پاکستان اور امریکہ کے مابین تعلقات میں تبدیلی رونما ہوتی رہتی ہے۔ 80 کے عشرے میں اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان قریبی روابط پائے جاتے تھے۔ کم از کم 1988ء اور 1989ء میں افغانستان سے ریڈ آرمی کے انخلاء تک۔ اُس کے بعد پاکستان میں امریکہ کی دلچسپی ختم ہو گئی۔ پھر گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد پاکستان ایک دم پھر سے امریکہ کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ خاص طور سے طالبان اور القاعدہ کے خلاف جنگ میں متبادل راستے کے طور پر۔ اس نئے اسٹریٹیجک تعاون میں اسلام آباد نے گرچہ امریکہ کا بھرپور ساتھ دینے پر رضا مندی ظاہر کی ، لیکن اُسے کئی مسائل کا سامنا رہا، کیونکہ پاکستان نے طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات بگاڑنا نہیں چاہتا تھااور پرائی لڑائی کو اپنے ملک میں نہیں لانا چاہتا تھا۔لیکن جیسے تیسے کرکے پرائی لڑائی اپنے گھر آہی گئی، جس کی بدولت 75ہزار پاکستانیوں نے جام شہادت نوش کیا۔ امریکا اس ’’قربانی‘‘ کے عوض پاکستان کو امداد دیتا رہا، جسے کیری لوگر بل کہا جاتا تھا۔ پاکستان شاید یہ اس لیے کرتا رہا کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں اُس کے کردار کو سراہا جائے گا اور دنیا پاکستان کی قدر کرے گی لیکن ایسا نہ ہوا، ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارت کا عہدہ سنبھالتے ہی پاکستان پر طنز کے تیر چلانا شروع کیے اور ڈومور کے ایک سے بڑھ کر ایک مطالبے کرنا شروع کردیے۔ اور گزشتہ روز ہی بیان داغ دیا کہ ہیلری کلنٹن نے پاکستان کو امداد دے کر بڑی غلطی کی وغیرہ اس کے جواب میں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ’’ریکارڈ کی درستگی کے لیے پاکستان کبھی بھی نائن الیون میں ملوث نہیں رہا لیکن اس کے باوجود پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔اس جنگ میں پاکستان نے 75,000 افراد کی قربانی دی اور 123 ارب ڈالر کا مالی خسارہ برداشت کیا جبکہ اس بارے میں امریکی امداد صرف 20 ارب ڈالر کی ہے۔اس جنگ میں پاکستان کے قبائلی علاقے تباہ ہوئے اور لاکھوں افراد بے گھر ہوئے۔ اس جنگ نے عام پاکستانیوں کی زندگیوں کو متاثر کیا۔پاکستان آج بھی امریکی افواج کو اپنے زمینی اور فضائی راستے استعمال کرنے کی اجازت دے رہا ہے۔‘‘اپنی ٹویٹ میں عمران خان نے امریکی صدر سے پوچھا ہے کہ کیا وہ اپنے کسی دوسرے اتحادی ملک کا نام بتا سکتے ہیں جس نے شدت پسندی کی جنگ میں اتنی قربانیاں دی ہوں۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ صدر ٹرمپ نے پاکستان پر کھل کر تنقید کی ہو۔ اس سال کے آغاز پر انھوں نے کہا تھا کہ ’’امریکہ نے 15 سالوں میں پاکستان کو 33 ارب ڈالر بطور امداد دے کر بیوقوفی کی۔ انھوں نے ہمیں سوائے جھوٹ اور دھوکے کے کچھ نہیں دیا۔‘‘صدر ٹرمپ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’وہ ہمارے رہنماؤں کو بیوقوف سمجھتے رہے ہیں۔ وہ ان دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتے ہیں جن کا ہم افغانستان میں ان کی نہ ہونے کے برابر مدد سے تعاقب کر رہے ہیں۔اب ایسا نہیں چلے گا۔‘‘ اس کے چند روز بعد امریکہ کے محکمہ خارجہ نے کہا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کے نیٹ ورکس کے خلاف کارروائیاں نہ کرنے پر اس کی تقریباً تمام سکیورٹی امداد روک رہی ہے تاکہ پاکستانی حکومت کو بتایا جا سکے کہ اگر وہ امریکہ کے اتحادی نہیں بنتے تو معاملات پہلے کی طرح نہیں رہیں گے۔گذشتہ برس امریکی صدر کی جانب سے وضع کردہ قومی سلامتی کی حکمت عملی میں بھی کہا گیا تھا کہ ’’ہم پاکستان پر اس کی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جاری کوششوں میں تیزی لانے کے لیے دباؤ ڈالیں گے، کیونکہ کسی بھی ملک کی شدت پسندوں اور دہشت گردوں کے لیے حمایت کے بعد کوئی بھی شراکت باقی نہیں رہ سکتی۔‘‘
پاکستان کی خواہش ہے امریکا مکمل افغان امن تک وہاں رہے، دنیا میں قیام امن کی خاطر سب سے بڑی قربانی پاک فوج نے دی، امن مشن میں فرائض کی انجام دہی میں سینکڑوں جوان شہید ہوئے،2007کے بعد مختلف آپریشنز سے دہشتگردی کا خاتمہ کیا،اب پاکستان میں کہیں بھی دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ نہیں۔انھوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف 75ہزار پاکستانیوں نے جانوں کی قربانی دی۔ بلاشبہ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں پاک فوج نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں اور اس جنگ میں کامیابیاں بھی سب سے زیادہ حاصل کی ہیں۔ لہٰذااصولی طور پر امریکا اور مغربی ممالک کو پاکستان کی قربانیوں کو تسلیم کرنا ہو گا۔ انھیں اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ پاکستان کی مدد کے بغیر دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں جیتی جا سکتی۔اگر وہ چاہتے ہیں کہ القاعدہ یا داعش کا افغانستان سے خاتمہ ہوجائے تو اس کے لیے انھیں پاکستان کی مدد کرنی چاہیے کیونکہ پاکستان کی فوج کے پاس ہی اتنی صلاحیت ہے کہ وہ دہشت گرد قوتوں کو شکست دے سکتی ہے۔ افغانستان کی فوج اس قابل نہیں کہ وہ کوئی جنگ خصوصاً دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت سکے۔ ان کی ترتیب میں بھی خامیاں ہیں اور ان کا پروفیشنل ازم بھی کمزور ہے، افغانستان کے سیکیورٹی اداروں کے افراد کے درپردہ طالبان سے بھی رابطے ہیں اور وہ امریکا اور اتحادی افواج کو دھوکا دے رہے ہیں جب کہ بھارت کی صورت حال یہ ہے کہ وہ افغانستان میں کسی بھی قسم کی مہم جوئی کے قابل نہیں ہے۔افغانستان میں رائے عامہ بھارت کے حق میں نہیں ہے۔ یوں دیکھا جائے تو اس خطے میں واحد پاکستان ایسا ملک ہے جس کی مدد سے دہشت گردوں کو شکست دی جا سکتی ہے۔ پاک فوج نے دہشت گردوں کے خلاف اب تک جو جنگ لڑی ہے‘ اس میں کامیابی کی شرح بہت بلند ہے۔
پاک فوج نے ملک کے اندر دہشت گردوں کو شکست دے دی ہے اور اب پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں مکمل طور پر ختم ہو چکی ہیں اور بچے کچھے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن جاری ہے۔حقیقت یہ ہے کہ امریکا اور یورپی ممالک میں پاکستان مخالف قوتیں سرگرم عمل ہیں اور ان کا نشانہ پاکستان ہے جب کہ پاکستان پر برسراقتدار طبقہ بیرون ملک لابنگ میں کمزور رہا ہے اور وہ پاکستان کے لیے مثبت نتائج حاصل نہیں کر سکا۔ادھر افغانستان کا حکمران طبقہ منافقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈال رہا ہے، افغانستان کی حکومت مسلسل پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا کرتی ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ افغانستان کی حکومت عملاً بھارت کے کنٹرول میں ہے، بھارت افغانستان میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے۔افغانستان کی خارجہ پالیسی درحقیقت بھارت کے تابع ہے، یوں بھارت افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ اس خطے میں کشیدگی اور دہشت گردی کے ختم نہ ہونے کے پس منظر میں یہی حقیقت کارفرما ہے۔ امریکا اور مغربی ممالک کو ان زمینی حقائق کا ادراک کرنا چاہیے اور انھیں سامنے رکھ کر اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔امریکا اور پاکستان طویل مدتی اسٹرٹیجک اتحادی ہیں اور اس حیثیت سے دونوں ملکوں نے سرد جنگ میں بھی ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی لڑی ہے۔ اب بھارتی اور افغان لابی نے امریکا میں پاکستان کے خلاف لابنگ کی ہے جب کہ پاکستان اپنے حق میں لابنگ نہیں کرسکا ، امریکا کے پالیسی ساز اس پراپیگنڈے کے سحر میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں سرد مہری آئی ہے۔
لہٰذا ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان نے ہر مرحلے پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دنیا کے ساتھ کھڑا رہا۔ اس سلسلے میں پاکستان کی انتظامیہ اور حکومتی اداروں کو چاہیے کہ وہ ایک وفد امریکا بھیجے جو ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ سے اس حوالے سے بات چیت کرے اور بھارتی لابنگ کو کمزور کرے۔ کیوں کہ بھارت کا خودیہ کہنا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف مختلف محاذوں پر 10سے 12ارب ڈالر سالانہ خرچ کر رہا ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں یہ بھارت کی کامیابی ہے کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسے صدر کو پاکستان کی قربانیاں یاد ہی نہیں آنے دے رہا ورنہ دنیا گواہ ہے کہ پاکستان ان چند سالوں میں اسی دہشت گردی کی وجہ سے کس قدر پیچھے چلا گیا ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024