پال پوس کر بیٹا جوان کرنا کیا ہوتا ہے، وہ فقط ایک ماں ہی سمجھ سکتی ہے۔ اپنی کوکھ سے جنم دے کر اسے دنیا میں لانے والی ماں اسے چھوٹے چھوٹے لفظ بولنا سکھاتی ہے، انگلی پکڑ کر پاؤں پاؤں چلاتی ہے، اسے کبھی چوٹ لگ جائے تو تڑپ تڑپ جاتی ہے، جو محبت ایک ماں اپنی اولاد سے کرتی ہے، کائنات کی ہر محبت اس کی جوتی کی مٹی کی دھول پر واری جا سکتی ہے۔ لیکن اسی ماں کو جب سبز ہلالی پرچم پہ اپنے جوان سپوت کی وردی خوبصورتی سے تہہ لگا کر رکھ کر دی جاتی ہے تو وہ اسے چوم کر آنکھوں سے لگا کر کہتی ہے یہ ایک بیٹا تھا۔ ایسے ایک ہزار ہوتے تو میں وطن پہ وار دیتی، یہی وہ جذبہ ہے جو ہماری افواج کی خاصیت ہے کہ اس پاک وطن کی عظیم مائیں گھٹی میں حب الوطنی پلا کر بھیجتی ہیں، ہمارے مذہب میں وطن کی محبت ایمان کا جْزو ہے اور شہادت ہمارا ورثہ ہے۔ لیکن نہتے شہری جو اپنے گھروں میں سو رہے تھے یا جو نمازی مسجد میں یادِ خدا میں مگن تھے انہیں نشانہ بنانا اور پھر سرے سے مکر جانا ہمارے دشمن کی عسکری و اخلاقی پستی کا بدترین مظاہرہ ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ دو ممالک کوئی دنیا میں پہلی بار لڑے ہیں، انسان نے جب سینیشن سٹیٹ سسٹم کی بنیاد رکھی اقوام اس سے پہلے بھی آپس میں لڑا کرتی تھیں، اور اس کے بعد بھی لڑتی رہیں، لیکن دنیا نے جنگ کے بھی کچھ قوانین بنا رکھے ہیں، جنیوا کنوینشن نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ ‘‘جنگ کی صورت میں سویلین پر جان بوجھ کر حملہ کرنا وار کرائم ہے۔’’ 15 دسمبر 1975ء کو اپنے تیرہویں اجلاس میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے یہ قانون پاس کیا کہ جنگی حالات میں انسانی حقوق کو مدِ نظر رکھا جائے گا۔Hague convention 1907کہتی ہے کہ جو شہر گاؤں اور قصبے فوجی تنصیبات سے دور ہوں ان پر حملہ نہیں کیا جا سکتا۔ Brussels Conference 1874کہتی ہے کہ مذہب، ثقافت اور تعلیم سے متعلقہ عمارات پہ بمباری نہیں کی جا سکتی۔ ان کے علاوہ قدیم یونانی اور اسلامی قواعد و ضوابط کی رو سے بھی Non-combatants جیسے عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں کو نہیں مارا جا سکتا۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ بھارت نے جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف بے گناہ شہریوں کو شہید کیا بلکہ کمال ڈھٹائی سے انڈین ائیر فورس کے ترجمان نے بھارتی میڈیا بریفنگ میں بیان دیا کہ ‘‘اگر سویلیئنز کی موت ہوئی ہے تو گنتی کرنا ان کا کام ہے، ہمارا کام لاشوں کی تعداد گننا ہر گز نہیں’’ آئی ایس پی آر کے اعداد و شمار کے مطابق 6-7 مئی کی درمیانی رات کو ہونے والے حملے میں 40 بے گناہ شہری شہید ہو? جن میں سات خواتین اور پندرہ بچے شامل ہیں۔ بہالپور میں ڈیڑھ سالہ حوا، تین سالہ عروہ، چار سالہ عمار، چھ سالہ عمر اور تیرہ سالہ محمد ، آزاد کشمیر کی تین سالہ فاطمہ اور ہادیہ، سات سالہ ارتضیٰ، آٹھ سالہ ہارون ، بارہ سالہ عمر اور احتشام، پندرہ سالہ نبیل اور گوجرانوالہ کے بارہ سالہ ابراہیم اور ایک سالہ حبیب نے اللہ جانے کون سے مورچے سنبھالے ہوئے تھے کہ انہوں نے وطن پہ جان نچھاور کر دی۔
اسی طرح مسرت نامی تریسٹھ سالہ بزرگ خاتون اللہ جانے گھر کے آنگن سے کون سے گولے برسا رہی تھیں کہ بھارت انہیں سویلین ماننے کو تیار نہیں، شعبہ درس و تدریس سے وابستہ عائشہ اور اقصیٰ، ساٹھ سالہ گھریلو خاتون زاہرا جمیل سمیت سدرہ ، عریشہ، کوثر، نبیلہ، شمیم ، کنیز، اور رحمت جان بھی وہ گھریلو خواتین ہیں جنہوں نے اس وطن کی مٹی کو اپنے لہو سے سیراب کیا۔ کشمیر کی مصباح اور سمرہ جیسی نوجوان طالب علموں نے ابھی اپنی اپنی دنیا دیکھنی تھی، ان بچوں میں کوئی ہمارے مستقبل کا ڈاکٹر ، انجینئر، سول سرونٹ ، تخلیق کار، وکیل آرٹسٹ یا فوج کا جانباز سپاہی ہو سکتا تھا، ان بچوں کی ماؤں نے ان کے حسین مستقبل کے لاکھوں سپنے اپنی پلکوں پہ سجائے ہوں گے جو سب کے سب ایک شدت پسند ملک کی جنگی جنونیت کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ہم یہ لہو رائیگاں نہیں جانے دیں گے، ریاستِ پاکستان آپ کی قربانی کو نہیں بھولے گی، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور بالخصوص افواجِ پاکستان آپ کے ممنون و مشکور ہیں۔ آپ کا لہو اس مٹی پر قرض ہے، تاریخ میں جب جب اس خونی رات کا ذکر ہوگا آپ کو خراجِ عقیدت پیش کیا جائے گا۔ اللہ جانتا ہے کوئی کسی کا چاہے جتنا مرضی قریبی مر جائے وہ چند سالوں میں بھول بھْلا جاتے ہیں، بس ایک کوئی نہیں بھول پاتا تو یا اولاد یا والدین۔۔ اور ریاست تو ماں ہوتی ہے نا ،اے راہِ حق کے شہیدو، ریاست آپ کی قربانی نہیں بھولے گی۔ ریاست نے آج آپ کو پرچم میں لپیٹ کر سپردِ خاک کیا ہے، ہر سال یومِ شہدا اور یومِ معرکہِ حق پہ جہاں آپ کا خاندان آپ کی برسی پہ قبر پہ پھول نچھاور کرے گا ساتھ کہیں کوئی فوجی جوان پرچم کو سلیوٹ مار کے آپ کو یاد کرے گا، جہاں آپ کے گھر میں صفِ ماتم بچھے گی وہاں پورا ملک ہر ٹی وی چینل سے آپ کی قربانی یاد کروائے گا اور کم و بیش ہر پاکستانی آپ کے حق میں دعائے مغفرت کرے گا، چند سالوں میں شاید آپ کے رشتہ دار آپ کو بھلا دیں، لیکن آپ کی افواج ہمیشہ آپ کو شہدا کی یادگار میں شامل رکھیں گی۔ اور آپ نے یہ ثابت کیا ہے کہ پاکستان کی حفاظت پر مامور صرف چند لاکھ فوجی نہیں ہیں، اس ملک کا بچہ بچہ اس کا سپاہی ہے اور مشکل پڑنے پر ہر شہری سیسہ پلائی دیوار بن کر ملک کا تحفظ کرنے کے لیے اپنی جان وار دے گا۔
خونِ دل دے کے نکھاریں گے رخِ برگِ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے
٭…٭…٭
اے راہِ حق کے شہیدو
May 20, 2025