گلوبل ویلج
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
یہ طالب علمی کے زمانے کی بات ہے۔ میں گورنمنٹ اسلامیہ کالج میں زیرِ تعلیم تھا اور سٹوڈنٹ یونین کے انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ میرا تعلق اسلامی جمعیت طلبہ سے ہو گیا۔ ان کا فلسفہ ’’اللہ اور اس کے رسول حضرت محمدﷺ کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق انسانی زندگی کی تعمیر کے ذریعے رضائے الٰہی کا حصول‘‘ مجھے اس قدر متاثر کن لگا کہ میں نے اسے اپنا نصب العین بنا لیا۔ ہم بھی دنیا بدلنے کا عزم لے کر میدان میں نکلے تھے۔
اسی دوران اْس وقت کے صدرِ پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق (مرحوم) نے سٹوڈنٹ یونینز پر پابندی عائد کر دی۔ اس کے ردِعمل میں اسلامی جمعیت طلبہ، انجمن طلبہ اسلام (ATI)، مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن (MSF)، پیپلز سٹوڈنٹ فیڈریشن (PSF) اور دیگر طلبہ تنظیموں نے طلبہ کے حقوق کے لیے جدوجہد کا منصوبہ بنایا۔ میں نہ صرف اپنے کالج کا سٹوڈنٹ یونین کا صدر تھا بلکہ اسلامی جمعیت طلبہ کا ناظم بھی تھا، چنانچہ مجھے ڈویڑن گوجرانوالہ کی سٹوڈنٹ ایکشن کونسل کا چیئرمین بنا کر تحریک کا آغاز کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔
ملک بھر میں سٹوڈنٹ مظاہرے شروع ہو گئے۔ طلبہ حکومتی جبر کے خلاف ڈٹ گئے۔ کہیں کہیں جلاؤ گھیراؤ، توڑ پھوڑ اور بسوں کو آگ لگانے جیسے واقعات بھی پیش آئے۔ پولیس نے بے شمار طلبہ کو جھوٹے مقدمات میں نامزد کر کے حراساں کرنا شروع کر دیا۔ مجھ پر بھی کئی جعلی مقدمات قائم کیے گئے۔ جب حالات میرے اور میرے گھر والوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہو گئے تو انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ کچھ دنوں کے لیے پنجاب سے کراچی منتقل ہو جاؤں تاکہ پولیس اور سیکیورٹی اداروں کی کارروائیوں سے محفوظ رہ سکوں۔
قارئین! یہاں سے سید عشرت رضوی کے ساتھ یادوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ میترانوالی میں ہمارے قصبے کے قریب ہمارا "کھوہ" اور زمین تھی، اور ہماری زمین کے ساتھ سید عبدالشکور شاہ صاحب (مرحوم) کی زمین واقع تھی، جو ہمارے زمیندارے میں پڑوسی بھی تھے۔ ان کا ایک خوبصورت فارم ہاؤس نما گھر قصبے کے باہر تھا۔ وہ میرے والد اور دادا کے بہترین دوست تھے۔ ان کے تین بیٹے سید عشرت رضوی، سید فرحت رضوی اور سید راحت رضوی میرے ہم عمر تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے آخری دور میں، قومی اتحاد کی نظامِ مصطفیٰ تحریک میں سید عشرت رضوی نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اس کی پاداش میں انہیں پنجاب چھوڑنا پڑا اور انہوں نے بقیہ تعلیم کراچی میں اپنے اقربا کے ہاں مکمل کی۔
جب میں نے روپوشی کے دنوں میں کراچی جانے کا فیصلہ کیا تو یہی سوچا کہ عشرت بھائی کے پاس جاؤں، وہ میرے لیے بڑے بھائی کی حیثیت رکھتے تھے اور خود بھی جبر و ستم کا سامنا کر چکے تھے۔ جب میں کراچی ریلوے اسٹیشن پہنچا تو وہ اپنے دوستوں کے ہمراہ دو گاڑیوں میں مجھے ریسیو کرنے آئے ہوئے تھے۔ ایک خوشگوار ہجوم کی شکل میں ہم اسٹیشن سے اْن کے گھر ’’ڈرگ کالونی‘‘ پہنچے۔ انہوں نے پہلے ہی میری رہائش، طعام اور دیگر ضروریات کا بندوبست کر رکھا تھا۔ جلد ہی انہوں نے اسلامی جمعیت طلبہ کراچی کے مرکزی ذمہ داران سے میری ملاقاتوں کا انتظام بھی کر دیا اور یوں میرے شب و روز ایک بار پھر پنجاب کی طلبہ زندگی کی طرح معمول پر آ گئے۔
سید عشرت رضوی اْس وقت پاکستان اسٹیل مل میں بطور انجینئر خدمات انجام دے رہے تھے اور اسٹیل مل یونین کے مرکزی ڈھانچے کا حصہ بھی تھے۔ میرے آٹھ ماہ کے قیام کے دوران نہ صرف میرے رہن سہن، کھانے پینے، ٹرانسپورٹ اور دیگر ضروریات کا خیال رکھا بلکہ دفتر جانے سے پہلے روزانہ میرے تکیے کے نیچے میری ضروریات کے لیے رقم رکھ جاتے۔ میں انہیں منع کرتا تو خفگی سے کہتے: ’’اگر میرا چھوٹا بھائی راحت یہاں ہوتا تو کیا میں اس کے لیے یہ سب نہ کرتا؟ پھر تم راحت کے کلاس فیلو بھی ہو، ہمارے گھر کے فرد کی طرح ہو۔‘‘
عشرت بھائی کی محبت، خلوص اور شفقت دیکھ کر مجھے اکثر لگتا کہ اس دنیا میں حیاتیاتی رشتوں کے علاوہ بھی کچھ رشتے ہوتے ہیں، بس انہیں محسوس کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
کراچی قیام کے دوران رات کو عشرت بھائی کا ’’ڈیرہ‘‘ سجتا، دوست و احباب کی محفلیں ہوتیں، سیاسی گفتگو، ہنسی مذاق اور کبھی کبھی ہلکی پھلکی موسیقی بھی ان محفلوں کا حصہ بنتی۔ جب پنجاب کے حالات بدلے تو میں نے تقریباً آٹھ ماہ بعد واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ روانگی کے وقت کراچی اسٹیشن پر یوں لگا جیسے ٹرین مارچ ہونے والا ہو۔ عشرت بھائی کے دوست شفقت صاحب اور کوئٹہ سے آئے جمعیت کے رہنما جمیل مگسی صاحب سمیت کئی دوست موجود تھے۔
پنجاب واپسی کے بعد تعلیم اور طلبہ سرگرمیاں جاری رہیں۔ مگر ضیاء الحق مرحوم کے جبر کے باعث مجھے پہلی بار پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ چونکہ فلائٹ کراچی سے زیورخ جاتی تھی، میں دوبارہ کراچی پہنچا۔ عشرت بھائی حسبِ معمول موجود تھے۔ چند گھنٹے ان کے گھر قیام کیا اور رات کو وہ ایک جلوس کی شکل میں مجھے ایئرپورٹ الوداع کہنے آئے۔
کراچی میں یہ بات بھی دیکھی کہ سیالکوٹ، گوجرانوالہ اور پنجاب سے آنے والے اکثر لوگ عشرت بھائی کے ہاں قیام کرتے، اور جب میں ان سے پوچھتا تو ہنس کر کہتے: ’’مطلوب بھائی! یہ سب کچھ دنیا میں ہی رہ جانا ہے۔‘‘
چند ماہ قبل جب ان کی اچانک رحلت کی خبر ملی تو دل کو گہرا دکھ ہوا، مگر یہ سوچ کر کچھ اطمینان ہوا کہ سید عشرت رضوی جنت میں بھی سجنوں کی محفلیں اور دوستوں کا ڈیرہ ضرور لگاتے ہوں گے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ سید عشرت رضوی جیسے انسان دوست اور مخلص ہستیاں دنیا میں بھیجتا رہے تاکہ وہ اپنے حسنِ اخلاق اور خدمتِ خلق کے جذبے سے انسانیت اور محبت کا درس دیتے رہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ان کے بھائی سید راحت رضوی اور ان کے بیٹے اپنے والد کے مشن کو آگے بڑھاتے رہیں گے۔
قارئین! میرے دوستوں کی محفلوں میں اکثر کہا جاتا ہے کہ مطلوب وڑائچ نے ہمیشہ اپنے دوستوں اور انسانیت کا بھرم رکھا۔ مجھے یہ سن کر خوشی ہوتی ہے، لیکن جب عشرت بھائی کا خیال آتا ہے تو سوچتا ہوں کہ سب میرے احسان مانتے ہیں، مگر میں زندگی بھر سید عشرت رضوی کے احسانات کا مقروض رہوں گا۔
عجب شخص تھا، اب اس دنیا میں نہیں رہا۔
دنیا کی رونقیں سمیٹ کے چل دیا،
مگر ایسا چراغ جلا گیا جس کی روشنی ہمیشہ قائم رہے گی۔
بیادِ سید عشرت رضوی
May 20, 2025