بنگلہ دیش ایئرلائن کا طیارہ اپنا ایک ٹائر کہیں گرا بیٹھا۔
کہتے ہیں ناں! بھائی بھائی ہوتا ہے‘ ان میں بہت سی عادتیں یکساں ہوتی ہیں۔ اب یہی دیکھ لیں کچھ عرصہ پہلے ہمارے ایک طیارے نے تین ٹائروں کے ساتھ کامیاب پرواز اور لینڈنگ کی تھی اب بنگلہ دیشی بھائیوں نے بھی یہی کارنامہ کردکھایا۔ گویاہماری اچھائی برائی بھی ملتی جلتی ہیں۔ بنگلہ دیش تو ہمارا جڑواں بھائی ہے۔ ہاں یہ علیحدہ بات ہے کہ جوانی کے ایام میں ذرا شوق آوارگی کہہ لیں یا غیروں کی صحبت میں کھو کر وہ ہم سے ذرا دور ہو گیا تھا۔ مگر دیکھ لیں جب غیروں کا چڑھایا نشہ ہرن ہوا تو اسکے دل میں چھپی محبت جاگ اٹھی اور وہ پھر ہماری طرف دوڑا چلا آیا۔ دوسروں نے لاکھ بہکایا مگر جب دل جاگ جائے، ضمیر بیدار ہو جائے تو مخالفوں کی ریشہ دوانیاں ناکام ہوتی ہیں۔ اب وہ لوگ کہاں ہیں جو مطالعہ پاکستان کی آڑ میں ہماری تاریخ میں کیڑے نکالتے پھرتے تھے کہ دیکھا یہ سب غلط ہے کیونکہ وہ مطالعہ پاکستان اندرا گاندھی کی آنکھ سے پڑھنے کے عادی تھے۔ وہ بھارتی دانشوروں کی ذہنی غلامی کے عادی تھے مگر اب گرد بیٹھی تو بھائیوں کے صاف چہرے نمایاں ہو گئے۔ ان دونوں بھائیوں کا اتحاد ہمارے مشترکہ دشمن کی موت ہے۔ بنگالی‘ بہاری آج بھی اگر جیوے جیوے پاکستان کہتے ہیں تو یہ ہم بھائیوں کی جیت ہے۔ کہتے ہیں ناں؛
دل سے ملے دل دور ہوئی مشکل دل سے ملے دل
مشکل سے ملے پر مل ہی گئے ہیں آخر آج یہ دل
تو جناب آج اسلام آباد سے ڈھاکہ تک جو راہیں ممنوع تھیں‘ کشادہ ہو چکی ہیں۔ خدا کرے یہ حسنِ زن قائم رہے۔ محبت و اخوت میں اضافہ ہوتا رہے۔ ہم یکجان دو قالب بنے رہیں۔ رونا لیلیٰ‘ شہناز بیگم‘ شبنم‘ روبن گھوش اور آر اے رحمان کی آواز، اداکاری ہمیں
یہ موسم یہ مست نظارے پیار کرو تو ان سے کرو
کی یاد دلاتے رہیں اور سونے کے ریشے والی پٹ سن سے چمکتا ہوا سنہری بنگال ہم دیکھتے رہیں؟ جہاں سندر بن کے حسین جنگلات ہیں‘ دریائے برہما پتراور بوڑھی گنگا کا حسین زرخیز ڈیلٹا بھی جو کروڑوں انسانوں کیلئے رزق پیدا کرتا ہے‘ جہاں کے جنگلات کے شکار ہاتھی‘ شیر اور مگرمچھوں کی کہانیاں ہمیں اے حمید مرحوم سناتے رہے ہیں۔
بارڈر کے بعد ملک میں بھی سیاسی سیزفائر ہونا چاہیے‘ چیئرمین پی ٹی آئی۔
بات تو درست ہے کہ بارڈرز پر الحمدللہ کامیابی کے بعد اب پی ٹی آئی کے چیئرمین گوہر کو خیال آہی گیا ہے کہ ملک میں بھی سیاسی میدان میں سیزفائر ہونا چاہیے۔ یہی بات عرصہ دراز سے کئی سیاسی جماعتیں اور حکمران کہہ رہے تھے مگر فریق مخالف ان پر کان دھرنے کو تیار نہیں ہو رہے تھے۔ اس وقت ان کو لگتا تھا میدان انکے ہاتھ میں ہے۔ حکومت اور فوج کو وہ عوام کے سامنے کہہ لیں یا نظروں سے گرانے میں کامیاب ہوئے ہیں مگر جنہیں اللہ کریم عزت دے‘ کامیابی و کامرانی دے‘ انہیں کوئی کیا رسوا کریگا۔ کہاں وہ پہلے بانی کی رہائی سے کم پر راضی نہیں نہ ہوتے تھے آج کہتے ہیں بامعنی مذاکرات کیلئے بانی کو پیرول پر رہا کیا جائے۔ کہتے تھے فارم 47 کی بنی حکومت سے بات نہیں کرینگے‘ بااثر مقتدر طبقے بات کریں‘ آج دیکھ لیں وقت کیسا پلٹا کہ پوری قوم افواج پاکستان کے ساتھ کھڑی ہے اور جیل میں بانی میں اور میری تنہائی والی نظم یاد کر رہے ہونگے۔ انکی بات میں وزن تھا۔ آج وہ خود اپنی جنگ لڑتے لڑتے بے وزن ہو گئے ہیں۔ ان کا سب سے بڑا ہتھیار سوشل میڈیا ہے جس پر فیک نیوز چلانے والے کئی افراد کا سوفٹ ویئر اپ ڈیٹ ہوا ہے۔ باقی اپنی تشریف بچانے کے چکروں میں ہیں۔ یہ ابھی تک ریاست اور ریاستی اداروں کیخلاف منفی باتیں کرنے سے باز نہیں آرہے۔ کھلم کھلا بھارت اور افغانستان والی پاکستان دشمن زبان بولتے ہیں اور دام کھرے کرتے ہیں۔ انکی طرف سے سیاسی میدان میں سیزفائر کی باتیں بھی کوئی بہانہ لگتی ہیں۔ ورنہ ملک اپنا‘ فوج اپنی‘ عوام اپنے تو جنگ کیسی اور کس کے ساتھ۔ یہ لوگ تو بھارت کی وجہ سے آج تک عوام کو ملک کو فوج کو کامیاب جنگ میں فتح کی مبارکباد نہیں دے پا رہے۔
خیبر پی کے میں اربوں روپے کی کرپشن کے قصوں پر وزیراعلیٰ کی پراسرار خاموشی۔
امید ہے اس اعلیٰ کارکردگی کے جواب میں وزیراعلیٰ خیبر پی کے فلمی بڑھکوں کے سٹائل میں تقریر جھاڑنے کے بجائے دوسرے صوبوں میں ہونے والے کھیلوں کے حوالے سے کوئی الزامی نہیں‘ تحقیقاتی رپورٹ پیش کرکے اپنے کاندھوں کا بوجھ کم کریں گے۔ پہلے بات ہو جائے ڈی جی خان میں پارک کی تعمیر پر ہونے والے اخراجات میں صرف پانچ ارب روپے کی کرپشن کی واردات کی۔ شاید اس پارک کی تعمیر میں چاند کی مٹی بچھا کر خوبصورت‘ امریکی‘ جاپانی اور نایاب غیرملکی پودے پھل اور پھول والے درخت لگانے تھے‘ جو اتنی رقم صرف گھپلوں کی نذر ہو گئی۔ ابھی چند دن پہلے ہی خیبر پی کے میں 16 ارب جی ہاں اتنی بڑی رقم کے گھپلے کی کہانی سامنے آئی تھی‘ اسکے علاوہ اور بھی متعدد زیرگردش ہیں اگر ان سب کو جمع کیا جائے تو کافی مواد مستقبل کے محققین کیلئے دستیاب ہو سکتا ہے۔ بے شک باقی صوبوں میں بھی کوئی سرسوتی یا گنگا یا جمنا نہیں بہہ رہی‘وہاں بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔ اب اسے بے نقاب کرنا علی امین گنڈاپور کا کام ہے جو وہ کرنے کی بجائے صرف اڈیالہ جیل گرا کر اپنے قیدی کو چھڑانے‘ عوام کے جم غفیر کو سڑکوں پر آنے کی دعوت دیتے پھرتے ہیں جو انکی قیادت میں جا کر یہ معرکہ جیت کر سرخرو ہونا چاہتے ہیں۔ مگر اس وقت نہ سیاسی کارکنوں کا نہ عام آدمی کا ایسا کوئی موڈ لگ رہا ہے کہ وہ سوچیں جبکہ مفرور مراد سعید سوشل میڈیا پر پرانی فلمیں چلا چلا کر عوام کو یاد دلا رہا ہے کہ ان لوگوں سے محبت نہ کریں جنہوں نے تم پر ظلم کئے ہیں۔ بانی پارٹی کے حاضر عہدیدار ہر قانون سازی کو منظور کرانے کیلئے ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں کہ پہلے ہمارے قیدی کو رہا کرو گویا یہ قیدی قانون نے نہیں‘ حکومت نے پکڑا ہے۔
٭…٭…٭
مفتی عبدالقوی کی لال مسجد میں مولانا عبدالعزیز کے ہاتھوں چھترول‘ باہر نکلوا دیا۔
کہتے ہیں
جس کو ہو جان و دل عزیز
اسکی گلی میں جائے کیوں
تو جناب اب مفتی عبدالقوی کو کس نے لال مسجد جانے پر اکسایا اور وہاں جانے کا مشورہ دیا کہ یہ معصوم مفتی اسیدعوت سمجھ کر قبول کر بیٹھا۔ اور یوں
جب بہار آئی تو صحرا کی طرف چل نکلا
صحن گل چھوڑ گیا‘ دل میرا پاگل نکلا
کیا انہیں یاد نہیں رہا کہ ان کی چلبلی طبیعت کی وجہ سے سخت گیر موقف رکھنے والے عالم کے نزدیک وہ ناقابل معافی ہیں۔ ان میں یہ بھی شامل ہیں۔ مفتی قوی نے تو اندر گھسنے کی حماقت نجانے کیسے کی‘ اب جیسے ہی مفتی عبدالعزیز کو پتہ چلا تو وہ دوڑتے چلے آئے اور انکی خوب کلاس لی اور انہیں فوری طور پر مسجد سے نکلنے کا حکم دیا اور کہا کہ یہ بدمعاش جہاں ملے اس کو کوڑے مارے جائیں۔ یوں اب لگتا ہے خدا کے گھر میں کوئی وہاں کے متولیوں کی اجازت کے بغیر داخل نہیں ہو سکتا۔ بے شک مفتی عبدالقوی کی بے باک حرکات‘ تصاویر اور غیرخواتین کے ساتھ آزادانہ میل جول خود انکے کردار اور علماء کیلئے بدنامی کا باعث بنا ہے‘ لگتا ہے اس پر انہیں ابھی تک معافی نہیں ملی۔ جب مولانا عبدالعزیز انہیں جھاڑ رہے تھے‘ جلی کٹی سنا رہے تھے‘ مفتی قوی کمال مہارت کی اداکاری کرتے ہوئے اپنا موبائل فون کان سے لگا کر وہاں سے چلتے بنے۔ یوں ظاہر کیا کہ کچھ سنا ہی نہیں‘ یہ بھی بڑے دل گردے کی بات ہے۔
٭…٭…٭
منگل‘ 22 ذیقعد 1446ھ ‘ 20 مئی 2025 ء
May 20, 2025