افغان امن مذاکرات اور امریکہ
17 سال کی طویل جنگ، تباہی و بربادی اور لاکھوں ہلاکتوں کے بعد بالآخر افغان طالبان سے کھل کر براہ راست بات کرنے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ ماسکو کانفرنس کا مرکز نگاہ افغان طالبان کا وفد تھا جنہیں کبھی سنگین دہشت گرد اور غیر قانونی جنگجو قرار دیا گیا تھا اور بین الاقوامی میڈیا میں کوئی ان کا موقف سننے والا نہیں تھا۔ گزشتہ ہفتے روسی حکومت نے ماسکو میں افغان طالبان کے وفد اور افغانستان کی ’’ہائی پیس کونسل‘‘ کے اراکین کے مابین باضابطہ مذاکرات ہوئے جبکہ افغان حکومت نے طالبان سے مذاکرات کے لیے اپنے نمائندے بھیجنے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ اعلیٰ امن کونسل افغانستان کے امن عمل کی نگرانی تو کرتی ہے لیکن یہ افغان حکومت کی نمائندہ نہیں ہے۔ ان مذاکرات میں روسی میزبانوں کے علاوہ پاکستان، ایران، چین، ازبکستان، کرغیستان، ترکمانستان، قازقستان اور تاجکستان کے نمائندوں علاوہ امریکی اور بھارتی سفارتکاروں نے بھی شرکت کی۔ امریکی سفارتی مبصرین کی ٹیم کی سربراہی زلمے خلیل زاد نے کی۔ ماسکو میں امن کانفرنس سے چند ماہ پہلے ہی قطر میں موجود افغان طالبان سے امریکی رابطوں کا آغاز ہو چکا تھا۔ اسی ضمن میں گزشتہ ماہ طالبان کمانڈر ملا عبد الغنی برادر کو امریکہ کی درخواست پر رہا کیا گیا تھا جو 2010ء سے پاکستان میں زیر حراست تھے۔ انہیں پاکستانی اور امریکی سیکورٹی اداروں کی مشترکہ کارروائی میں کراچی سے حراست میں لیا گیا تھا۔ ان کی رہائی کے بعد سے امن مذاکرات کے عمل میں تیزی سے پیشرفت ہوئی ہے۔ ماسکو کانفرنس میں طالبان کے وفد کی جانب سے جو مطالبات پیش کیے گئے ہیں ان کے مطابق وہ امریکہ سے براہ راست مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا مطالبہ یہ ہے کہ کوئی ایک بھی غیر ملکی فوجی افغانستان میں نہ رہے اور وہ موجودہ افغان حکومت کی قانونی حیثیت تسلیم نہیں کرتے۔ امریکی افغان طالبان کا براہ راست مذاکرات کا مطالبہ ایک حد تسلیم کر ہی لیا گیا ہے جبکہ وہ موجودہ افغان حکمرانوں کو بھی نکال کر پھینک سکتے ہیں لیکن اس کے عوض وہ افغانستان میں اپنا قائم کردہ نظام حکومت اور آئین ضرور برقرار رکھنا چاہیں گے تاکہ وہ دنیا کو بتا سکیں کہ انہوں نے افغانستان میں اپنی مرضی کی جمہوریت قائم کر دی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر افغان طالبان کو امریکیوں کا دیا ہوا نظام حکومت اور آئین تسلیم کرنا ہی ہوتا تو انہیں اتنی طویل لڑائی لڑنے کی کیا ضرورت تھی وہ اسے پہلے ہی تسلیم کر لیتے اور امریکی حکومت بھی انہیں یہ کہہ کر گلے لگا لیتی کہ ہم نے مل سوویت افواج کے خلاف لڑائی لڑی ہے۔ مغربی میڈیا بھی تعریفی خبروں کے ساتھ پرانی ویڈیوز بھی نکال لاتا ۔ افغان جنگ کے آخری مراحل میں جب امریکی جنرل بھی کہہ رہے ہیں کہ مسئلے کا سیاسی حل تلاش کیا جائے اس موقع پر افغان طالبان افغانستان کے عوام کی خواہشات کے مطابق کوئی ایسا نظام حکومت بنانا پسند کریں گے جو بین الاقوامی سطح پر بھی قابل قبول سمجھا جائے۔ افغانستان میں امن کا واحد حل یہ نظر آتا ہے کہ تمام مسلح گروہوں، ملیشیا اور عام شہریوں کو غیر مسلح کیا جائے اور ریاستی اداروں کو اتنا با اختیار اور مضبوط بنایا جائے کہ افغانستان اپنی بین الاقوامی ذمہ داریاں پوری کرنے کے قابل ہو سکے۔ امریکہ میں کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ امریکی فوج نکل جانے کے بعد وہاں اقوام متحدہ کی امن فوج تعینات کی جائے، اس موقف سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ قوتیں افغانستان میں بد امنی برقرار رکھنے کے لیے ضرور سرگرم رہیں گی۔ موجودہ صورتحال میں امریکیوں کے لیے افغانستان سے تمام غیر ملکی فوجیوں کو نکال لینے کا مطالبہ قبول کرنا مشکل نظر آتا ہے لیکن امریکہ کی بڑھتی ہوئی مالی مشکلات اسے یہ جنگ مزید جاری رکھنے سے روک رہی ہیں۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق امریکہ 17 سالہ افغان جنگ میں 1.07 ٹریلین ڈالر خرچ کر چکا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی افغانستان سے فوجیں نکال لینا چاہتے ہیں لیکن انہیں بتایا گیا کہ امریکی فوج کے نکل جانے کے بعد افغانستان دوبارہ سے دہشت گرد تنظیموں اور جرائم پیشہ عناصر کی آماجگاہ بن جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا امریکی افواج کی موجودگی میں افغانستان دہشت گرد اور جرائم پیشہ گروہوں کی آماجگاہ نہیں بنا رہا ہے؟ کیا ان کی موجودگی میں ہر سال منشیات کی بمپر پیدوار نہیں ہوئی؟ کیا امریکی فوج نے افغانستان منشیات اسمگلنگ روک لی؟ اسی طرح امریکی اور نیٹو افواج تحریک طالبان پاکستان اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کو افغانستان میں منظم ہونے اور ٹھکانے بنانے سے بھی نہیں روک سکی ہیں۔ امریکی فوج کی افغانستان میں موجودگی اور افغان آئین اور نظام حکومت برقرار رکھنے پر امریکی اصرار کا ایک مقصد افغانستان کے ایک ٹریلین ڈالر مالیت کے معدنی ذخائر کی لوٹ مار جاری رکھنا معلوم ہوتا ہے۔ امریکی فوج کے نکل جانے کے بعد ان کانوں کی حفاظت کی ذمہ داری بلیک واٹر کو سونپی جا سکتی ہیں۔ افغانستان میں سونے، چاندی، تانبے، خام لوہے اور گیس کے علاوہ لیتھیم کے وافر ذخائر موجود ہیں۔ لیتھیم جدید بیٹریاں بنانے کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔ لیکن اگر وہاں خانہ جنگی جاری رہی تو مغربی استعماری قوتیں کانکنی اور افیون کی پیدوار تو کرواتی رہیں گی لیکن افغانستان کی حالت کبھی نہیں بدلے گی۔ افغانستان پر امریکی حملے کی بظاہر وجہ یہ نظر آتی ہے کہ القاعدہ نے امریکہ پر 9/11 کے حملے کروائے تھے جس کے سربراہ اسامہ بن لادن کو افغان طالبان نے پناہ دے رکھی تھی اور وہ اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے پر آمادہ نہ ہوئے تو افغانستان پر حملہ کر دیا گیا۔ لیکن یہ بات اتنی سادہ نہیں ہے جتنی نظر آتی ہے۔ کیونکہ 10 ستمبر 2001ء کو ڈونلڈ رمز فیلڈ نے میڈیا کے سامنے اس بات کا انکشاف کر دیا تھا کہ پینٹاگون کے حسابات سے 2.3 ٹریلین ڈالر غائب ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ رقم موجود ہے لیکن سسٹم کی پیچیدگیوں میں اس کا سراغ نہیں مل رہا۔ اپنی گفتگو میں انہوں نے تبدیلی کی بات کہی تھی لیکن اگلے روز دنیا ہی بدل گئی۔ 9/11 کے حملوں میں دو طیارے ٹریڈ ٹاورز کی دو عمارتوں سے ٹکرائے جبکہ تیسرا مبینہ طیارہ پینٹاگون سے ٹکرایا اور اغوا ہونے والا چوتھا طیارہ مبینہ طور پر مسافروں سے جھگڑے کے دوران گر گیا یا شاید مار گرایا گیا۔ تاہم ٹریڈ ٹاور کی عمارت نمبر 7 خود بخود منہدم ہو گئی جس کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس عمارت میں بھی پینٹاگون کا اکاوئنٹس آفس تھا جبکہ پینٹاگون کا تباہ ہونے والے بلاک میں بھی اکائونٹس آفس تھا جو غائب ہونے والی رقم کا آڈٹ کر رہا تھا لیکن دونوں عمارتیں دستاویزات سمیت منہدم ہو گئیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بی بی سی کی رپورٹر نے بلڈنگ نمبر 7 کی تباہی کی خبر اس وقت دی جب وہ عمارت اس کے پیچھے نظر آ رہی تھی۔ بعد ازاں امریکی سینیٹ میں بھی یہ بات زیر غور آئی کہ جس دن امریکہ میں حملے ہوئے اس روز وہاں چار وار گیمز چل رہے تھے۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اس وقت 2.3 ٹریلین ڈالر کے ساتھ ساتھ 56 طیارے، 32 ٹینک اور 36 ٹینک شکن جیلون میزائل لانچنگ پیڈ غائب ہوئے تھے جس کے بارے میں کافی روز سے تحقیقات چل رہی تھیں۔ امریکی محکمہ دفاع میں مالی بے ضابطگیوں کی شدت کا اندازہ 8 دسمبر 2017ء کو فوربز میگزین میں شائع ہونے والے آرٹیکل Has Our Government Spent $21 Trillion Of Our Money Without Telling Us? سے لگایا جا سکتا ہے۔ اسی آرٹیکل میں 26 جولائی 2016ء کو امریکہ کے انسپکٹر جنرل آفس نے اپنی جاری کردہ رپورٹ میں کہا کہ 6.5 ٹریلین ڈالر جنرل وائوچر ایڈجسٹمنٹ کا سراغ نہیں مل رہا جس کے بارے میں امریکی آرمی کی جانب سے کوئی مناسب جواب نہیں دیا گیا جبکہ کانگریس نے ’’سسٹم کی خامیوں‘‘ کی وجہ سے 54 بار بجٹ میں ایڈجسٹمنٹ کی۔ اسی آرٹیکل میں بتایا گیا ہے کہ 1998ء سے 2015ء کے درمیان محکمہ دفاع، ہائوسنگ اور اربن ڈیولپمنٹ میں 21 ٹریلین ڈالر کی ناجائز ایڈجسٹمنٹ کی گئی ہیں۔ اس وقت امریکہ پر 21 ٹریلین ڈالر کا قرضہ ہے۔ ایک عام شخص ایک ٹریلین ڈالر کی رقم کا اندازہ نہیں لگا سکتا لیکن اگر اسے یہ کہا جائے کہ وہ 40 ہزار ڈالر یعنی 54 لاکھ روپے سالانہ کے کمائے تو اسے ایک ٹریلین یا دس کھرب ڈالر کمانے میں ڈھائی کروڑ سال لگ جائیں گے۔ مسروقہ اور قرض کی رقم اتنی بڑی ہے کہ امریکی شہری اسے کبھی بھی ادا نہیں کر سکیں گے۔ یہ دولت ہوا میں تحلیل نہیں ہوئی ہے بلکہ قومی خزانوں سے نکل کر جنگ اور قدرتی وسائل پر قبضے کا دھندہ کرنے والوں کے نجی خزانوں میں منتقل ہوئی ہے جس کے لیے پہاڑوں اور صحرائوں میں بسنے والے سادہ لوح مسلمانوںکا خون ناحق بہایا گیا ہے۔