کراچی پر انگریزوں کے قبضے سے لے کر ایمپریس مارکیٹ کی تعمیر تک
یہ 2فروری1839ء کی ایک خو بصورت صبح تھی پو پھٹنے کے بعد آسمان پر جگمگا تا سو رج چا روں طرف اپنی کرنیں بکھیر رہا تھا سمندری موجیںاٹھلا کر ایک دوسرے سے ٹکرا کر شور مچا رہی تھی کہ اچانک سمندر کی پر شور موجوں کو چیر تے ہو ئے دو بر طا نوی جہازجس میںویلز نامی جنگی جہاز اور حنا ء نا می با ر برا دری والے جہا ز منوڑا کے سا حل سے سا ت سے اٹھ سو گز کے فا صلے پر لنگرا نداز ہو گئے اور پھر نصف گھنٹے بعد دونوں جہا ز ایک بارپھر آ ہستہ آہستہ سا حل کی طرف بڑھنا شروع ہو ئے اور انہوں نے قریب آکر تا لپو روں کے مضبو ط قلعے پر گو لے داغنا شروع کر دیئے جس کے جواب کے طورپر قلعے سے بھی جہازوں کو نشانہ بنایا جا نے لگا یہ سلسلہ لگ بھگ تین گھنٹے جاری رہا جس کے با عث نیلگوں آسما ن پر دھو ئیں کے با دل چھا گئے اور قلعے کے اندر اور ارد گرد رہا ئش پذ یر لو گو ں کا سا نس لینا محال ہو گیا ایسے میں قلعے سے امن کی سفید جھنڈی لہرا ئی گئی جسے دیکھتے ہو ئے بر طانوی جہا زوں نے بھی جنگ بند کر دی جنگ بندی کے بعد بر طانوی بحر یہ کے کمانڈرانچیف ایڈ مرل سر فیڈ رک لیو س ،رئیر ایڈمرل جزل مٹ لینڈ اور مس ویلیٹ نے تالپور حکومت کے فوجی گورنر خیر محمد ثنا ء اللہ اورسول گورنر علی سیکھا سے مذاکرات شروع کیئے مذاکرات کئی گھنٹوں تک جا ری رہے اور اس نتیجے پر ختم ہو ئے کہ ا مور سلطنت کا نظام بد ستور تا لپور ہی چلا تے رہیں گے کامیاب مذاکرات کے خاتمے کے بعد 7 فروری1939ء کو ویلز لی جہاز پر ملکہ وکٹوریہ کے چالیسویں رجمنٹ کے مسٹرجے ہو ٹ اور شا ہی فو ج کے تر جما ن لیفٹیننٹ پو ٹاس نے معا ہد ے پر اپنے دستخط ثبت کیئے اور تو سیعی دستخط کے بعد اس وقت کے فو جی گورنر خیر محمد نے شہر کی کنجیا ں بر طا نو ی حکا م کے حوا لے کر دیں جس کے فو ری بعد بر طا نو ی فو ج شہر میں دا خل ہو گئی اور اس نے سب سے پہلا کا م تا لپو ر انتظا میہ کے چیلوں سے اسلحہ چھین کر اسے غیر مسلح کیا اور شہر میں دند نا نے لگی فو ج کی بڑی کمک آجا نے کے بعد ان کی رہا ئش کا مسئلہ در پیش آیا جسے دیکھتے ہو ئے انگریز انتظا میہ نے موجو دہ سو ل اسپتا ل کی جگہ چٹیل میدان پر خیمہ نما بستیا ں قائم کر نے کا حکم دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک نیا شہر وجو دمیں آگیا اور تما م فو جیں ان خیمہ بستیوں میں آبا د ہو گئیں بڑی تعداد میںفوجوں کے آجا نے کے بعد انہیں قریب کے علا قوں میں خریدو فروخت کی سہولت مہیا کر نے کے لیے انگریز انتظامیہ نے ایک تا جر سیٹھ نا و مل ہو ت کو یہ ہدا یا ت جاری کیںکہ و ہ فو ری طور پر فو جیوںکو سہولیات مہیا کر نے کے لئے صدر کے علا قے میں دکا نیں قائم کریں، نا ومل ہو ت نے انگریز سر کا ر کی ہدا یت پر صدر کے علا قے میں دو دکا نیں قائم کیں اور جب دو نوں دکا نوں کے کا رو با رچمک گئے تودوسرے تا جروں نے بھی ہمت پکڑتے ہو ئے صدر کے علاقے میں دکا نیں کھولنا شرع کر دیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک با زار قائم ہو گیاجسے کیمپ با زار کے نا م سے مو سوم کیا جانے لگا اور دور درا زکے لوگ بھی خریدا ری کے لئے اس با زار کا رخ کر نے لگے ۔ انگریز انتظامیہ نے کیمپ با زار کی مقبو لیت کو دیکھتے ہو ئے صدر میںایک عظیم الشان مار کیٹ کی تعمیر کرنے کا فیصلہ کر تے ہوئے ما رکیٹ کو ڈیزائن کر نے کی ذمہ دا ری ما ضی کے معروف آرکیٹیکٹ اور انجینئراسٹریچن کو سو نپ دی اور ما رکیٹ کی تعمیر کے لیے جگہ تلاش کر نا شرع کر دی اور بلا آخر موجود ایمپریس ما رکیٹ کی اس جگہ جہاں انگریزوں نے1857ء کی جنگ میں انگریزوں کے خلاف بغاوت میں حصہ لینے والے21رجمنٹ کے مقامی سپا ہیوں جن میں ہندو اور مسلمان دونوں ہی شامل تھے نعرہ آزادی بلند کر نے کے جرم میں گولیوںسے چھلنی کر تے ہو ئے ان کی نعشیں چیل کوئوں کے حوالے کی تھیں یہ جگہ ایمپریس ما رکیٹ کی تعمیر کیلئے منتخب کر لی اس دورا ن جیمز اسٹیریچن نقشہ تیار کر نے میں کامیاب ہو چکے تھے اور یہ نقشہ 1866 ء بمبئی میں تعمیر ہو نے والے الفسٹن کا لج اور اس وقت بمبئی کی سب سے بڑی ما رکیٹ کرا فورڈسے مشا بہہ تھا نقشے کی تکمیل کے بعد 10نومبر1884ء کو اس وقت کے گورنر جیمز فر گو سن نے ایمپریس ما رکیٹ کا سنگ بنیادرکھا اور ان کی ہی نگرا نی میں تعمیرات کا کام شروع کر دیا گیا تعمیراتی کام کا ٹھیکہ اس وقت کے تین معروف کنٹریکٹر ز مسٹر جے ایس ا یٹ فلیڈ، ولی محمد جیون اور دلیو کھیو وکوسو نپا گیا جنہوں نے دن رات کی محنت اور سخت جدو جہد سے ایک لا کھ55 ہزار کی ما لیت سے لگ بھگ چار سال میں مارکیٹ کے کام کو پا یہ تکمیل تک پہنچا دیا جس کے فو ری بعد 21 ما رچ 1889ء کو ایمپریس ما رکیٹ میں ایک رنگا رنگ تقریب منعقد ہو ئی اور اس تقریب میں اس وقت کے کمشنر پر چرڈ نے فیتہ کاٹ کر مارکیٹ کا افتتاح کر دیا اور کیونکہ اس سال ملکہ وکٹو ریہ کی سلور جو بلی منا ئی جا رہی تھی اس لئے اس منا سبت سے ملکہ کوتحفہ دینے کے لیے اس مار کیٹ کا نا م ایمپریس ما رکیٹ سے مو سوم کر دیا گیا یہ مارکیٹ جو کہ اپنی ابتداء سے کراچی کی پہچان بنی یور پین طرز تعمیرکا اعلیٰ شاہکارہے اسے سرخ جودھ پوری سے مر بہ کی شکل میں تعمیر کیا گیا ہے ما رکیٹ کو نمایا ں مقام دینے کے لیے اس میں 140 فٹ اونچا ٹاور بنا یا گیا ہے جس کے چا روں اطراف میں گھڑیال نصب کیئے اور ہر گھنٹے کے بعد جلترنگ کے انداز میں بج کر دور دراز رہنے والوں لوگوں کو وقت کا پتہ دیتی تھیںمارکیٹ کے اندر چاروں اطراف میں 280اسٹالز کی جگہ بنائی گئی تھی جبکہ عین ما رکیٹ کے بیچوں بیچ 130فٹ لمبااور 100فٹ چوڑا صحن بنا یا گیا تھا ، جبکہ دکانداروں کو رہا ئشی سہولیات فرا ہم کرنے کے لیے مارکیٹ کی چاروں سمتوں میں46,46فٹ کی چار گیلریاں قائم کی گئیں تھیںجہاں دن بھر کے تھکے ما ندے دکاندار اور ان کے ملا زمین آرام کیا کرتے تھے مارکیٹ کے 280اسٹالوں پر ضرور یا ت زندگی سے متعلق تمام لوازمات کی فروخت کی جا تی تھی اورما رکیٹ کی انتظامیہ ما رکیٹ کی صفائی ستھرا ئی کے علا وہ قیمتوں کے کنٹرول اور معیا ری مصنو عات کی با قاعدہ چا نچ پڑ تال کیا کرتی تھی اور غیر معیا ری اشیا ء فروخت کر نے اور اضافی قیمتوں کی وصولیابی کر نے والے دکا نداروں کو بھا ری جرمانے کے علاوہ قید کی سزاسنائی جاتی تھی ۔ ما رکیٹ انتظامیہ ما رکیٹ کے اندرونی حصے کے علا وہ ما رکیٹ کے با ہر بھی صفا ئی ستھرا ئی کی ذ مہ دار تھی جس کے با عث ایمپریس ما رکیٹ کے چا روں اطراف چوڑی چوڑی سڑکیں جو کہ کم و بیش 130 فٹ چوڑی تھیںبا قا عدہ طور پر صبح و شام دھو ئی جا تی تھیں اور کسی بھی بیل گا ڑی ، تانگے یا دیگر گا ڑیوں کو ما رکیٹ کے قریب کھڑا ہو نے نہیں دیا جا تا ، ما رکیٹ کی صفا ئی و ستھرا ئی اور قیمتوں اور معیا ری اشیا ء کی خرید و فروخت کے با عث جلد ہی ما رکیٹ کو بے پنا ہ مقبو لیت حا صل ہو گئی لہٰذا خریداری کے لیے دور درا ز سے لو گوں نے آنا شرع کر دیا مگر اس میں مقامی لوگوں جن میں مسلما ن اور ہندوئوں کو اس مارکیٹ میں دا خلے کی اجا زت نہیں تھی اور مذکورہ ما رکیٹ میں صرف اور صرف بر طانوی فوج کے افسران ، چیلے اور ان کی بیگمات خریدا ری کر سکتی تھیں جسے دیکھتے ہوئے مقامی لوگوں نے شدید احتجاج شرع کرا دیا جس کے با عث کچھ عر صے بعد مارکیٹ کو مقامی افراد کے لیے بھی کھول دیا گیا تا ہم ان پر یہ پا بندی عائد کر دی گئی کہ وہ خریداری کر نے کے فوری بعدما رکیٹ سے چلے جائیں، انگریزوں کے دور حکومت میں مارکیٹ کا حسن انتظام احسن طریقے سے چلا یا جا رہا تھا اور نا پ تول ، نرخ ، معیاری اشیاء کی خریدو فروخت پر مکمل طور پرعملدر آمد ہو رہا تھامگر جیسے ہی انگریزوں نے رخصت اختیا رکی تو معاملات بگڑنا شرع ہو گئے ۔