7 ارب روپے سے پچاس روپے تک، مشیروں کی مہربانی
وزیر اعظم عمران خان کی پاکستان کی خوش حالی ، اور ایک بہتر پاکستان کی خواہش پر کوئی شک نہیں کیا جاسکتا، مگر یقین جب آئے کہ جو کہا جارہا ہو وہ ہو بھی۔ وزیراعظم عمران خان کئی مرتبہ یہ جملے دھراچکے ہیں کہ جو وزراء اپنی کارکردگی بہتر نہیںکرینگے انہیں تبدیل کردیا جائے گا ، مگر ایسا کچھ ہو نہیں سکا ، اسکی وجہ انکے اتحادی ہیں ، وزیر اعظم اسد عمر کو ہٹا سکتے تھے ، فواد چوہدری کی وزارت تبدیل کرسکتے تھے وہ انکی اپنی جماعت کے تھے۔ مستعار لئے گئے وزراء ، مشیروں کو تبدیل کرنا اتنا آسان نہیں ۔ وزیر اعظم کی ان کوششوں پر مولانا فضل الرحمان کے دھرنے اور میاں نواز شریف کی بیماری پر کئے جانے والے فیصلے اور تاخیر سے لگتا ہے حکومت کو مزید کمزوری کی طرف دھکیل دیا ہے۔ کمزور نہیں تو پریشان ضرور کردیا ہے ، س میں قصور وزیر اعظم کا نہیں بلکہ انکے مشیروںکا ہے جو کئی جماعتیں سے پھلانگے ہوئے تحریک انصاف میں آئے ہیں وہ ’’ ہوا کا رخ ‘‘دیکھتے ہوئے جماعتوں کا رخ کرتے ہیں۔ یہ عام کہاوت ہے اور صحیح بھی ہے کہ مشیر ہی حکومتوں کی ناکامیوں کا سبب بنتے ہیں اگر حکومتی جماعت تجربہ نہ رکھتی ہو، تو یہ ہی وقت مشیران کی چاندی کا وقت ہوتا ہے ، اور خاص کر کہ جبکہ وہ جماعت سے تعلق نہ رکھتا ہوں۔ اکثر مشیروں مستعار لئے ہوئے ہوتے ہیں جو اپنی نشستوں پر انتخابات کے ذریعے عوام کی پذیرائی حاصل نہیں کرسکتے۔ یہ غیر منتخب لوگ وزیر اعظم کی ’’کچن کیبنٹ ’’ کا حصہ بن جاتے ہیں وزیر اعظم کی خوشنودی کیلئے وہ ایسے ایسے بیانات داغتے ہیں مگر یہ خوشنودی وزیر اعظم کیلئے مشکلات پیدا کردیتی ہیں جسکی پرواہ مشیروں کو نہیںہوتی انکا کچھ بھی دائو پر نہیںلگا ہوتا۔ چونکہ حکومت کی تبدیلی کی صورت میں و ہ کسی بھی نظریے ، کسی بھی سوچ کی حامل جماعت میں پھر اپنی جگہ بنانے میں کامیابی حاصل کرلیتے ہیں اور عقل کی اندھی ہر آنیوالی حکومت انکے دام میں پھر پھنس جاتی ہے یوں مشیروں کی دکان پھر کھل جاتی ہے ۔ خیر ذکر ہو رہا تھا کہ میاںنواز شریف کی بیرون ملک روانگی پر وزیر اعظم کی حمائت پر مشیروں چیخ پڑے اور مشورہ دے ڈالا کہ اسکے باوجود کہ ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم کو اچھی خاصی ضمانت لیکر رہا کیا تھا چار ہفتہ کیلئے مگر ایک غیر قانونی شق مشیروں جن میں پی پی پی کو تباہی کے دھانے پر لانے والے وکیل اور دانشور بابر اعوان ، اور لندن والے الطاف حسین کو نیلسن مینڈیلا کے بعد دوسرا لیڈر قرار دینے والے ، آرٹیکل 6 ، اور بغاوت کے مقدمے میں پرویز مشرف کے وکیل موجودہ حکومت کے وزیر قانون فروغ نسیم نے اربوں روپے کے بانڈز حکومت کے پاس جمع کرانے کے بعد ملک سے باہر جانے کی اجازت دینے کا عندیہ دیا ، اور اس بیمار سابق وزیر اعظم کی جان سے نہائت بے رحمی سے کھیل گئے۔ قریباً ایک ہفتہ کی تگ دو نیب ، حکومت ، کے درمیان بیمار وزیر اعظم کی باہر جانے کی درخواست کو فٹ بال بنایا گیا ، بلاآخر مسلم لیگ ن کو عدالت جانا پڑا ، اور عدالت سے زیادہ کام میاں شہباز کے ’’رابطوں ‘‘ نے کیا اور عدالت نے بانڈز کی شرط نہ صرف ختم کردی جو کہ خود تحریک انصاف کے حمائتی قانون داںبھی کہہ چکا تھے کہ بانڈز لینا کسی قانون میں موجود نہیں۔ بڑے بوڑھوں نے کہا کہ کبھی بڑا بول نہ بولو اس کا سامنا خود بھی کرنا پڑتا ہے۔ حکومت کے نوجوانوں کے مشیر عثمان ڈار نے مولانا فضل الرحمان کے دھرنے پر انکے پیش کردہ مطالبے پر کہا تھا کہ پٹھان کمبل کی قیمت پانچ ہزار بتاکر پانچ سو روپیہ میں کمبل بیچ دیتا ہے۔ سابق وزیر اعظم کی جانب سے یا میاںخاندان سے سات ارب کی سیکورٹی مانگی اور بلاآخر پچاس روپیہ کے بانڈز پر انہیںباہر جانے کی اجازت دے دی گئی ، سابق وزیر اعظم علاج کے سلسلے میں بلا ضرورت تاخیر پر اعتراض تحریک انصاف کے اتحادیوں نے بھی بھر پور کیا ۔ مگر حکومت کے مشیروں نے وزیر اعظم کو انکی نہ سننے کے مشورے دیتے رہے چونکہ اس میں انکا کوئی نقصان نہیں تھا انہوںنے یہ بھی نہ سوچا موجودہ حکومت کی بساط ہی اتحادیوں کے ساتھ بچھی ہوئی ہے ۔ شیخ رشید پہلے ہی اپنی نجی محافل میںکہہ چکے ہیں کہ وہ’’ٹبر ‘‘ سے دلچسپی نہیں رکھتے انکا اتحاد صرف اور صرف عمران خان سے ہے ، آجکل یہی بات ق لیگ کے ذوالفقار چیمہ نے کہہ دی کہ ق لیگ کا اتحاد تحریک انصاف سے نہیں بلکہ عمران خان سے ہے اسکا مطلب وہ بھی بقول شیخ رشید ’’ٹبر ‘‘ سے ناخوش ہیں ، اس معاملے پر ایم کیو ایم نے حکومت سے بھر پور مطالبے کئے کہ نواز شریف کے جانے پر شرائط نہ لگائی جائیں ، اور اب عدالتی حکم پر باہر جانے سے ان اتحادیوںکی ناراضگی بنتی ہے کہ انکی بات کو اہمیت نہ دی گئی ۔ اب انہیں راضی کرنے کیلئے انہیں وزارتیں دینا پڑینگی۔انکے راضی ہونے کا صرف یہ ہی طر یقہ ہے ، ق لیگ کی ناراضگی تحریک انصاف کو کبھی بھی مہنگی پڑسکتی ہے چونکہ مسلم لیگ ن اور ق میں کوئی زیادہ اختلاف نہیں ، اور چوہدریوںکی خواہش کبھی مرکز نہیں رہا مگر پنجاب ضرور رہا ہے اور جسکے پاس پنجاب ہے وہ ہی مرکز ہے ۔ چوہدری پرویز الہی حکومتی کارکردگی پر برملا اظہار کرچکے ہیں اور پنجاب پر حکمرانی اپنا حق تصور کرتے ہیں ۔ اگر مسلم لیگ ن نے ق سے ہاتھ ملا لیا تو کیا ہوگا ؟