سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں لوگو اللہ کی بارگاہ میں خوب رویا کرو۔ اگر رونا نہ آئے تو کم از کم رونے والی حالت بنا لیا کرو۔روایت میں ہے کہ جب سیدنا صدیق اکبر ؓ قرآن مجید کی تلاو ت فرماتے تو مشرکوں کی عورتیں اور بیٹے کھڑے ہو جاتے اور اس پر تعجب کرتے اور ان کی طرف دیکھتے رہتے اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ خوف الٰہی میں بہت رونے والے آدمی تھے۔ آپ کو اپنی آنکھوں پر قابو نہ تھا۔ جب آپ قرآن پاک کی تلاوت کرتے تو یہ چیز قریش کے مشرک سرداروں کو مضطرب کر دیتی۔( بخاری )۔
احیا علوم الدین میں ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ایک پرندے کو دیکھ کر فرماتے ہیں اے پرندے کاش میں تیری طرح ہوتا انسان نہ ہوتا تا کہ مجھ سے حساب و کتاب نہ لیا جاتا۔
حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خشیت کا عالم یہ تھاکہ حضرت عبد اللہ بن شداد فرماتے ہیں ایک مرتبہ میں نے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے پیچھے فجر کی نماز پڑھی جب آپ نے سورۃ یوسف کی یہ آیت تلاوت کی ترجمہ :’’ میں تو اپنی پریشانی و غم کی فریاد اللہ ہی سے کرتا ہوں۔" توآپ کی چیخ نکل گئی۔
حضرت عبداللہ فرماتے ہیں میں نے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی چیخ اور ہچکی بندھنے کی آواز سنی حالانکہ میں آخری صف میں کھڑا تھا۔( مصنف عبد الرزاق)۔
حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خشیت کا یہ عالم تھاکہ آپ راتیں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں آہ و زاری کر کے گزارتے تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا گزر جب بھی کسی قبر کے پاس سے ہوتا تو دھاڑیں مار مار کر روتے۔ آپ کا غلام بیان کرتا ہے کہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ جب بھی کسی قبر کے پاس سے گزرتے تو اس قدر روتے کہ آپ رضی اللہ عنہ کی داڑھی مبارک تر ہو جاتی۔(مسند احمد)۔
حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خشیت کا عالم یہ تھاکہ جب اللہ تعالیٰ کے حضور نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو خشیت الٰہی سے آپ رضی اللہ عنہ کے اوپر لرزہ طاری ہو جاتا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ رات کا زیادہ حصہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور نماز میں گزارتے اور بہت کم آرام فرماتے تھے۔ اپنی ریش مبارک پکڑ لیتے اور بیمار شخص کی طرح لوٹ پوٹ ہوتے اور انتہائی غمگین آدمی کی طرح روتے یہاں تک کہ صبح ہو جاتی۔( طبقات الکبری)۔
اگر ہم اپنی زندگیوں پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ہم نے خشیت الٰہی کو صرف الفاظ تک محدود کر دیا ہے۔زبان پر ذکر الٰہی تو ہے پر دل میں خوف خدا نہیں ،بازاروں میں دھوکہ ،نا انصافی ، جھوٹ ،معاشرے میں ظلم اور عبادات میں ریاکاری۔ یہ سب خشیت الٰہی کے فقدان کی علامات ہیں۔خشیت الٰہی ایمان کی روح ہے جو انسان کو ظاہری و باطنی گناہوں سے بچاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے راستے پر گامزن کرتی ہے۔ آج امت مسلمہ کے زوال کی وجہ خشیت الہی سے دوری ہے۔ جب تک دلوں میں اللہ تعالیٰ خوف واپس نہیں آتا ہم اپنی اصلاح نہیں کر سکتے۔ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ خشیت الٰہی کو اپنے دل میں جگہ دے اپنے اعمال کا محاسبہ کرے اور اپنی زندگی کو اللہ کے احکام کے مطابق گزارے اسی میں دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔
خشیت الٰہی (۲)
May 20, 2025