سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جناب آصف سعید کھوسہ صاحب نے اپنے ایک فیصلے میں نظام عدل میں اصلاحات کا عندیہ دیا ہے۔ ان کے خیال میں جھوٹی گواہی دینے والوں کو بھی سزا ملنی چاہئے۔ یہ لوگ حصول انصاف میں بھی بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ انہوں نے ایک انگریز جج کا بھی ذکر کیا جس نے قریب المرگ مضروب کی کذب بیانی پر اظہارتعجب کیا تھا۔ جج صاحب کا اشارہ بیان نزع کی طرف تھا۔ جب انگریز نے قانون بنایا تو اس میں Dying Declaration ’’لیگل ڈکٹم‘‘ تھی اور Presumption of truthکی اہمیت حاصل تھی۔
(Truth sits on the lips of a dying person the consciousness of impendings doom and the thought of the hereater will complell a person to speak nothing but the truth
(سچ قریب المرگ شخص کے ہونٹوں پر رقصاں ہوتا ہے۔ یہ سوچ کہ وقت آخر آگیا ہے اور اسے مالک حقیقی کے دربار میں پیش ہونا ہے۔ متوفی کو سچ بولنے پر مجبو کرتی ہے۔) بدقسمتی سے تقسیم کے بعد معاشرتی رویوں میں بڑی تبدیلی آئی ہے، کسی کو بھی کل کی فکر نہیں ہے۔ اس کی ساری توجہ لمحہ موجود پر مرکوز ہوتی ہے۔ نتیجتاً کچھ تو سلگتے ہوئے جذبات کی وجہ سے اور زیادہ تر رشتہ داروں کی انگیخت پر وہ جاتے جاتے ملزم کے سارے خاندان کو لپیٹ جاتا ہے۔ اسی لئے عدالتیں آجکل بیان نزع پر کلیتاً اعتبار نہیں کرتیں بلکہ اضافی شہادت مانگتی ہیں۔ جسے قانون کی زبان میں Corroboration in material particulars کہا جاتا ہے۔
سارا معاشرہ عجب بے راہ روی کا شکار ہے۔ یہ دور انحطاط ہے۔ میر نے کہا تھا …؎
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگاہ شیشہ گری کا
جہاں انسانوں کے سائے ان کے قد سے بڑھ جائیں جہاں قبائے دیں ابوجہل نے سجا لی ہو جہاں پر زبان کٹ جائے‘ مدح ستم گراں کرتے جہاں ضمیر بک جائیں، اسباب مفلساں کی طرح‘ جہاں انصاف ایک انعام کی شکل اختیار کر لے۔ وہاں حق بات کہنا اور سچ سننا مشکل ہوتا ہے۔
کذب بیانی کی مختلف صورتیں ہیں۔ کچھ لوگ مجبوراً جھوٹ بولتے ہیں۔ کچھ ضرورتاً جھوٹ بولتے ہیں اور کچھ عادی جھوٹے ہوتے ہیں جنہیں Compulsive Liars کہا جاتا ہے۔ پولیس کے گواہ جنہیں Stock witness or tout کہا جاتا ہے۔ معاشی مجبوریوں کی وجہ سے جھوٹی گواہی دیتے ہیں۔ یہ ان کا پیشہ اور ذریعہ روزگار ہے۔ ہر گواہی کے بعد ان کو معقول رقم ملتی ہے۔ یہ لوگ بڑے جہاندیدہ‘ گرم و سرد چشیدہ و حاضر دماغ اور کسی حد تک بذلہ سنج ہوتے ہیں۔ بطور جوڈیشل آفیسر ایک طویل عرصہ تک میں ان کی حرکات و سکنات کو دیکھتا رہا ہوں۔ اپنے سکہ بند جوابات سے یہ وکیل کو زچ کر دیتے ہیں۔ برآمدگی کے بیسیوں مقدمات میں ایک وہی گواہ پیش ہوتا رہا ہے۔ ان کی حاضر جوابی کو سمجھنے کیلئے ایک لطیفہ نما واقعہ خالی اور دلچسپی ہوتا رہا ہے۔ ایک علاقے میں پیشہ ور گواہ نے بیان دیا کہ فلاں شخص نے قبل از مرگ اسے وقوعہ کا بتایا تھا۔ وکیل یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ اس نے اس شخص کو دیکھا ہی نہیں اور کذب بیانی سے کام لے رہا ہے۔ سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا۔ وکیل ملزم: اس شخص کا رنگ کیسا تھا‘ گورا یا کالا۔ گواہ: سردیوں میں کالا ہو جاتا تھا، گرمیوں میں کھل جاتا تھا۔ وکیل:’’ اچھا یہ بتائو لباس کیسا پہنتا تھا‘‘ مغربی یا قومی گواہ: عجب من چلا تھا، کبھی تو سوٹ بوٹ میں ملبوس نظر آتا تو کبھی کبھی شلوار قمیض اور پگڑی میں گھومتا پھرتا۔ اس قسم کے چند اورسوالات کے بعد وکیل زچ ہوکر بولا: ٹھیک ٹھیک بتائو کہ وہ دراز قد تھا کہ پستہ قد؟ اس پر گواہ ترت بولا ’’بچیاں آے آ، جاں ویکھیاگھوڑی تے چڑھیا ویکھیا‘‘ (جب بھی دیکھا وہ گھوڑی پرسوار تھا) ایوب خان اپنی کتاب ’’جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی‘‘ میں لکھتا ہے۔ میں نے ایک جج سے پوچھا۔ ’’عدالت میں آپ کا دن کیسے گزرتا ہے؟ وہ بولے۔ ’’سماعت کے دوران میں صبح سے لیکر شام تک جھوٹ سُنتا ہوں ا ور بڑی عرق ریزی سے جھوٹ کے اس کھلیان میں سے سچ کے دانے تلاش کرتا ہوں۔
پولیس کا استدلال یہ ہے کہ برآمدگی کے وقت کوئی آدمی ساتھ چلنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ گواہی دینا تو بڑے دور کی بات ہے۔ عام لوگ ڈرتے ہیں۔ پرائی آگ میں کوئی بھی کودنے کو راضی نہیں ہوتا۔ پھر رات کے وقت دورانِ گشت کوئی ملزم پکڑا جائے اور اس سے ناجائز اسلحہ، منشیات وغیرہ برآمد ہوں تو گواہ کہاں سے آئیں گے۔ اس لئے انہیں سچے واقعے کے لئے بھی جھوٹی شہادت گھڑنی کرنا پڑتی ہے۔ قتل اور اس نوع کے دیگر مقدمات کے لئے بھی جھوٹی شہادت پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ قاتل یا مجرم کی کوشش ہوتی ہے کہ وقوعہ کے وقت کوئی عینی شہادت موجود نہ ہو۔ وہ چُھپ کر وارکرتا ہے، چہرے کو بھی حتی الوسع ڈھانپ کر رکھتا ہے۔ اس صورت میں مقتول یا مضروب کے رشتہ داروں کو گواہ بنانا پڑتا ہے جو جائے وقوعہ پر نہ ہونے کے باوصف عینی گواہ کہلاتے ہیں۔ وقوعہ ہونے کے بعد F.I.R درج کرنے میں ذرا سی بھی تاخیر استغاثہ کے لئے مہلک ہوتی ہے۔ یہ بسااوقات کئی گھنٹوں کی تاخیر کے بعد مقدمہ درج کرتے ہیں۔ درمیانی عرصہ میں روزنامچہ روک دیتے ہیں۔ پولیس کو کافی حدتک پتہ ہوتا ہے کہ جرم کسی شخص یا اشخاص نے کیا ہے۔ باایں ہمہ یہ مقتول یا مضروب کے رشتہ داروں کو شہہ دیتے ہیں کہ سارے خاندان کوابتدائی رپورٹ میں نامزد کیا جائے۔ ایک پنتھ دو کاج۔ لواحقین سے اس FAVOUR کے پیسے ملتے ہیں ، پھر ملزمان سے (ماسوائے اصل ملزم) ایک ایک کرکے سودا بازی کرتے ہیں۔ مرتاکیا نہ کرتا کے مصداق وہ خانہ نمبر 2 میں آنے کے لئے بھی خطیر رقم خرچ کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس قسم کے جھوٹے مقدمات میں کچھ بے گناہ لوگوں کوسزا ہو جائے لیکن اکثر بے گناہوں کے ساتھ گنہگار بھی شک کا فائدہ اُٹھا جاتے ہیں۔ گجرات کے ایک مشہور مقدمہ قتل میں جج صاحب نے تمام ملزمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کردیا۔ جسٹس بشیر الدین احمد کے فیصلے کا آخری حصہ بڑا سبق آموز تھا۔ انہوں نے لکھا:
COMPLAINANT HAS THROWN THE NET VERY WIDE, THE PROSECUTION SHUOLD THANK ITS STARS IF SOME REALLY GUILTY HAVE ALSO ESCAPED WITH THE INNOCENT
(مدعی نے لمبا جال پھینکا ہے۔استغاثہ کوجشن منانا چاہئے۔ اگر بے گناہوںکے ساتھ چند گنہگار بھی جال سے نکل گئے ہیں) برطانوی قانون سازوں نے فوجداری قانون کی اساس اس بنیاد پر رکھی تھی کہ چاہے سو گنہگار بچ جائیں لیکن ایک بیگناہ کوسزا نہیں ہونی چاہئے۔ یہاں سو گنہگار تو کسی طور بچ جاتے ہیں لیکن بیگناہ جھوٹی شہادتوں کی وجہ سے اکثر لٹک جاتا ہے۔ جج صاحب کا جذبہ قابلِ داد ہے۔ استدلال درست ہے لیکن جب تک پولیس ٹھیک نہیں ہوتی یہ محض ایک نیک خیال ہی رہے گا۔ اس پر عمل کرنا مشکل ہوجائے گا۔ پولیس کیسے درست ہو گی…؟
ہمیں یہ بات نہیں بُھولنی چاہئے کہ پولیس بھی اسی معاشرے کا ایک حصہ ہے جو معاشرے کی روش ہو گی اسی راہ پر یہ گامزن ہونگے۔ بالفرض کل کلاں معاشرے میں خوفِ خدا پیداہو جاتا ہے۔ ہر غلط بات نہ صرف غلط سمجھی جاتی ہے بلکہ کرنے والے سے نفرت برتی جاتی ہے، غلط کارکودُھتکار دیا جاتا ہے تو پولیس کیا کرے گی؟ قانون کی عملداری کے سوا ان کے پاس کوئی راستہ نہیں ہو گا۔ جب منفعت کا ہر راستہ بند ہوجائے گاتو پھر گناہ بے لذت کاارتکاب بھی نہیں ہو گا۔
جھوٹی گواہی ثابت کرنے کے لئے بھی گواہان درکار ہونگے۔ ایک دروغ گو دوسرے جھوٹے کے لئے کیونکر گواہی دے گا؟ کس قدر دکھ کا مقام ہے کہ جو ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا وہاں اسلامی شعائر سے عمداً اغماض برتا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جھوٹے پر لعنت کی ہے، لعنت اللہ علی الکاذبین (قرآن مجید) یہ بھی بتایا گیا ہے کہ حقوق اللہ کے معاملے میں تو معافی مل سکتی ہے۔حقوق العباد میں نہیں! جھوٹی گواہی دیکر کسی کو فائدہ یا نقصان پہنچانا بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ اسلام میں جھوٹی گواہی دینے والے کے لئے سخت وعید آئی ہے۔
قانون بنانا آسان ہوتا ہے۔ اس کا نفاذ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک PEOPLE RENDER HABITUAL OBEDIENCE (لوگ عادتاً اس پرعمل پیرا ہوں) موجودہ حکومت نے بڑے بلند بانگ دعوے کئے ہیں۔ ملک کومدینہ کی ریاست کی طرز پر چلانے کا عزم کیا ہے۔ اس کے لئے لوگوں کی سوچ بدلنا ہو گی۔ حکمرانوں کواپنے ذاتی کردار سے ثابت کرنا ہو گا کہ امیر اور غریب کے لئے ایک ہی قانون ہے۔ ان کے ارشادات محض کھوکھلے نعرے نہیں بلکہ وہ سنجیدہ ہیں۔
اس ملک کو ’’عدلِ جہانگیری‘‘ کی نہیں بلکہ عدلِ عمرؓ و علی ؓ کی ضرورت ہے۔ خان صاحب سنجیدگی سے سوچیں کہ اگرایک بدو مسجد نبوی میں کھڑا ہو کر خلیفہ وقت کی جواب طلبی کر سکتا ہے توکیا انہوں نے اپنے اور اپنے وزیروں اورمشیروں وغیرہ اور دیگر بست و کشاد کے لئے بھی کوئی طریقہ کار مقرر کیا ہے! بالفرض ایسا ہو جائے تو پھر جھوٹی گواہی دینے کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024