محکمہ ٹرانسپورٹ سے توقعات
سندھ میں پیپلزپارٹی کی دس سالہ صوبائی حکومت پر ہونے والے اعتراضات میں ایک بڑا اعتراض یہ ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کی اسکیموں اورمنصوبوں کو عملی شکل نہیں دی گئی صرف زبانی دعوے کیئے گئے۔ ایک کے بعد ایک وزیر بدلتے رہے‘ ہر وزیر نئی بسیں جلد سڑکوںپرلانے کا اعلان کرتارہا‘ عوام سیکیئے گئے وعدے وفا نہیں ہوسکے۔ سچی بات ہے کہ دس سال میں بمشکل 10 بسیں ہی چلائی جاسکیں وہ بھی الیکشن سے عین پہلے قائد آبادسے ٹاورکے روٹ پر‘ ان کی حیثیت اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر بھی نہیں۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی و تجارتی مرکز ہے‘ صوبے کا دارالحکومت ہے‘ اسکی آبادی 44 ملکوں سے زیادہ ہے‘ یہاں ہرعلاقے‘ رنگ‘ نسل‘ زبان کے لوگ آباد ہیں۔ اس شہر ’’کومنی پاکستان‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کی ٹرانسپورٹ کی ضروریات بھی پورے ملک کے مقابلے میں منفرداورجدا ہیں۔ لہذا ہر حکومت کو یہاں پبلک ٹرانسپورٹ کے منصوبوں کو تیز رفتاری سے مکمل کرنے کی ضرورت ہے۔ پچھلے دس سال میں 2008ء سے 2013ء تک وفاقی اورصوبائی حکومت پیپلزپارٹی کے پاس تھی‘ تب سب سے زیادہ کام ہونا چاہیئے تھا‘ لیکن بدقسمتی سے نہیں ہوسکا۔ کراچی کی قیادت ایم کیو ایم کے پاس تھی‘ اس نے مشرف دورمیں تو فری ہینڈ کی وجہ سے کام کیا‘ گرین بسیں چلائیں‘ سڑکیں پل‘ انڈرپاس‘ سگنل فری کوریڈوربنائے لیکن کراچی سرکولر ریلوے کی بحالی کے بجائے اس کی تباہی کرڈالی۔ ریلوے ٹریک پر سڑکیں بنا دیں‘ ریلوے اراضی پر قبضہ کرادیا بلکہ چائنا کٹنگ ہوگئی۔ 2013ء سے 2018ء تک وفاق میں مسلم لیگ (ن)‘ صوبے میں پیپلزپارٹی اورشہرمیں ایم کیو ایم کی منتخب قیادت حکومت میں رہی مگر گرین لائنزسمیت دیگر منصوبے مکمل نہ ہوسکے۔ اب 2018ء کے الیکشن کے بعد سے وفاق میں پی ٹی آئی‘ صوبے میں پی پی اور شہر میںایم کیو ایم کی قیادت ہے دیکھنا یہ ہے کہ ٹرانسپورٹ کے شعبے میں کیابہتری لائی جاتی ہے۔
سپریم کورٹ نے کراچی میں ٹرام سروس بحال کرنے کی ہدایت بھی دے رکھی ہے جبکہ وزیراعظم عمران خان کہہ چکے ہیں کہ پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر بھر پور کام کریں گے۔ شیخ رشید احمد نے کراچی سرکولر ریلوے کی بحالی کے حوالے سے پہلے مرحلے میں لوکل ٹرین لانڈھی سے کینٹ اسٹیشن چلوادی ہے‘ یہ بھی اچھا ریلیف ہے۔ کراچی ماس ٹرانزٹ پلان کو سی پیک منصوبے میں لے جایا گیا تھا‘ اس پرکام آگے بڑھنے کا انتظار کیا جارہا ہے۔ جائیکا نے کراچی کے ٹرانسپورٹ سسٹم کے حوالے سے تفصیلی اسٹڈی کی تھی‘ حکومت سندھ نے اس کے مطابق 6 مختلف بس منصوبے شہرمیں لانے کا آغازکیا تھا‘ جس پرفنڈنگ کے لئے مختلف سورسز سے سے بات چیت کی گئی اور کام جاری ہے۔ ماہرین ٹرانسپورٹ کے مطابق شہرمیں ٹرام سروس کی بحالی اب دیوانے کا خواب بن چکا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ سڑکیں کھودی جائیں تو نیچے سے ٹرام کی پٹڑی نکل آئے گی اور اس پر ٹرام سروس بحال ہوجائے گی۔ یہ نئے سرے سے کرنے کا کام ہے‘ لہذا اس کا مکمل ہونا اب مشکل نظر آتا ہے۔ حکومت سندھ کے ذہین افسران میں جب بھی اپنے کام پر مکمل عبور مہارت ذہانت ا ور کامیابی کا ذکر ہوگا تو محمد اختر غوری کا نام سرفہرست آئے گا۔ جنہوں نے اپنے شاندارکیرئیر کے دوران ہر عہدے پرپوری دیانت داری‘ محنت‘ لگن اورکمٹمنٹ کے ساتھ فرائض انجام دئیے اور وہاں نمایاں بہتری لے کرآئے۔ اعلیٰ اخلاقی اقدار ان کے مضبوط خاندانی پس منظر کی عکاسی کرتی ہیں‘ ان کی شرافت‘ متانت‘ دیانت کی سب سے مثال دیتے ہیں۔ حکومت سندھ نے ان کی شاندار خدمات اور بے مثال کارکردگی کے پیش نظر ان کو محکمہ ٹرانسپورٹ جیسے اہم ترین محکمے کاسیکرٹری تعینات کیا ہے۔ سندھ کے دارالحکومت اورپاکستان کے سب سے بڑے تجارتی و صنعتی مرکز کراچی شہر میں سب سے بڑے مسائل میں ٹرانسپورٹ کا شعبہ نمایاں ہے جس پر بے حد توجہ کی ضرورت ہے اور محمد اختر غوری اس حوالے سے ایک وژن رکھنے والے ذہین اورقابل افسر ہیں اوران سے بڑی توقعات وابستہ ہیں کہ جس طرح ماضی میں انہوںنے محکمہ داخلہ‘ انٹر بورڈ‘ واٹربورڈ اوراس سے قبل گورنرہائوس میں شاندارانداز سے خدمات انجام دیں۔ اسی طرح محکمہ ٹرانسپورٹ کے حوالے سے بھی وہ شاندارکارکردگی کا مظاہرہ کریںگے۔ کراچی شہر کے اندر پبلک ٹرانسپورٹ کے مسائل حل کرنے اور عوام کو جدید سفری سہولیات کی فراہمی کے لئے اہم اقدامات کریں گے اور حکومتی پالیسیوں پر عملدرآمد کرائیں گے اورعدالتی احکامات کی روشنی میں محکمے میں پیدا شدہ بگاڑ کودور کرکے اسے ایک مثالی محکمہ بنائیں گے۔ جس طرح انہوں نے واٹر بورڈ میں بطور ڈی ایم ڈی شاندارکام کرتے ہوئے ریکارڈ ساز ریونیو حاصل کیا تھا‘ اس طرح ان سے توقع ہے کہ محکمہ ٹرانسپورٹ میں بھی وہ نئے سنگ میل عبورکریں گے۔ سندھ میں 49 لاکھ سے زائدگاڑیاں رجسٹرڈ ہیں روزانہ 1300 موٹر سائیکلوں کااضافہ ہورہا ہے‘ 250 گاڑیاں اورپونے دوسو کمرشل گاڑیاں رجسٹرڈ ہورہی ہیں۔ آنے والے دنوں میں یہ گاڑیاں کہاں چلیںگی‘ ان کے لئے سڑکیں اور ٹریفک مینجمنٹ پلان بھی درکارہوگا‘ اتنی بڑی تعداد میںگاڑیاں چلیںگی تو پیٹرول اورگیس بھی چاہیئے‘ جس پرکثیر زرمبادلہ خرچ ہوگا۔ بہتر حل تو یہی ہے کہ لوکل ٹرین اور بڑی بسیں زیادہ سے زیادہ چلائی جائیں۔