے۔ اپنے ساتھ عدل کی دوسری شکل اپنے جسم اور روح کے ساتھ عدل ہے جس کے تقاضے پورے کرنے کیلئے خوراک سے لیکر رہائش تک سبھی کے بارے میں ایک عادلانہ راہ ہے اور ایک غیر عادلانہ۔ اگر خوراک میں حلال، حرام کا امتیاز روا رکھا جائے تو یہ عدل ہوگیا، اسے نظر انداز کردیا جائے تو یہ عدل سے انکار ہوگیا۔
خاندان کا نظام تباہ ہورہا ہے، احساس ذمہ داری ختم ہو چکا ہے، محبتیں دم توڑ رہی ہیں، منافقت اور جھوٹ کو فروغ حاصل ہے۔ ایسے میں عدل ایک ناگزیر ضرورت بن جاتا ہے۔ خاندان کے علاوہ معاشرہ اور ملک میں بھی عدل ضروری ہے۔ سیاسی عدل، عدالتی عدالت، معاشرتی عدل، معاشی عدل، مذہبی عدل، صحافتی عدل اور انتظامی یا حکومتی عدل، آج اگر غور کریں تو سیاستدان جو کہتے ہیں، وہ کرتے نہیں اور حد تو یہ ہے کہ جب کہتے ہیں تبھی وہ اسے نہ کرنے کا دل میں فیصلہ کرلیتے ہیں۔ سیاسی بیان بازی اور شعبدہ بازی کے سوتے اس سیاسی عدل کو نظر انداز کرنے سے پھوٹتے ہیں، سیاسی عدل یہ ہے کہ سیاست میں آنے والا خدمت کے جذبہ سے آئے، اقتدار کا حصول اس کا مقصد نہ ہو وہ سیاسی منشور سوچ سمجھ کر تیار کرے۔ اس حقیقت کو بنیاد بنائے جو وطن کیلئے مفید ہو۔ عدالتی عدل جسے ہم عدل کی واحد صورت سمجھ بیٹھے ہیں اس کا اہتمام تواتنا ضروری ہے کہ جہاں ہر شے تباہ ہوجائے اگر عدالتیں عدل مہیا کرنے میں صرف حق اور سچ کو پہچانیں تو وہ قوم مکمل تباہی سے بچ جاتی ہے۔ اس عدل کی فراہمی میں ہمارا حال مثالی نہیں، ہمارا نظام عدل جن بھیانک معاشرتی اور قانونی رویوں سے تباہ ہوا ہے ان رویوں کو ترک کرنے کی ضرورت ہے۔ معاشی عدل بھی سیاسی اور عدالتی عدل کی طرح بہت اہم ہے۔ آجر کا اجیر کے ساتھ اور اجیر کا آجر کے ساتھ عدل۔ سرمایہ کاروں، سرمایہ داروں، صنعتکاروں، تاجروں، دکانداروں، صارفین سبھی کا اپنے اپنے دائرہ میں عدل کرنے کا ایسا مضبوط حوالہ ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ عدل ان کے دل کی آواز بن کر ان کے سامنے آتا رہتا ہے۔ معاشی عدل یہ ہے کہ جس روز پٹرول کی قیمتیں بڑھیں پٹرول پمپوں پر موجود پٹرول جو سابقہ نرخوں پر خریدا گیا تھا۔ سابقہ نرخوں پر بیچا جاتا مگر پورے پاکستان میں ایک پٹرول پمپ بھی ایسا نہیں جس کے مالکان نے یہ معاشی عدل کیا ہو۔ اگر آج قیمتیں کم ہو جائیں تو وہ سٹاک میں موجود تیل کی قیمت کم نہیں کرینگے۔ دوسری طرف قیمتوں میں اضافہ کے اعلان کے ساتھ قیمت بڑھا دیتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں معاشی عدل کو بطور مثال کے بھی سامنے نہیں لایا جاسکتا۔
مذہبی عدل کے فقدان نے فرقہ واریت کو ہوا دی اوراسلام کے اعلیٰ و ارفع اصولوں کواختیار کرنے کی ترغیب دینے والے حالات پیدا کرنے کی بجائے ان سے گریز کرنے والے حالات پیدا کئے۔ صحافی عدل سچ کو پھیلانا اور جھوٹ کو دبانا ہے۔ کلمہ حق کہنا ہے اور اس کے لئے اپنی مرضی کا معیار مقرر و متعین کرنے کی اجازت نہیں۔ یہ خود فریبی ہے، صحافت کی تشریح و تعبیر میں اگر اپنے موقف کو درست ثابت کرنے کیلئے رائج غلط حوالوں کی مدد لے کراپنے موقف کی حمایت بھی حاصل کر لی جائے تو بھی یہ خود فریبی ہی کہلائے گی۔ آج صحافتی عدل نظر نہیں آرہا۔ مفاد پرستی، ذاتی تشہیر، انتقامی طرز عمل، کذب بیانی اورغیر تصدیق شدہ کی اشاعت (خواہ ان باتوں کا سبب کچھ بھی ہو) اس عدل کو اپنے پنجوں میں اپنی مضبوطی سے پکڑ چکا ہے کہ ابھی تو اسی عدل کی رہائی کی ضرورت ہے۔ انتظامی عدل کا بھی بیڑا غرق ہو چکا ہے۔ حکومت کی طاقت کے بل بوتے پر من پسند فیصلے کرنے کی ایسی وبا وطن عزیز میں پھیل چکی ہے کہ اس کی لپیٹ میں ہر حکمران آجاتا ہے اور پھر حکومتی عدل کی ذمہ داری کو نظرانداز کر کے حکومتی ظلم و ناانصافی کا جو چلن یہاں رواج پا چکا ہے اس سے حکمرانوں میں کوئی بچ جائے تو یہ اس کی بہت بڑی خوش بختی ہی قرار پائے گا۔ عدل کا انفرادی‘ اجتماعی اور حکومتی سطح پر نظرانداز ہونا‘ عدالتی سطح پر مطمئن نہ کر سکنا اور مذہبی عدل کی روح کو نہ سمجھنا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ آیئے آج اور ابھی سے ’’یومِ عدل‘‘ منانے کا اعلان کریں۔ ایسا یوم جو سورج غروب ہونے کے بعد بھی ختم نہ ہو بلکہ اس وقت تک جاری رہے جب تک عدل قائم نہیں ہو جاتا‘ ایسا یوم جو ہمیں انفرادی اور اجتماعی عدل پر چلنے پر آمادہ کرے‘ منائیں اور قوم کو انفرادی اجتماعی عدل کی ضرورت سے آشنا کریں۔ یہ ایک نیا یوم ہوگا اپنی طرز کا بالکل ہی الگ یوم۔
اس کاوش میں کہن تک میں عدل کر سکا ہوں اس میں صرف اس صورت میں مطمئن ہوں کہ محدود علم اور اس سے بھی محدود تجربے اور سب سے زیادہ محدود وقت میں میری یہ کاوش نیک نیتی اور ’’فلاح کی طرف آئیے‘‘ کی طرف قدم اول شمار ہو سکتی ہے۔ میرے جملہ اہلِ خانہ نے مجھے گھر میں یکسوئی فراہم کی‘ اس پر ودہ زبانی شکریہ کے تکلف سے بہت زیادہ حقدار ہیں۔ اللہ ان سب کو اجرِ عظیم عطا فرمائے۔ میرے کمپوزر محمد سرور خان اور صائمہ نوید نے بھی مسورے کو جس طرح تیار کر کے مجھے گھر پر پہنچایا اور پھر ٹریسنگ لے کر نوجوان پبلشر علامہ عبدالستار عاصم کے حوالے کیا اس پر علامہ صاحب نے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر اس کی اشاعت اور ترسیل کا س طرح اہتمام کیا اس سے میرا یہ تاثر بہت قوی ہو گیا کہ انہوں نے عدل کے عملی نفاذ کی ابتداء کر دی ہے۔ وما توفیقی الا باللہ