قانون مکڑی کا جالا یا موم کی ناک
چوری کے ایک مقدمہ میں آپؐ نے فاطمہ مخزومیہ کے حوالے سے فرمایا کہ ’کیا تم ایک عورت کی اس لیے سفارش کرتے ہو کہ وہ بڑے خاندان کی ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ ڈالتا‘ حضورپرنور سے بڑا خاندان کس کا ہو سکتا ہے؟ لیکن آپ ؐنے یہ تعلیم دی کہ جرم کی سزا یکساں ہے، چاہے کسی بڑے خاندان کا فرد جرم کرے یا کسی چھوٹے خاندان کا۔ معاشرے میں عدل قائم ہوگا تو مساوات کا ماحول پیدا ہوگا۔اب پنجابی کی ایک کہاوت ’’ہل لمبا ڈال لینا‘‘ہے۔ کہاوت کچھ یوں یہ ہے کہ کسی گائوں کے ایک مولوی صاحب سے کسی نے پوچھا کہ فلاں جرم کی سزا کیا ہے؟ مولوی صاحب نے جواب دیا کہ ہَل زمین پر کھڑا کر کے اس کے برابر روٹیوں کا ڈھیر لگایا جائے اور پھر وہ ڈھیر صدقہ کر دیا جائے۔ توسزا معاف۔ اس شخص نے بتایا کہ مولوی صاحب! یہ جرم آپ کے بیٹے نے کیا ہے۔ یہ انکشاف ہوتے ہی مولوی صاحب فوراً بولے کہ اگر ہل زمین پر لٹا کر اس کے برابر روٹیوں کا ڈھیر اکٹھا کیا جائے تو بھی ٹھیک ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کھْل کر لوٹ مار کرو، قوم کی غربت کا مذاق اڑائو، بیمار ہوجائو تو سب معاف۔ قوم پر ’’فرض‘‘ ہے کہ آپ کے لئے دعا بھی کرے، آپ کے نعرے بھی لگائے، آپ کو پیسہ لوٹنے کی اجازت بھی دے اور اس کے بعد آپ کے بچوں کے لئے اپنے بچوں کی صورت ’’ووٹ بنک‘‘ بھی چھوڑ جائے۔پہلے این آر او ہوا تو جدہ تشریف لے گئے۔ سوٹ کیس بھرے، باورچی اور نوکروں کے جتھے کے ہمراہ اٹک قلعہ سے طیارہ میں سوار ہوئے اور سرور محل کے سرور میں جااترے۔ غریب آدمی کو ایک دن کی تاخیر مقدمہ کا لحاظ نہیں ملتا ۔گستاخی معاف ! ریاست مدینہ تو دور بہت ہی دور کی بات ہے ، یہ چلن تو ریاست کفر کا بھی نہیں۔ امریکہ، برطانیہ، یورپ کی مثال دینے والے بتائیں کہ کیا یہ چونچلے اْن معاشروں میں تصور میں آسکتے ہیں۔ جرم پر وضعداری ، وضعداری اور انصاف کی توہین ہے۔ یہ وضعداری ہے تو پھر اڈیالہ، لانڈھی، مچھ، کوٹ لکھپت اور دیگر عقوبت خانوں میں عام قیدیوں کے لئے یہی جذبہ دکھائیں ورنہ قوم کو معاف کردیں۔ یہ ڈرامہ بازی اب ختم ہونی چاہئے۔ بے ساختہ وہ بیانات بھی یاد کیجئے جونون لیگ کے رہنما اقتدار کی کچی منڈیر پر بیٹھ کر طوطے کی طرح گردان کیاکرتے تھے لیکن آسمان رنگ کیسے بدلتا ہے اور سیاستدان اپنا کہا ہوا کیسے مٹاتے اور چاٹتے ہیں، نوازشریف کی بیرون ملک روانگی اور علاج کے لئے ’منت ترلے‘ اس کی نادر مثال ہے۔
ایک بات طے ہے کہ تمام تر یقین دہانیوں کے باوجود نوازشریف وقت مقررہ پر عدالت بلانے پر واپس نہیں آئیں گے ویسے یہ بھی کیا عجب مذاق ہے کہ ضمانت دہندہ بھی بیمار کے ساتھ باہر جارہا ہے وزیر اعظم عمران خان نے بھی درست کہا تھا کہ اپنے پیارے والد کے لئے بیٹے ہر چیز داؤ پر لگا دیا کرتے ہیں لیکن دونوں بیٹوں حسن اور حسین نے پاکستان کا رخ کرنے کا سوچا بھی نہیں۔ مشاہد حسین ہوں یا احسن اقبال سب اپنے اپنے عافیت کدوںمیں سیاست سیاست کھیل رہے ہیں صرف مریم اورنگ زیب میدان میں ہیں اور ‘‘جوان مردی’’ سنگ دشنام اور تیر الزام کے سامنے سینہ سپر ہیں ۔ (ختم شد)