روس اور یوکرین فوری مذاکرات کریں گے، ٹرمپ کی پیوٹن کو 2 گھنٹے طویل فون کال

May 20, 2025 | 12:30

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ روس اور یوکرین فوری طور پر جنگ بندی اور جنگ کے مکمل خاتمے کے لیے مذاکرات شروع کریں گے، یہ بیان انہوں نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ 2 گھنٹے طویل فون کال کے بعد دیا ہے۔ ٹرمپ نے پیوٹن کے ساتھ ٹیلیفونک گفتگو کو انتہائی مثبت قرار دیا، اور یہ بھی کہا کہ امن کے لیے شرائط دونوں فریقین کے درمیان طے کی جائیں گی۔اگرچہ ٹرمپ کی طرف سے امید افزا باتیں کی گئی ہیں، اور انہوں نے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی سے بھی بات کی، تاہم جنگ بندی یا امن معاہدے کی صورت حال بظاہر قریب نظر نہیں آتی۔پیوٹن نے کہا کہ وہ یوکرین کے ساتھ ممکنہ مستقبل کے امن معاہدے کے حوالے سے ایک یادداشت پر کام کرنے کے لیے تیار ہیں، جب کہ زیلنسکی نے اسے ایک فیصلہ کن لمحہ قرار دیا، اور امریکا پر زور دیا کہ وہ مذاکرات سے خود کو الگ نہ کرے۔ٹرمپ کے ساتھ ون آن ون کال کے بعد زیلنسکی نے یوکرین کی مکمل اور غیر مشروط جنگ بندی کی خواہش کا اعادہ کیا، اور خبردار کیا کہ اگر ماسکو تیار نہیں ہوتا، تو زیادہ سخت پابندیاں عائد کی جانی چاہئیں۔صدر ٹرمپ کی پیوٹن سے گفتگو سے قبل یوکرینی صدر نے کہا کہ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ یوکرین سے متعلق کوئی بھی فیصلہ اس کی شمولیت کے بغیر نہ کیا جائے، اور اسے یوکرین کے لیے ’اصولوں کا معاملہ‘ قرار دیا۔انہوں نے مزید کہا کہ ’یادداشت‘ کے بارے میں کوئی تفصیلات دستیاب نہیں، لیکن جب روس کی جانب سے کچھ موصول ہوگا، تو وہ اس کے مطابق اپنا مؤقف تشکیل دے سکیں گے۔ٹرمپ نے کال کے بعد اپنے ٹروتھ سوشل پیج پر لکھا کہ روس اور یوکرین فوری طور پر جنگ بندی اور اس سے بھی اہم، جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات کا آغاز کریں گے، اور کہا کہ انہوں نے زیلنسکی کو اس بارے میں دوسری کال میں اطلاع دے دی ہے، جس میں دیگر عالمی رہنما بھی شامل تھے۔انہوں نے مزید کہا کہ ان مذاکرات کی شرائط دونوں فریقین کے درمیان طے ہوں گی، جیسا کہ ہونا بھی چاہیے، کیوں کہ وہ مذاکرات کی ان تفصیلات سے آگاہ ہیں جو کوئی اور نہیں جانتا۔زیلنسکی نے کہا کہ مذاکراتی عمل میں امریکی اور یورپی نمائندوں کی مناسب سطح پر شمولیت ضروری ہے۔وائٹ ہاؤس کے ایک ایونٹ میں بعد میں بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا تھاکہ امریکا روس اور یوکرین کے درمیان مذاکرات کروانے کے کردار سے پیچھے نہیں ہٹ رہا، لیکن اُن کے ذہن میں ایک ’ریڈ لائن‘ موجود ہے، جس پر پہنچنے کے بعد وہ دونوں فریقوں پر دباؤ ڈالنا بند کر دیں گے۔انہوں نے اس بات کی بھی تردید کی کہ امریکا اپنے ثالثی کے کردار سے دستبردار ہو رہا ہے۔حال ہی میں، ٹرمپ نے بارہا خبردار کیا ہے کہ اگر ماسکو اور کیف کی طرف سے امن کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہ ہوئی تو امریکا مذاکرات سے پیچھے ہٹ جائے گا، کیونکہ وہ دونوں کی غیر سنجیدگی سے مایوس ہو چکے ہیں۔جب ان سے روس کے حوالے سے خیالات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ لگتا ہے کہ پیوٹن اب جنگ سے تنگ آ چکے ہیں، اور وہ اس کا خاتمہ چاہتے ہیں۔دوسری جانب، پیوٹن نے سوچی شہر کے ایک میوزک اسکول کے دورے کے دوران ٹرمپ سے فون کال کو ’کھری، معلوماتی اور تعمیری‘ قرار دیا، اور جنگ بندی کے امکان پر بات کی۔انہوں نے کہا کہ ہم نے امریکی صدر کے ساتھ اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ روس امن معاہدے کے ممکنہ مستقبل پر یوکرین کے ساتھ مفاہمتی یادداشت پر کام کرنے کی پیشکش کرے گا اور اس کے لیے تیار ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اس میں حل کے اصولوں اور ممکنہ امن معاہدے کو مکمل کرنے کے لیے ایک ٹائم لائن سمیت ’چند نکات‘ کی وضاحت کی جائے گی، جس میں کسی مخصوص مدت کے لیے جنگ بندی کا امکان بھی شامل ہے، بشرطیکہ متعلقہ معاہدے طے پا جائیں۔روسی صدر کے معاون یوری اوشاکوف نے کہا کہ جنگ بندی کے وقت کا فریم واضح طور پر زیرِ بحث نہیں آیا حالاں کہ ٹرمپ نے یقیناً اس بات پر زور دیا کہ وہ جلد از جلد کسی معاہدے پر پہنچنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

مزیدخبریں