اطہر وحید کے ساتھ موٹیوشنل نشست 

May 20, 2025

محمد حمزہ عزیز 

تحریر: حمزہ چوہدری 
موٹیوشنل سپیکر یقینا اپنی جگہ معاشرے کے لیے بہت اچھا کام کررہے ہیں - لیکن کامیاب افراد کے حقیقی تجربات دوسرے لوگوں کے لیے بھی مشعل راہ ہوتے ہیں ، ناکامیوں اور مشکلات پر قابو پا کر آگے کیسے بڑھا جا سکتا ہے ،
کبھی زندگی ہمیں کچھ ایسے لمحے عطا کرتی ہے جو ہمارے سوچنے کا زاویہ بھی بدل دیتے ہیں۔ کچھ ملاقاتیں رسمی دائرے سے نکل کر دلوں کو چھو جاتی ہیں،۔ نیشنل ویڑن تھنک ٹینک کے زیرِ اہتمام لاہور میں ہونے والی ایک خصوصی نشست میں ایسے ہی ایک لمحے کا تجربہ ہوا، جب لاہور کے چیف ٹریفک آفیسر، ڈی آئی جی اطہر وحید تفصیلی تبادلہ خیالات کا موقع ملا۔خوشگوار ماحول میں  غیر رسمی نشست،  دل سے نکلی ہوئی باتوں پر مشتمل تھی۔ اطہر وحید کی گفتگو کا آغاز ہی کچھ اس رنگ میں ہوا کہ محفل ساکت ہو گئی۔ انہوں نے اپنی زندگی کی کہانی سنائی۔ بغیر کسی بناوٹ، بغیر کسی دکھاوے کے۔ انہوں نے صاف الفاظ میں تسلیم کیا کہ بچپن میں وہ پڑھائی سے خاص رغبت نہیں رکھتے تھے۔ والدین اور بھائی سمجھاتے، لیکن ان کا جواب ہوتا ‘‘پڑھوں گا تو اپنی مرضی سے، ورنہ بالکل نہیں پڑھوں گا۔’’
ان کا تعلیمی سفر اسی مزاج کی تصویر تھا۔ میٹرک اور انٹر میں محض مناسب نمبروں سے کامیاب ہوئے، لیکن پھر زندگی نے ایک ایسا موڑ لیا جو ان کی تقدیر بدل گیا۔ بیچلرز کے دوران جب انہوں نے دیکھا کہ ان کے دوست سی ایس ایس اور پی سی ایس کی تیاری کر رہے ہیں، تو دل میں مقابلے کی چنگاری بھڑک اٹھی۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ بھی امتحان دیں گے، اور یوں مسلسل محنت کے بعد سیکشن آفیسر کی حیثیت سے سول سروس میں قدم رکھا۔ لیکن اصل کہانی تو تب شروع ہوئی۔
ایک دن دوران ڈیوٹی ایک تھانے کے ایس ایچ او سے تلخ واقعہ پیش آیا۔ طاقت  کے نشے میں چور اس تھانیدار  نے نہ صرف بدتمیزی کی بلکہ اطہر وحید صاحب  کی سرِعام بے عزتی  کرنے کی کوشش کی۔ ان پر جھوٹے الزامات لگائے گئے، اور ان کی عزتِ نفس کو کچلنے کی کوشش کی گئی۔  ایسے موقع پر اکثر لوگ یا تو ٹوٹ جاتے ہیں یا سسٹم کو چھوڑ دیتے ہیں۔ مگر اطہر وحید نے اس تلخی کو اپنی طاقت بنایا۔ انہوں نے انتقام نہیں، اصلاح کا راستہ چنا۔ واپس یونیورسٹی گئے، ایم فل میں داخلہ لیا، اور ساتھ ساتھ سی ایس ایس کی تیاری بھی شروع کردی۔ پہلی بار پاس ہونے کے بعد انہیں ریلوے گروپ ملا، لیکن ان کا دل صرف پولیس سروس کے لیے دھڑکتا تھا۔ دوسری دفعہ جب امتحان دیا تو نہ صرف پولیس سروس آف پاکستان میں کامیابی حاصل کی، بلکہ پورے پاکستان میں اٹھارہویں پوزیشن حاصل کی۔ 2003 میں ان کی نئی زندگی کا آغاز ہوا، ایک ایسی زندگی جس کا ہر دن عوامی خدمت سے وابستہ تھا۔
جب ان کے کیریئر پر نظر ڈالی جائے، تو حیرت ہوتی ہے۔ انہوں نے بتایا: ‘‘میں اپنے 22 سالہ کیریئر میں 17 بار OSD بنایا جا چکا ہوں۔’’یہ سن کر میں چونک گیا۔ میں نے پوچھا: ‘‘ کیا آپ کبھی تھکے نہیں؟ کیا دل نہیں۔ وہ مسکرا کر بولے: ‘‘شروع میں بہت پریشانی ہوئی، لیکن پھر سمجھ آ گیا کہ OSD بننا نظام کا ایک حصہ ہے۔ میں نے ہر بار اسے ایک وقفہ سمجھا اور خود کو ریفریش کرنے کا، فیملی کے ساتھ وقت گزارنے کا، اور نئے جذبے کے ساتھ واپس میدان میں آنے کا۔’’ یہ صرف الفاظ نہیں تھے، بلکہ ایک افسر کی زندگی کا نچوڑ تھا۔ ایک ایسا افسر جو ہر ناکامی کو موقع سمجھتا ہے، ہر زخم کو سبق، اور ہر رکاوٹ کو سیڑھی۔
اپنی موجودہ ذمہ داریوں کا ذکر کرتے ہوئے اطہر وحید نے بتایا کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے انہیں مکمل اختیار دیا ہے کہ وہ لاہور کو ایک منظم، صاف اور قانون پسند شہر بنائیں۔ انہوں نے محض تین دنوں میں 1800 سے زائد ٹریفک کے خلاف ورزی کرنے والوں کو گرفتار کیا۔ خاص طور پر ون ویے ٹریفک کی خلاف ورزی پر سخت جرمانے 20 ہزار روپے کار مالکان کے لیے اور 2 ہزار روپے موٹر سائیکل سواروں کے لیے اس بات کا واضح پیغام ہیں کہ اب لا قانونیت برداشت نہیں کی جائے گی۔
لاہور کو بھکاریوں، غیر قانونی پارکنگ، اور فٹ پاتھوں پر قابض دکانداروں سے نجات دلانے کے لیے ٹریفک پولیس بھرپور مہم چلا رہی ہے۔
یہی وہ مہذب رویہ ہے جس سے پولیس اور عوام کے درمیان خلیج کم ہو سکتی ہے۔ نشست کے اختتام پر نیشنل ویڑن تھنک ٹینک کی جانب سے انہیں اعزازی شیلڈ پیش کی گئی۔ انہوں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اور تھنک ٹینک جیسے ادارے اگر یکجا ہو جائیں، تو وہ صرف باتیں نہیں کرتے، وہ اصلاح، شعور اور بہتری کے عملی سفر کا آغاز کرتے ہیں۔
ڈاکٹر اطہر وحید ایک ایسی مثال ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ اگر نیت صاف ہو، دل میں عوام کے لیے درد ہو، اور اصولوں پر سمجھوتہ نہ کیا جائے، تو کوئی طاقت راستہ نہیں روک سکتی۔آج  جب اطہر وحید جیسے افسران   اپنی ذمہ داریوں کو نہایت اخلاص، جر?ت اور تدبر سے نبھا رہے ہیں، تو ہم شھریوں بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم نظم و ضبط، قانون پسندی اور سماجی  شعور کا مظاہرہ کریں۔ کیونکہ  لاہور جیسے شہر کو بہتر بنانے کی یہ جدوجہد صرف پولیس کی نہیں، ہم سب کی ہے۔ اور جب عوام اور ادارے ایک صف میں کھڑے ہو جائیں، تو تبدیلی صرف خواب نہیں رہتی—وہ حقیقت بن جاتی ہے

مزیدخبریں