نہ بابری …نہ برابری
اس بات سے بھلا کون انکار کر سکتا ہے کہ کسی بھی ملک و قوم کے لئے ممکن نہیں کہ وہ اپنا ہمسایہ بدلنے کا اختیار رکھتا ہو، اسی بدیہی حقیقت کے پیش نظر پاکستان 72 سال میں اپنی تمام تر کوشش اور خواہش کے باوجود دہلی کے حکمران گروہ کو تاحال قائل نہیں کر سکا کہ اگر وہ خطے میں حقیقی امن و سلامتی کے خواہاں ہیں تو اپنی روش تبدیل کر کے بقائے باہمی اور عدم مداخلت کے بنیادی اصولوں پر عمل پیرا ہوں، مگر اس مقصد میں قطعاً کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ پاکستان کی تمام حکومتیں دیگر معاملات میں اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود ہمیشہ سے اس امر کی خواہشمند رہی ہیں کہ کشمیر کے دیرینہ مسئلے سمیت سبھی تنازعات کو حل کیا جائے مگر اے بسا آرزو کہ خاک شد۔ مملکت پاک کی جانب سے بھارت کو کسی بھی وقت، کسی بھی جگہ اور کسی بھی سطح پر مذاکرات کی دعوت بھی دی جاتی رہی مگر ہندوستانی حکمرانوں نے اس جانب کان نہیں دھرے۔
ماہرین کے مطابق دہلی کے حکمرانوں نے اپنے ہر قول اور فعل سے اگرچہ بارہا یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اول تا آخر متعصب ہندو نظریات کے حامل ہیں اور ان کے سیکولرازم اور انسانیت کے تمام تر دعوے محض لفاظی کے سوا کچھ نہیں مگر جس طور بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ کے ذریعے عدل کا ’’خون‘‘ کیا ہے اس کی مثال ڈھونڈنے سے بھی کم کم ہی ملتی ہے۔ ایک جانب بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے پانچ رکنی بینچ کے سامنے اقرار کیا کہ ماضی میں یہاں کوئی رام مندر ہونے کا ٹھوس دستاویزی ثبوت تو نہیں مگر دوسری طرف مذکورہ بینچ نے محض بھارت کی ہندو اکثریت کے متعصب جذبات کی تسکین کیلئے اس کا فیصلے جنونی ہندوئوں کے حق میں کر دیا۔ اگرچہ بھارتی عدل و انصاف کی ’’برہمنی روایات‘‘ سے یہ غیر متوقع نہیں ۔ بھارتی چیف جسٹس رنجن گنگوئی کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے یہ فیصلہ سنایا۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جسٹس رنجن نے یہ فیصلہ اپنی ریٹائرمنٹ سے محض ایک ہفتہ قبل سنایا ہے، 17 نومبر کو موصوف ریٹائر ہو گئے ہیں ، ویسے بھی یہ فیصلہ 16 یا 17 نومبر کو سنایا جانا تھا مگر جانے کن وجوہات کی بنا پر انتہائی عجلت میں یہ فیصلہ سنایا گیا۔ رام مندر کی تعمیر کے فیصلے کے بعد بھارت بھر کے مسلمانوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے ۔مبصرین کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ کے اس فیصلے میں عجلت کی وجہ یہ بھی تھی کہ کرتار پور کاریڈور کا افتتاح چونکہ 9 نومبر کو ہوا اور اس کی وجہ سے مودی سرکار انتہائی دبائو میں تھی اس لئے وہ عوامی توجہ ہٹانے کیلئے کچھ جنونی ہندو جذبات کی تسکین چاہتی تھی، جس کی وجہ سے یہ سب کچھ فوری طور پر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ چھ دسمبر کو بھارت کے تمام مسلمان گذشتہ ستائیس سالوں سے یومِ سیاہ کے طور پر منا تے آ رہے ہیں کیونکہ اس دن 1992 میں بھارتی صوبے یو پی میں جو سانحہ رونما ہوا اس نے پورے بر صغیر کے امن و امان کو تہہ و بالا کر کے رکھا دیا تھا۔ اس روز ایودھیا میں بابری مسجد شہید کر دی گئی ، اس کے فوری نتائج تو یہ برآمد ہوئے کہ ہندوستان بھر میں مسلم کش فسادات کے دوران چند ہی دنوں میں ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کو تہہ تیغ کر دیا گیا اور افسوسناک بات یہ ہے کہ ستائیس سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود اس جرم عظیم کے مرتکب کسی بھی ایک فرد کو سزا نہیں دی گئی جس سے بھارت کی نام نہاد جمہوریت اور سیکولرازم کا اصل چہرہ بڑی حد تک دنیا کے سامنے پھر بے نقاب ہو چکا ۔ یہ الگ بحث ہے کہ مغربی دنیا نے اپنے سطحی مفادات کی خاطر اس جانب ہنوذ خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔یاد رہے کہ بھارت نے اپنی آزادی کے بعد سے نہ صرف مغربی دنیا، بلکہ عالم ِ اسلام کے اکثر ممالک کو بھی طویل عرصے تک یہ تاثر دیے رکھا کہ ہندوستان میں جمہوریت قائم ہے اور اس ملک کے مسلمان باشندوں کو کسی امتیازی سلوک کا نشانہ نہیں بنایا جاتا اور اگر کہیں مسلم کشی کے واقعات پیش آتے بھی ہیں تو انھیں حکومتی سرپرستی حاصل نہیں ہوتی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کا یہ چہرہ پوری طرح مصنوعی تھا اور گذشتہ 72 برسوں کے دوران وہاں بر سر اقتدار آنے والی ہر حکومت کے دور میں مسلمانوں پر بے پناہ مظالم ڈھائے گئے اور انھیں اجتماعی اور انفرادی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
توجہ طلب امر ہے کہ واجپائی نے بھی اس حقیقت کا اعتراف ایک سے زائد بار ان الفاظ میں کیا تھا کہ ہندوستانی مسلمانوں کا اصل مسئلہ ’’بابری‘‘ نہیں بلکہ ’’ برابری کا ہے‘‘۔ اس کی وضاحت کرتے موصوف نے یہ فلسفہ جھاڑا تھا کہ ’’بھارتی مسلمانوں کو بابری مسجد کی شہادت اور اس کی تعمیر نو کا مطالبہ کرنے کی بجائے اپنی ساری توانائیوں اس مطالبے کو منظور کرانے کی طرف مبذول کرانی چاہئیں کہ انھیں ہندوستان میں زندگی کے ہر شعبے میں برابری کے حقوق میسر آنے چاہئیں‘‘۔ واجپائی کے اس بیان میں جو اعترافِ گناہ پوشیدہ ہے وہ یقیناً عذر گناہ بد تر از گناہ والی بات ہے مگر بظاہر اس سادہ سی بات میںجو تلخ حقائق چھپے ہیں ان پر پوری عالمی برادری کو توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہی بات پاکستان بھی مسلسل 72 برسوں سے کہہ رہا ہے۔ اور بھارتی مسلمان بھی مسلسل فریاد کرتے رہے ہیں کہ انھیں ہندوستان میں برابری کے شہری حقوق میسر نہیں اور یہ کسی بھی جمہوری معیار کے بنیادی تقاضوں کے منافی ہے۔ یہ امر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مسلم دشمنی میںکانگرس بھی BJP سے کچھ زیادہ پیچھے نہیں اور وہ دراصل ’’ سافٹ ہندوتوا‘‘ کی پالیسی پر بتدریج عمل پیرا ہے۔ ماہرین کے مطابق دہلی کے حکمران یوں تو انسان دوستی کے دعوے کرتے نہیں تھکتے مگر ان کا پول آئے دن کسی نہ کسی صورت میں کھلتا رہتا ہے ۔ گذشتہ روز مہاراشٹر میں شیو سینا کے سربراہ ادت ٹھاکرے نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ RSS اور BJP نے خود پر جو لبادہ اوڑھ رکھا ہے، اس منافقانہ روش کو ختم کر کے اپنی اصلیت دنیا پر واضح کرنی چاہیے۔ امید کی جانی چاہیے کہ عالمی برادری اس بھارتی منافقانہ روش پر سنجیدگی سے توجہ دے گی۔