گاہک کو عزت دیں
مکرمی! جب سے بنک کی ملازمت اختیار کی ہے یہ ہی بتایا جا رہا ہے کہ کسٹمر از کنگ‘ کسٹمراز آلویز رائٹ‘ وی آر بی کاز آف کسٹمر۔ لیکن شاید ہم نے گوروں کی تمام باتیں صرف یاد رکھنے اور لکھنے کیلئے محفوظ کی ہیں جیسا کہ گوروں کا قانون جسے ہم نے بڑے اچھے اچھے نام دیکر کتابوں میں محفوظ کرلیا ہے۔ اس پر عمل تو تب ہوتا اگر انگریز سرکار ہوتی کیونکہ یہ انہی کا قانون ہے۔ لہٰذا اس کا نفاذ بھی ان ہی کی ذمہ داری ہے۔ ہمارا کام تو بس یہ ہے کہ اسے سنبھال کر رکھیں تو بات ہو رہی تھی کسٹمر کی جسے ہم بادشاہ کا رتبہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو وہ کہے‘ وہ ہی درست اور ہماری بقا ہی اسی سے منسلک ہے۔ تو دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ بنک منیجر آپریشن منیجر کی گاڑیوں کیلئے جگہ مخصص کر دی جاتی ہے اور تختیاں لگتی ہوتی ہیں۔ پارکنگ برائے منیجرز کار وغیرہ تو کیا کہیں کنگ کیلئے بھی کوئی پارکنگ کی تختی لگتی ہوتی ہے۔ شاید نہیں کیونکہ کسٹمر کنگ بھی تو کتابوں میں ہی ہوتا ہے۔ بعض جگہوں پر تو بادشاہوں کو قطار میں کھڑا رکھاجاتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم کسٹمر کو کنگ کی بجائے صرف انسان ہی سمجھ لیں۔ اللہ کا بندہ اور اشرف المخلوقات سمجھ لیں۔ سب سے زیادہ عزتوں والے نبیؐ نے تو ہمیں سبق دیا ہے کہ اگر جھک جانے یعنی عاجزی اختیار کرنے سے تمہاری عزت گھٹ جائے تو قیامت کے دن مجھ سے لے لینا۔ ۔ ذرا سوچئے کہ اگر کوئی بڑا آدمی آپ کے پاس اپنا نوکر بھیجے تو کیا آپ اس ملازم کے ساتھ عزت سے اس لئے پیش نہیں آتے کہ یہ فلاں صاحب کا ملازم ہے اور اگر اس نے جا کر آپ کے رویئے کی شکایت کر دی تو؟ (اعجاز احمد)