1977ء اور 2019ء
پچھلے کچھ دنوں سے پولیٹکل سائنس کے ایک ادنیٰ طالبعلم کی حیثیت سے اس کوشش میں ہوں کہ سمجھ سکوں کہ کیا ملک کے موجودہ سیاسی حالات ایک دفعہ پھر ہمیں اسی مقام کی طرف لے جا رہے ہیں جہاں 1977ء میں بھٹو کے خلاف اسلامی انقلاب کے نام پر ایک ایسی تحریک چلوائی گئی جو اپنا کوئی ایک ہدف تو حاصل نہ کر سکی لیکن جہاں اس نے ایک طرف بھٹو صاحب کو ایک دردناک انجام سے دوچار کیا وہیں پر اس نے ایک ایسا ستم ڈھایا کہ اس دن سے اس ملک کی سیاست میں مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں کے ہاتھ میں ایک ایسا ہتھیار آ گیا کہ پھر ملک کی تاریخ میں کوئی ایسا دور نہیں آیا جب اس کارڈ بلکہ ہتھیار کا بے دریغ استعمال نہیں کیا گیا۔ 1977ء کے بعد اسکی روشن مثالیں دیکھنا چاہیئں تو غلام اسحاق کے دور میں پاکستان قومی اتحاد کی طرز پر اسلامی جمہوری اتحاد کا قیام یا پھر مشرف دور میں ایم ایم اے کا وجود یا پھر زرداری دور میں علامہ طاہر القادری کے دھرنوں کی شروعات یا پھر نواز دور میں مولانا خادم رضوی کی وہ جتھے بندیاں جنکی تاریخ میں شائد ہی کوئی نظیر ملتی ہو پاکستان کی تاریخ میں تواتر سے ملتی ہیں۔ اس بحث سے قطع نظر کہ بانیِ پاکستان محمد علی جناح نے جو الفاظ اج سے 72 سال قبل 11 اگست 1947ء کو پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران کہے تھے کہ ، مذہب ذاتی معاملہ ہے، ریاست سے اس کا کوئی تعلق نہیں فکری اساس کے مالک آج ان سوچوں میں ڈوبے نظر آتے ہیں کہ مذہبی کارڈ استعمال کر کے سیاست کرنے کی روش آخرکار ہمیں کس انجام سے دوچار کرے گی۔ بلا شبہ راقم کی تحریروں سے اکثر قارئین یہ تاثر لیتے ہیں کہ شائد میں عمران حکومت کا مخالف ہوں لیکن خْدا گواہ ہے کہ تنقیدی پہلو سے ہر گز یہ نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہیے کہ تنقید کرنے والا کسی بْغض کے تحت یہ کر رہا ہوتا ہے بلکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ وہ دراصل جس پر تنقید کر رہا ہوتا ہے اسکا خیرخواہ ہوتا ہے اور دل سے اسے پیار کر رہا ہوتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ جہاں کہیں خامیاں موجود ہوں انکی درستگی کر لی جائے بجائے اس کے وہ گلے کا ہار بن جائیں اور مزید بدنامی کا باعث بنیں۔ اس حقیقت کا اقرار کرتے کہ بیشک میرا شمار عمران حکومت کے نقادوں میں کر لیا جائے جس دن سے ایک مخصوص مذہبی سیاسی جماعت نے پہلے مارچ اور پھر اس مارچ کو دھرنے میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا تو راقم نے بڑے محتاط انداز میں اپنی اس تشویش کا اظہار کیا تھا کہ گْو کہ جمہوری روایات کے تحت احتجاج ہر سیاسی جماعت کا حق ہے لیکن کسی ایسے سیاسی احتجاج کو مذہبی عقائد کا لبادہ اوڑھا دینا کسی بھی طور قابل قبول نہیں اور اگر یہ ریت چل پڑی اور اس کوشش کو کوئی کامیابی مل گئی تو پھر خْدا ہی بہتر جانتا ہے کہ عمران کیا کوئی اور بھی آئندہ کبھی جمہوری نہ سہی لنگڑی لولی جمہوریت کے تحت ہی حکومت چلا سکے۔ یہ تشویش صرف راقم تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ اس ملک کی اکثریت ان دعاؤں میں شریک نظر آئی کہ اللہ کرے تمام معاملات بخیر و خوبی کسی سانحے کے ظہور کے بغیر افہام و تفہیم سے حل ہو جائیں۔ بظاہر اس مارچ کے ابتدائی دنوں میں جس طاقت اور سرعت کے ساتھ یہ مارچ آگے بڑھا لگ یوں رہا تھا کہ گزرتے لمحات کے ساتھ شائد یہ سسٹم کیلیئے کوئی بہت بڑا خطرہ پیدا کر دے اور اپنے ساتھ بہت کچھ بہا لے جائے لیکن سیاسی نباض اور بابے اسے چائے کی پیالی میں طوفان سے تعبیر کر رہے تھے کیونکہ انکا سیاسی تجربہ کسی اور حقیقت کی چْغلی کھا رہا تھا اور گواہی دے رہا تھا کیونکہ جب نون لیگ اور پی پی پی اس احتجاج میں ایک بہت ہی باریک لائن سے اگے نہیں بڑے تو ان معاملات کی باریکیاں سمجھنے والے سمجھ گئے تھے کہ ماضی میں اس طرح کی تحریکوں کو کامیابی دلانے میں کردار ادا کرنے والی اصل طاقتوں کے کیا عزائم ہیں۔ گْو کہ اس طوفان کی شدت بڑی خاص حد تک کم ہو گئی ہے لیکن مجھ جیسے بیسیوں لوگوں کو یہ بہت سے وسوسوں میں دھکیل گئی ہے کہ کیا ہم اس حقیقت سے بے خبر کہ 1977ء اور 2019ء میں کیا فرق ہے اسی 1977ء والے مقام پر ایک دفعہ پھر آ کھڑے ہوئے ہیں۔ کیا ہم سمجھ نہیں پا رہے کہ 1977ء میں دنیا ایسی تحریکوں کو کس نظر سے دیکھتی تھی اور آج دنیا ایسی تحریکوں کو کونسا رنگ دیتی ہے۔ یہ صرف راقم کا نہیں چند سینکڑوں مفکروں کا نہیں پوری قوم اور خاص کر وہ جو ایسے episodes کو ترتیب دیتے ہیں ان سب کے سوچنے کے لیے ہے کہ 1977ء میں بیشک بھٹو سے مخصوص عناد رکھنے والوں نے ضرور نجات حاصل کر لی لیکن یہ بھی تو دیکھیے کہ قوم اس دن سے ایسے اقدامات کے نتیجے میں اْٹھنے والی تباہ کاریوں سے کس طرح نبردآزما ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھٹو کی طرح کسی ایسی تحریک سے عمران خان کو بھی کسی ایسے انجام سے دوچار کیا جا سکتا ہے لیکن سوچنے کا یہ مقام اور فکر ہونی چاہیئے کہ اس دفعہ دنیا ہمیں یہ کام کرنے دیگی یا پوری کی پوری قوم کو ایسے سبق سے دوچار کرے گی کہ ہماری آنے والی آئندہ نسلیں بھی اْسے یاد رکھیں گی۔ بیشک عمران کی حکومت سے اختلاف رکھنے والوں کا یہ جمہوری اور قانونی حق ہے کہ وہ ہر جمہوری طریقے سے اسے ہٹانے کی کوشش کریں لیکن ایسا کرنے کے لیے سڑکیں اور مذہب نہیں بلکہ ایسی جنگ پارلیمنٹ میں ہونی چاہیئے۔